الزائمر کیا ہے؟۔۔ضیغم قدیر

سب کہہ رہے تھے کہ مائی سٹھیا گئی ہے، بڑا بیٹا سب سے آگے تھا جو  کہہ رہا تھا کہ بڑھاپے میں تو مائی بابے دونوں سٹھیا کر ہم پر عذاب بن گئے ہیں اور یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تا کہ ہم سب زچ ہو جائیں۔ اور وہ سب واقعی زچ ہو گئے تھے۔

انکی اماں جو پانچ سال پہلے ہنس مکھ تھی آہستہ آہستہ چڑچڑی ہونا شروع ہو گئی، ان کی عادتیں ”خراب“ ہونا شروع ہو گئیں ، کبھی مہمان آتے تو وہ بھدا سا لباس پہن کر سامنے آ جاتیں، ہر وقت طعنے اور کوسنے سنانے کو تیار رہتیں، اور تو اور گھر سے باہر جانے کے بعد گھر آنے کی بجائے ہمسائیوں پاس چلی جاتیں، اور آخر میں بہانہ بنا دیتیں کہ میں تو گھر کا راستہ بھول گئی تھی۔ بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیس سال ایک ہی گھر رہنے کے بعد بندہ کچھ بھول جائے؟
سب ڈرامے بازی ہے بڈھی کی!
اور تو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ چھوٹا جس نے ساری عمر مائی کا ناک میں دم کر رکھا تھا اب اسکا پسندیدہ ہو گیا تھا۔ بیٹیوں کو ہر وقت پیار اور بہو کو طعنے، بڑے بیٹے کو تو تسلیم کرنے سے ہی انکاری، اللہ معاف کرے بڑھاپے کی ان ڈرامے بازیوں کو۔

بڑا بھائی آج تپا ہوا تھا اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے خود پہ کنٹرول کرے مگر آج وہ پھٹ پڑا اور ماں جی کی ایک ایک خامی کھول کر بیان کر دی ان کے مطابق یہ محض ڈرامے بازی ہے۔
مگر کیا واقعی یہ ڈرامے بازی ہوتی ہے؟
اوپر لکھے گئے تین پیراگراف ہر تیسری جوائنٹ فیملی کی کہانی ہے جہاں ساٹھ کی عمر کراس کرتے ہی کچھ والدین ایسی عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اولاد اس کو ڈرامے بازی سمجھ کر ان سے برا برتاؤ کرتی ہے۔

لیکن یہ ڈرامے بازی ہرگز نہیں!

ہمارے ہاں سب کو پیٹ کے خالی ہونے کا تو بہت خیال ہے مگر جذبات کے خالی ہونے کا کسی کو خیال نہیں، یہی بات ہے کہ کوئی کھانا نا کھا رہا ہو تو ہم اس کو منانا شروع کر دیتے ہیں وہیں اگر کوئی بس کھانا ہی کھا رہا ہو کوئی دوسری بات نا کرے تو اس پہ توجہ نہیں دیتے۔ دماغی بیماریوں کے بارے میں ہماری آگہی نا ہونے کے برابر ہے۔
انسان جونہی بوڑھا ہونا شروع ہوتا ہے وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بیماریاں کسی کے لئے آسیب بن جاتی ہیں تو کسی کے لئے ڈراؤنا خواب۔ ایک ایسا ہی ڈراؤنا خواب الزائمر کی بیماری ہے۔ اس بیماری میں انسان اپنی یاداشت کھونا شروع کر دیتا ہے۔ اور بھولنے کی اس بیماری کے نتیجے میں وہ چڑچڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم اسے بڈھے کی ڈرامے بازیاں کہہ کر ان سے تلخی سے پیش آتے ہیں اور انکی بیماری بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

الزائمر کی بیماری ہے کیا؟
یہ بیماری ایک دماغی بیماری ہے جس میں ہمارے دماغ کے خلیے مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہمارا دماغ سکڑنے لگتا ہے۔ دماغ کے اس سکڑنے کی وجہ سے اس مریض کے سوچنے کی صلاحیت، سماجی برتاؤ اور روز مرہ کے امور کی صلاحیت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔
اس وقت دنیا میں وہ بوڑھے افراد جو یاداشت کھو جاتے ہیں ان کا 60-70% حصہ اس بیماری کا شکار ہے اور عموما 75 سال سے اوپر کی عمر میں اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اور اس بیماری کا اس وقت تک کوئی علاج نہیں ہے یہ بیماری ایک بار شروع ہو جائے تو رک نہیں سکتی۔ سائنسدان بہت محنت کیساتھ اس بیماری کے علاج کی کھوج میں ہیں کیونکہ آج یہ علاج نا ملا تو تیس سال بعد اس بیماری کے شکار افراد کی تعداد پندرہ کڑوڑ سے تجاوز کر جائے گی۔
الزائمر کی علامات کیا ہیں؟
الزائمر کی سب سے بڑی علامت یاداشت کا کھو جانا ہے ۔ اور سب سے ابتدائی علامت یہ ہے کہ وہ شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں کو یاد کرنے میں مشکل محسوس کرنا شروع کر دے گا۔ عام طور پہ قریبی عزیز اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو وہ اس کا پتا لگا سکتے ہیں۔ ان ابتدائی علامات میں سے کچھ یہ ہیں؛
ایک ہی بات یا سوال کو بار بار دہرائے جانا
باتوں کو انجانے میں بھول جانا
چیزوں کو غلط جگہ رکھ دینا
غیر عقلی حرکتیں یا باتیں کرنا
اپنے گھر کا راستہ بھول جانا یا اپنی جگہوں کو بھول جانا
اپنے رشتہ داروں کے نام بھول جانا
الزائمر کی وجہ سے سوچنے اور ریزن کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ آغاز میں یہ چھوٹی چھوٹی روز مرہ کی چیزوں کے بارے میں ختم ہونا شروع ہوتی ہیں وہیں آخر میں یہ ہر چیز کو بھولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ سازی کی صلاحیت کو کھو کر عجیب و غریب فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سماجی محافل پہ بچگاانہ حرکتیں اور بے جا غلط چیزیں چننا اسی کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ رفتہ رفتہ یہ پلان کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات کپڑے پہننا یا نہانا تک بھول جاتے ہیں۔

الزائمر کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
ابھی تک کے علم کے مطابق ہمیں محض اتنا پتا ہے کہ بڑھاپے کیساتھ اکثر ہمارے دماغ میں موجود کچھ خامرے اپنا فنکشن کھو بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں قریبی نیوران سیل مر جاتے ہیں۔ اگر ایک دماغی نیوران سیل مر جائے تو یہ باقی خلئیوں کی موت کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بیماری ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ ماحولیاتی عوامل، جینیاتی فیکٹر اور ہمارا لائف سٹائل ہے۔

اگر کسی کے والدین کو یہ بیماری ہے تو اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ اسے بھی یہ بیماری ہو گی کیونکہ ایک جین APOE کو اس بیماری کیساتھ حد سے زیادہ جڑا دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر گھر کا ماحول حد سے زیادہ تلخ ہے اور بڑھاپے میں کوئی اچھے سے برتاؤ نہیں کرتا تو تب بھی اس بیماری کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یا پھر اگر ہم ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں اور دماغی اور جسمانی ورزش سے گریز برتتے ہیں تو تب بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ سو ان سب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چونکہ عورتیں مردوں سے زیادہ جیتی ہیں تو انہیں یہ بیماری ہونے کا خدشہ حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنا لائف سٹائل ہیلتھی رکھنا چاہیے اور ایسی خوراک کھانی چاہیے جو کہ صحتمند آئلز رکھتی ہو اور بازاری گھی کم رکھتی ہو۔ اسکے علاوہ اگر گھر میں کوئی ایسا مریض ہے تو اس کے ساتھ حد سے زیادہ پیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ خود پہ قابو نہیں پا سکتے سو انکی باتوں کو درگزر کرنا سیکھنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات والدین کیساتھ ساٹھ سال کی عمر کے بعد بات چیت حد سے زیادہ بڑھا دینی چاہیے کیونکہ سوشلائزیشن اس بیماری کے خطرے کو کم کر دیتی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے والدین پہ غصہ کرنے کی بجائے ان کی اس بیماری کا خیال رکھتے ہوئے ان سے باتیں کرنی چاہیں۔ ایک بار یہ شروع ہو جائے تو واپسی کا رستہ کوئی نہیں یہ بڑھتی چلی جاتی ہے ابھی تک اس بیماری کا واحد علاج پیار ہے سو وہ اپنے والدین کو دینا کبھی مت بھولیں اور 60 کی عمر کے بعد ان کو مسائل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں تا کہ وہ اس ڈراؤنے خواب کو دیکھنے سے بچ سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply