محمد شبیر خان۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایک وقت تھا جب سامنا نہیں کر پاتے تھے چونکہ آپ کا اساتذہ میں شمار تھا۔ معلم کا درجہ تو اب بھی ہے لیکن براہ راست علم کی پیاس کی بجھائی پانچویں تک ہی رہ پائی۔آپ کا قد وہیں کا وہیں ہے اور سر کے بالوں تک نہیں تو کاندھوں تک ہم بھی پہنچ گئے ہیں البتہ آپ کا قدِ قدر و منزلت کل بھی اونچا تھا، آج بھی عروج پہ ہے اور آئندہ بھی اوج  و کمال رہے گا۔ کل تک آنکھیں نیچے کیے دو بول کافی سمجھتے تھے, اب یہ حال ہے کہ چند دن پہلے گھنٹوں ساتھ رہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ راز بھی فاش کیے جو آج سے پندرہ برس قبل کیے جاتے تو سر نے ایک ٹانگ پہ کھڑا کرنا تھا یا کسی میڈم کو فٹا تھمائے الٹے ہاتھوں پہ بجانے کا کہنا تھا۔ جب راز فاش کیا تو پوچھنے پہ انھیں بتائے دیا کہ ان حرکتوں میں کون کون شامل تھا جس کا نتیجہ قہقہوں کی صورت میں برآمد ہوا۔ کہنے لگے ان کے پاس وہ رجسٹر اب بھی موجود ہے جس میں ہمارا نام درج ہے۔ دراصل ہم پانچوں کا شرارتی ٹولا شام میں کرکٹ ٹورنامنٹ دیکھنے آیا کرتا تھا اور موقع پاتے ہی ایم ایس خانز سکول آف ایکسیلینس کے چور دروازے سے داخل ہوجایا کرتا اور کلاسز کا حشر نشر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی مثلاً  کرسیوں اور میز کی پھینک وینک، چاکس و ڈسٹرز کو ایک دوسرے پہ اڑانا، چارٹس کی پھاڑ دھاڑ، کھڑکیوں دروازوں سے لڑائی اور ڈیسکس کو الٹنا پلٹنا وغیرہ۔

آپ سزا دیتے تو کان سرخ ہونے لگتے کیونکہ آپ کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کانوں کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے مروڑنے پہ معمور ہوتی تھیں۔ آپ ہمیشہ وقت کی پابندی پہ زور دیتے تھے اور باقاعدگی سے ان بچوں کی لائن الگ سے ترتیب دی جاتی جو دیر سویر کے فلسفے کی قید سے آزاد تھے۔ لیٹ کمرز (late comers) سب سے آخر میں سر سے کلاس لے کے اپنی اپنی کلاسز کا رخ پکڑتے جہاں دوبارہ ڈپٹ ملتی چونکہ ان کی حاضری کے لیے رجسٹر کھولنے کی زحمت ٹیچرز گوارا نہ کیا کرتے۔ پہلی دفعہ سٹیج پہ چڑھ دوڑنے اور طسم سے رکوع کے خاتمے تک تلاوت کرنے کی سعادت اس ناچیز کو وہیں نصیب ہوئی جس کے پیچھے سر کی ذاتی اعتماد فراہمی کی کوشش شامل تھی۔ کلاسز لیا کرتے تھے لیکن کبھی کبھی ایسا ہوا کرتا تھا۔ عموماً آپ آفس کی ذمہ داری یا بڑی کلاسز کی تربیت میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ جب چھٹی کی گھنٹی بجنے لگتی تو آپ گراؤنڈ کی طرف لے جاتے اور ٹیبلز یعنی پہاڑے یاد کرائے جاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی پہاڑے فر فر  یاد ہیں۔

آپ مذہبی لگاؤ رکھتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ بڑی کلاسز کے بچوں کو مسجد میں بھیجا جاتا تاکہ ظہر کی ادائیگی یقینی بنائی جا سکے۔ آپ وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کے بھرپور حامی تھے اور زور دیا کرتے کہ جب طالب علم اسمبلی کے لیے آئیں تو قطار میں آئیں، جب نماز کے لیے مسجد نکلیں تو ریل گاڑی کی صورت نکلیں اور جب چھٹی ہو تو بھی چیونٹیوں کی طرح ترتیب سے گھر پہنچیں۔ آپ کہا کرتے کہ دونوں ہاتھوں کو اگلے کے کاندھوں پہ پھینک کر نظروں کو سر کی چوٹی پہ جمانا نظم و ضبط کی نشانی ہے۔ قطار میں سب سے چھوٹے کو سب سے آگے کھڑا کیا جاتا اور یوں سب سے لمبوترا سب سے آخری ہوا کرتا۔ جب چھٹی ہوتی تو رنگ زیب انکل کو ذمہ داری دی جاتی کہ بحفاظت گھروں کی طرف بچوں کو پھیر دیا جائے اور حادثے سے بچانے کا سامان کیا جائے۔ اس دور میں بند جلیبی یا بند سموسہ اندر پھینکنا آج پانچ ستارا ہوٹل چلے جانے جیسا تھا اور ایسا تبھی ممکن ہوتا تھا جب کوئی ہمت دکھاتا اور سڑک پار کر لیتا۔ سر نے وقفے کا وقت اسی لیے کم رکھا تھا کیونکہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ بچے دور بھاگ نکلیں کیونکہ وہ ہمیشہ باپ کی حیثیت سے بچوں سے جڑے رہتے اور خیال رکھا کرتے تھے۔ آپ گندگی پھیلانے کے سخت خلاف تھے اور کچرا آپ کی تنگی کا باعث تھا۔ آج بھی کاغذات پڑے دیکھیں تو جھک کے اٹھاتے اور انھیں محفوظ مقام دے دیتے ہیں۔ آپ کی خصوصی کاوشوں کے نتیجے میں سکول دور انتہائی کامیابیوں، خوشیوں اور کامرانیوں سے بھرپور رہا۔ غیر نصابی سرگرمیوں پہ خصوصی توجہ دی جاتی۔ کھیل کود تماشوں سے بھرپور وقت ہم نے وہیں دیکھا تھا۔ میجیکل شوز، کمانڈر سیف گارڈ ٹیم کی آمد، کالگیٹ والوں کی صفائی نصف ایمان ہے پہ خصوصی سرگرمیاں اور دیگر پروگرامز آپ کی خصوصی کاوشوں کا صلہ تھا۔ ہر ہفتے بزم ادب اور سالانہ بڑے گراؤنڈ میں مقابلہ جات بھی آپ کی کاوشوں اور دلچسپیوں کے مرہون منت تھا۔ آپ نے باصلاحیت ٹیچرز کی ٹیم تشکیل دی تھی جن کی محنتوں کے ثمرات آج بھی طلباء تک پہنچ رہے ہیں۔ تجویز یہی ہے کہ سابقین سے رابطوں کے ذریعے ان کی کارکردگی رپورٹ محمد شبیر خان سکول آف ایکسیلینس کے ماتھے پہ سجائی جائے تاکہ دیکھنے والوں کو یہ فور گراؤنڈڈ سرگرمی کشش دلا پائے۔

آپ ایک انتہائی دیانت دار، امانت دار اور عظیم شخصیت ہیں۔ آپ کا مقام کوہ ہمالیہ سے اونچا، اور زبان شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ کہتے ہیں کہ زبان وہ تالہ ہے جب کھلے تو بتاتا ہے کہ یہ کوئلے کی یا سونے کی دکان ہے۔ آپ تو ماشااللہ ہیروں کی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ آپ ارکان اسلام پہ سختی سے کاربند اور معاملات میں انتہائی پختگی لیے عملی شہادت ہیں۔ شرفاء کی فہرست میں آپ کا نام ہے۔ قاری نظر آتا ہے مگر حقیقت میں ہے قرآن کی عملی جگمگاتی تصویر ہیں۔ آپ کی خصوصی کاوشوں کی بدولت گاؤں میں دروس قرآن کا آغاز ہوا اور آپ کی خصوصی دلچسپیوں کے باعث وہ سفر جاری و ساری ہے۔

آپ سیاست کے داؤ پیچ سے بھی واقف ہیں اور سیاسی معاملات میں انتہائی پختگی کی علامت ہیں۔ جرگوں میں شرکت اور انھیں کارآمد بنانے میں ماہر ہیں۔ آپ کی شرکت کو اعتبار کی نگہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ آپ کو چیزوں کی باریکی کا علم اور معاملات کی پرکھ ہے۔ گاؤں میں چیزوں کا ان کی جگہ سے ہٹتے ہی اصل اور مقررہ جگہ بنائے دینا جانتے ہیں مثلا پانی کے مسائل کا حل نکالنا یا دیگر امور میں رائے دہی اور عملی پیشرفت آپ کا خاصہ ہے۔

آپ سیاست کی کمزوریاں جانتے ہیں۔ آپ خالی جگہیں پر کر رہے ہیں۔ آپ سیاست میں متبادل ہیں۔ آپ اچھائی کی نمائندگی کے لیے چنے گئے ہیں۔
آپ کی زندہ دلی مشہور ہے مثلاً  آپ کے سکول میں کئی ایسے بچے ہیں جن کی کئی مہینوں کی فیسیں باقی ہیں اور آپ فی الفور ان کے اخراج کا حکم نامہ جاری کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن کوئی بچہ تعلیم کے حق سے محروم نہ رہے, اپنے حق کی قربانی دیتے آ رہے ہیں۔ آپ صادق و امین ہے۔ آپ لیڈر ہیں اور چند دن پہلے ہی جلوے بکھیرتے دکھائی دیے جب ایک مجمع مسجد کے باہر آپ کو خصوصی توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایک سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں جو الجھے ہوؤں کو سلجھانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔

آپ کے لیے شاعر کا خصوصی تحفہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply