نالائق حاضر ہو

ساری زندگی اپنے شرفِ انسانی ہونے کا گھمنڈ لئے جب موت نے گلے سے لگانے کی کامیاب کوشش کی تو پتا چلا کہ مہلت ختم ہو چکی ہے ۔۔۔ سانسیں تھم چکی ہیں ۔۔۔۔۔ جسم ساکن دشت و دیوار کی نحوست کا منظر پیش کررہا ہے ۔۔ اور اس ابدی حقیقت کے بعد ۔۔۔
خاصہ رحمت کا اعلان جاری ہوا ۔۔۔۔۔
““ یوم المحشر ““
اپنی آب و تاب سے آن پہنچا ۔۔۔۔۔۔ جواب دہی کے لئے میدان حاضر ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ صدائے ربی آئی ۔۔۔ اگلا بندہ حاضر ہو ۔۔
ناکام ، بوجھل ، کاہل ، ندامت کی بھٹی میں جھلسا ہوا سید شاکر حسین رضوی بدست التجا اپنی جگہ کھڑا ہو گیا ۔۔۔
آواز آئی ۔۔۔!!
سیدھے کھڑے ہو جائو ۔۔ پائوں بھی جنبش نہ کرنے پائیں ۔۔۔۔
اپنا نام بتلائو ۔۔۔۔
یا الہیٰ میں کمترین شاکر ہوں ۔۔۔
اچھا کمترین کب سے بن گئے ۔۔؟؟۔ پورا نام بتائو ۔۔۔
اے میرے رب اس نام کے ساتھ لاحقے اور سابقے تو صرف معاشرے میں پہچان کےلئے ساتھ لگے تھے وگرنہ ان پر کبھی غرور کرنے کی تمنا نہیں کی ۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اسلئے کہ تیرا حکم تھا ، ہر شخص برابر ہے اور کچھ زیادہ ہے تو تیری رحمانی نظر میں صرف تقویٰ ہے جس کا پیمانہ بھی تو نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے ۔۔ کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی کہ کون بڑا ہے کون چھوٹا ہے ۔۔۔۔ اور ویسے بھی خود نمائی کرکے کیا ملنا تھا جب مٹی میں خاک ہونا ہی سب کا مقدر ٹھہرا ۔۔۔ پھر دنیا میں یہ نام نہاد شخصی فضیلتیں تو خاصہ انسان کی غلاظت کے سوا کچھ بھی نہ ثابت ہوئیں ۔۔۔۔۔۔
تیرے گلے میں تیرا نامہ اعمال لٹکا ہوا ہے زور زور سے پڑھ ۔۔۔
یا الہیٰ معذرت ۔۔۔ صد معذرت ۔
میرے اندر اتنی سکت نہیں کہ تیری نافرمانی میں گزری پشیماں زندگی کی یہ شکست خوردہ روداد اس بھرے مجمعے میں سنائوں ۔۔۔۔ میں نے دنیا میں سُنا تھا کہ تو پردے رکھنے والا ہے ۔۔۔
پھر رحم کر میرے مالک ۔۔۔ رحم ۔۔ یہ ذلالت بڑی تکلیف دہ ہے ۔۔۔
تیری کُل کمائی کیا ہے ؟؟؟
ندامت اور رسوائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کیسے ؟؟؟
یارب مجھے تیری طرف رجوع کرنے کے لئے جتنے بھی راستوں پر لگایا گیا سب دھندلے ، پراگندہ اور بے ثمر تھے ۔۔۔۔
اچھا یہ بتا کس ڈھنگ لباس میں لیس ہو کر میری حضوری میں آتا تھا ۔۔۔۔۔؟
خدایا سچ پوچھو تو ابتدا میں ہررنگ کی ٹوپی کو امامہ سمجھ کر پہنا ، جہاں جہاں پتا چلا کہ حق یہ ہے وہاں وہاں نام نہاد پیشوائوں کی تعلیم کھنگالی
لیکن بے سود ۔۔۔ تو کہیں ملا نہیں ۔۔۔ کوئی بھی اپنے حجرے سے باہر کی دنیا قبول کرنے کو تیار نہ تھا ۔۔ سب نے اپنے عقیدے کے ماتھے پر ناجی کا بورڈ لگا رکھا تھا ۔۔۔۔

ہدایت تو تیری خالص دین ہے ۔۔۔ یہ کس وقت آئے اور کس روپ میں آئے عقل سے آگے کی بات ہے ۔۔۔ یونہی سرِراہ ایک محفل یاراں بڑی سادگی سے اپنی قربت کا پتہ دے رہی تھی ۔۔۔ بیٹھنے کا شرف ہوا تو کان پڑتی آواز میں سُنا ۔۔ ایک صاحب عقل کہہ رہا تھا کہ ان گروہ در گروہ سپہ سالاروں کا معاملہ خدا نے اپنے سپرد لیا ہوا ہے ، یہ جو بھانت بھانت کے پیروطریقت دنیا میں اپنی ریاکاری کو دوام بخشے بیٹھے ہیں ہم سے ان کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا ،،، بازپرس تو نفس کی ہے اور ہر کوئی اس کا جواب دہ ہے ۔۔ لہذا تاریخ کی ساری جامہ تلاشی لے لو ۔۔ کتابوں کے اوراق گھول کر پی جائو تمہیں کہیں بھی رسول اور اُن کے رفقا کے درمیان اس طرح کی سبز ، سفید ، کالی تفریق نہ ملے گی ۔۔۔
وہاں تو بقا کا ایک ہی راستہ وحدت تھا جو قرآن سے منسوب تھا۔۔۔ اگر محمد کا فالور بننا ہے تو فرقہ پرستی سے باز آجائو ۔۔۔ اور سیدھے قرآن سے رجوع کرو ، اس پر غور وفکر کرو ۔ یہ فکری نظارہ اجتماعی شکل میں اپنا کام کرے گا ،، اسکےلئے ذہنی طور پر قرآن کو خالص تعلیم سمجھو ۔۔۔ ۔ اس کے ابدی قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنے کےلئے خود کو ریاست بنائو ۔۔ قومیں اپنی تقدیر اُمم اسی طرح انجام دیتی ہیں ۔۔۔ ہرذی نفس کی کاوش رائیگاں نہیں جائے گی ۔۔۔ ۔۔۔ جب تم اُس کے نظام کے لئے تگ و دو کرو گے وہ تمہارے درمیان آ جائے گا ، وہ کہیں عرش پر بیٹھا مجبوروں ، نداروں ، مفلسوں کی بربادی کا تماشہ نہیں دیکھ رہا ۔ دراصل ہم نے اسے نافرمان قوم بن کر اوپر بٹھا لیا ہے ۔ اور اس کے کام کی ساری ڈور اپنے مقلدین کے ہاتھوں میں دے دی ہے ۔۔۔۔
ان مقلدین نے سرمایہ داری نظام کو بلند کیا ، جاگیرداری اور ملوکیت کو آباد کیا ،
یہ سادہ سی بات تھی جسے کوئی سمجھنے کے لئے تیار نہ تھا ۔۔۔۔ کوئی بھوکا مر گیا تو خدا ذمہ دار ،،، کوئی بے گھر ہو گیا تو قسمت کلاکار

Advertisements
julia rana solicitors

ہم اپنی بدحالی و زبوحالی کا قصوروار اغیار کو ٹھہراتے رہے ،، بیمار ہوئے تو آسمان سے چارہ گری ڈھونڈتے رہے لیکن دوائی گھر میں اونچی جگہ پر غلاف میں لپیٹ رکھی تھی ،، نگاہ نہ پڑی ۔۔۔۔
ان مقلدین کےطفیل ہم نے سیدھے سادھے دین کی کتنی راہیں بنا ڈالیں ۔۔ ارب ہا ہجوم رکھنے کے باوجود بھی کمزور ، مفلس اور ٹکڑوں میں بٹے اپنے آپ کو نوچ رہے ہیں ۔۔۔ اپنے اندر رستے زخموں کو کرید رہے ہیں ۔۔ پھر نالائق تو کہاں تھا ۔۔۔؟؟؟ کیا یہ آسان باتیں تجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں ؟؟
یا الہیٰ میں یہ باتیں سُن رہا تھا اور تیری کتاب کی طرف غور و فکر کےلئے مچلتا جا رہا تھا ۔یہ واحد انداز فکر تھا جو دل میں اُتر رہا تھا ۔۔۔ سب کچھ سامنے عیاں تھا ،، بھوک سے مداوے کی ہوائیں چل رہی تھیں ۔۔ امن کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔۔۔۔ میری آنکھیں تھیں منظر تھا اور ذہن پرجوش ۔۔۔۔ ۔۔ لیکن یہ موت بھی کمبخت ابھی آنی تھی ۔۔ مجھے مہلت نہ ملی میرے رب ۔۔۔ میں چاہتا تھا لیکن دیر ہو چکی تھی ۔۔
اگر کچھ دن اور مل جاتے تو شاید اپنی نالائقیوں پر عملی ندامت کا مظاہرہ کر لیتا ۔۔
کچھ پل ہی سہی ۔۔۔۔۔ لیکن آج تیرے حضور اس طرح لاچار شرمندہ نہ کھڑا ہوتا ۔۔۔۔۔۔!!
بس اب گزارش ہے دست بدست گزارش ہے کہ میری سزا میں نرمی کر دے ۔۔
میں تیرا نافرمان بندہ آخری وقت ہی سہی لیکن سمجھ ضرور گیا تھا کہ تو چاہتا کیا ہے ۔۔۔
قبول کر اس نادم کی استدعا قبول کر ۔۔۔۔۔

Facebook Comments

شاکرجی
میری سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔۔ میری کاوش غیر سنجیدہ نہیں ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply