شیطان۔۔۔ معاذ بن محمود

وہ لمس تھا جو اسے اپنی محدود دنیا میں پائے جانے والے چند ایک رنگوں سے روشناس کروانے کا باعث بنتا تھا۔ ان چند رنگوں کوچھوڑ کر اس کی دنیا بے رنگ تھی۔ بات اگر بے رنگ تک محدود رہتی تو شاید اس کا سنبھلنا قدرے آسان ہوتا۔ اس لمس کے بغیر اسکی دنیا بدبودار بھی تھی، اذیت ناک بھی۔

کیا سوچ رہے ہو؟

آنیہ نے اسے اچانک سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔

نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔ بس ویسے ہی۔۔

ابا کے بارے میں سوچ رہے ہو؟

احمر جو درحقیقت ابا کے مقابلے میں ابا کے دیے زخم کے بارے میں سوچ رہا تھا، آنیہ کا سوال سن کو چونک پڑا تھا۔ سوال غیر متوقعہرگز نہ تھا۔ اس کی نیلی، سوجی آنکھ اور زخمی ہاتھ کو نظر انداز کرنا کسی بھی ذی شعور کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ تو پھر آنیہتھی۔ کہنے کو پڑوسی مگر بچپن اکٹھا گزارتے جوان ہونے والی آنیہ۔ پہلی محبت کرنے والی آنیہ۔

دکھاؤ ذرا۔۔۔ کہاں چوٹ لگی۔۔

آنیہ نے احمر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے ہاتھ پر موجود زخم جانچنے کی کوشش کی۔ احمر کا بائیں ہاتھ کی الٹی جانبانگوٹھے اور انگلی کے درمیان زخم تازہ تھا۔ اصولا یہاں ٹانکے ہونے چاہئے تھے تاہم ڈاکٹر کے پاس جا کر احمر کو قانونی الجھن کاسامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ بہتری اسی میں تھی کہ گھر میں موجود جراثیم کش محلول کے ذریعے جان چھڑائی جائے۔

احمر۔۔۔ تمہارے ابا تم سے کب تک چڑتے رہیں گے؟

آنیہ کے اس سوال کا جواب احمر کے پاس موجود نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آنکھ کھولتے ہی اس نے باپ کو خود سے الجھن زدہ پایا۔ اباکو اس سے نفرت تھی وہ یہ جانتا تھا۔ کیوں تھی، یہ بات آج تک اس کی سمجھ سے باہر رہی۔ وہ ابا کی ہر بات ماننے کی کوششکرتا مگر ہر بار کوئی نہ کوئی کسر رہ جاتی۔

اور نتیجہ کبھی ابا کے موٹے سول والے جوتے سے تو کبھی ابا کی جوانی کے بلے سے اور کبھی ابا کی بیلٹ سے چار چوٹ کی مارکی صورت میں نکلتا۔ اب تک وہ قصور یاد رکھنا چھوڑ چکا تھا۔ احمر بے حسی کی جانب گامزن تھا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ ابصرف زخم پر توجہ دے تاہم انسان تھا سو زخم کا مؤجب بننے والی مار بھولنے لائق نہ ہو پایا تھا۔ شاید جسمانی تکلیف وہ بھول بھیجاتا مگر ہر ضرب کے ساتھ اس کی عزت نفس جیسے آہستہ آہستہ چٹخ رہی ہوتی۔ ہر ضرب کے ساتھ پڑتی گالی اسے نفرت کااحساس دلاتی۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ بہت جلد ٹوٹنے والا ہے۔

اور عین اس وقت جب اسے اپنا آپ ٹوٹنے کے قریب محسوس ہوتا، اس کے اندر ایک بغاوت پیدا ہونے لگتی جسے باپ کی تعظیم کےپھندے پر چڑھا کر وہ مار کھانا جاری رکھتا۔

اس روز بھی اسے بیلٹ سے پیٹا جا رہا تھا جس سے بچنے کے لیے اس نے ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔ بیلٹ کا ہک کسی طرح اس کےانگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان پھنسا۔ ابا نے بیلٹ جو واپس کھینچی تو ہک ہاتھ کے گوشت میں پھنس کر اس کی کھالاکھاڑ بیٹھا۔ ابا اس کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔ کتنی ہی ضربیں اس کی کمر پر لگتی رہیں۔ تب تم اس کا ہاتھ خونم خون ہو چکا تھالہذا کمر پر پڑے زخم اسے یاد نہ تھے۔

پتہ نہیں آنیہ۔ کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے میں ابا کو بددعا دوں۔

باپ کو بددعا نہیں دیتے احمر۔ ان کے حق میں دعا کرتے ہیں

یہ گھر سے قریب پانچ سو میٹر دور نسبتا خاموش علاقہ تھا۔ یہاں پہاڑی علاقہ اپنی ڈھلان کو پہنچ کر ندی کو اپنے سنگم میں کچھیوں قبول کرتا کہ اس کے حق میں اپنی خاموشی قربان کر دیتا۔ اب یہاں ندی کے بہنے کی آواز باقی ہر شے پر حاوی تھی۔ اس علاقےمیں بارش اکثر ہوا کرتی لہذا زمین، درخت، پتے۔۔۔ سبھی ایک اداسی سے بھرپور نمی کی گواہی دیا کرتے۔

اس نے یہی اداسی محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔۔

پتہ نہیں۔ شاید ابا کے لیے دعا دینے والا دل مر چکا ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ ابلیس بذات خود ابا پر حملہ آور ہو اور ابا کے کئی ٹکڑےکر ڈالے۔ سوال تو ابلیس سے ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟

شش۔۔۔ بس۔۔۔ فضول باتیں مت کرو

یہ کہہ کر آنیہ نے اسے بازوؤں میں بھر لیا۔ اسے احمر کی آنکھوں کی نمی اپنے سینے کو تر کرتی محسوس ہوئی۔ عام طور پر احمرکے لیے اس کا بدن درد کے بھلا دینے کو ایک نشہ ہوا کرتا ہے تاہم آج اپنے کٹے پھٹے ہاتھ سے توجہ ہٹانا اس کے لیے مشکل تھا۔ آجباپ کے لیے نفرت کا جذبہ بھی اس کے دل کی چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر اسے توڑ رہا تھا۔

آج آنیہ کے لیے احمر کو اپنے جسم میں گم کر لینا قدرے مشکل تھا۔

ان دونوں نے کچھ دیر آنکھیں موند کر دنیا و مافیہا سے الگ تھلگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ شاید آنکھیں بند کر کے کچھ دیر ہر تکلیف ہردکھ ہر غم اور ہر مصیبت سے دور ہو سکیں۔

شاید۔۔۔

شاید دونوں کی کوشش کامیاب ہوئی۔ وہ اب خواب کی دنیا میں تھا۔ اس کا ہاتھ ابھی بھی دکھ رہا تھا مگر ارد گرد اداسی سےبھرپور نمی ختم ہو چکی تھی۔ اب ارد گرد دھوپ تھی۔ خوشیوں بھری دھوپ۔ چہرے پر پڑتی آنسووں کو خشک کرتی دھوپ۔ گال سرخکرتی دھوپ۔ اس لمحے اسے یوں معلوم ہوا کہ جیسے اس کی ساری خوشیاں اس طمانیت بھری دھوپ کے روپ میں موجود ہوں۔ اس نےدیکھا کہ سامنے آنیہ کا مسکراتا چہرا سورج کے مسکراتے چہرے کے آگے اس کی جانب متوجہ ہے۔ اسے محسوس ہوا جیسے یہخوشیوں میں خوبصورت ترین خوشی ہو۔

اور عین اسی لمحے اسے محسوس ہوا کہ جیسے دھوپ ختم ہونا شروع ہو چکی ہو۔ اچانک یوں معلوم ہوا کہ وہی اداسی بھری نمیماحول کو اپنی گرفت میں لینا شروع ہو رہی ہو۔

احمر کی آنکھ کانوں میں سیسہ پگھلاتی کرخت آواز سے کھلی۔ وہ کائنات میں ایک ہی کرخت آواز سے واقف تھا۔

اس کی نظر آنیہ پر پڑی جو بے خبر سو رہی تھی۔

اٹھو۔۔۔ اٹھو وہ یہاں آگئے ہیں

احمر۔۔۔ سونے دو

اٹھو۔۔۔ وہ آرہے ہیں۔ اب میری خیر نہیں

کون؟

آنیہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔

ابا؟ یہاں؟

ہ۔۔۔

اس سے پہلے کہ اس کا اثبات پوری طرح حلق سے باہر نکلتا ابا اس کی سامنے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کرکٹ کا بیٹ تھا جو اسکی ہڈیوں اور گوشت کا عمومی واقف کار تھا۔ ابا کی نظریں ان دونوں پر مرکوز تھیں۔

احمر کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔ اسے اچانک ہاتھ کا زخم مزید تکلیف دہ لگنے لگا تھا اور باقی جسم سے ٹیسیں بھی اٹھتی محسوسہونے لگی تھیں۔ وہ مزید کسی اذیت سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے لیے پیچھے دیکھنا جیسے ناممکن ہوگیا ہو۔ وہ بس ایکجانب بھاگتا رہا۔

اور چند لمحے شاید کئی سیکنڈ یا کئی منٹ بھاگنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ ہمیشہ کے برعکس اس کا پیچھا کرنے والا کوئینہیں۔

وہ رکا، اور کچھ سوچ کر واپس چل پڑا۔ وہ واپس اسی جانب چل رہا تھا جہاں سے بھاگ کر وہ پلٹا تھا۔

واپس چلتے ہوئے بھی اس کے دماغ میں اپنی پوری زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی۔ یقیناً یہ ایک پرتشدد فلم تھی۔ مار پیٹ اسکی یادوں کو دھندلا کر چکی تھیں۔ اسے بس زندگی کے ہر موڑ پر خود پہ اٹھتے ہاتھ نظر آتے۔ کبھی درخت کی شاخ سے مار جو اسکی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتی۔ کبھی ربڑ کے پائپ سے مار جو کئی سرخ لکیریں اس کے جسم پر ڈال دیتی۔ کبھی کرکٹ کے بلے سےضربیں جو اس کی ہڈیوں میں کئی روز درد بن کر بیٹھ جاتیں۔ کبھی بیلٹوں سے مار جو اسے سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی۔

کوئی شیطان، کوئی بھوت، کوئی عفریت، کوئی ابلیس جو ابا کو ختم کر دے؟

چلتے چلتے اسے ابا کا بلا نظر آیا۔ اس نے بے ساختہ بلا اٹھایا اور آگے چل پڑا۔

اداسی گندھی نمی کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر آواز دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ جیسے کسی کا گلا گھونٹتے ہوئےآواز پہلے رندھنا شروع ہو، پھر گھٹنا، اور پھر سانس بھی ختم۔ بس ویسے ہی اداسی کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر آواز کا دم گھونٹ کراسے موت کی جانب گھسیٹتی رہے۔

اس لمحے اسے ایسا ہی محسوس ہوا کہ جیسے ایک افسردگی ایک اداسی کئی آوازوں کا گلا گھونٹ رہی ہوں۔

اور پھر چند قدم چل کر اسے اندازہ ہوا کہ واقعی کہیں کسی آواز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

اس نے دیکھا کہ اس کا باپ آنیہ پر جھکا ہوا ہے۔ آنیہ کے منہ پر اس کے باپ کا ہاتھ ہے۔ آنیہ گھٹی گھٹی سسکیاں لینے پر مجبورہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کی پشت اور آنیہ کی ٹانگیں برہنہ ہیں۔ اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کا دوسرا ہاتھ آنیہ کے گلے پرہے جو پوری طرح اس کی گرفت میں ہے۔ اس نے دیکھا کہ آنیہ کے پیروں کی حرکت آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

عین اس لمحے احمر نے بلا اٹھا کر پوری قوت سے باپ کے سر پر وار کیا۔

اور چار سو مکمل خاموشی چھا گئی۔

اس نے آنیہ کی خوبصورت آنکھوں کی جانب دیکھا جو نہایت دھیمی حرکت کرتی زندگی کی جانب واپس آرہی تھیں۔

کوئی شیطان، کوئی بھوت، کوئی عفریت، کوئی ابلیس ابا پر حملہ کرتا تو کیسے؟ وہ تو خود سب سے بڑے ابلیس تھے

آنیہ خوفزدہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں خون آلود تھیں، پر نم تھیں۔

ابلیس مر گیا۔ ابلیس۔۔۔ مر گیا۔۔۔

وہ بڑبڑاتے ہوئے بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔

اب سے میں سب سے بڑا شیطان ہوں

۔۔

۔۔۔

julia rana solicitors london

۔۔۔۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply