• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اعلائے کلمۃ الحق اور صدائے کلمۃ الحق۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

اعلائے کلمۃ الحق اور صدائے کلمۃ الحق۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

(“تزکیہ نفس اور قیامِ نظام” کے تسلسل میں چند احباب کے مزید سوالات کے جواب میں )

اَعلائے کلمۃ الحق کے حق میں نعرہ بلند کرنے والوں کے پاس شاید صدائے کلمۃ الحق کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہیں ہوتی۔ اپنی فہم دین کے مطابق وہ دینی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور جلد از جلد چاہتے ہیں‘ خواہ اس کے لیے انہیں کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے ‘ وہ بے دھڑک اختیار کرتے چلے جاتے ہیں، وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر قسم کی قوت کے ساتھ اشتراک و اتحاد کے قائل ہیں‘ خواہ اِس جدو جہد میں مقصود‘ مفقود ہی کیوں نہ ہو جائے۔

سوال یہ ہے کہ ہم پہلے سے بنی ہوئی مسجد کیوں گرانا چاہتے ہیں ،پہلے سے تعمیر اور زیر تعمیر ملک میں نظام اور نفاذ کے نام پر تخریب کیوں بپا کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے سے تعمیر شدہ پارلیمینٹ کو آخر مسمار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اسے مزید اسلامی پارلیمان بنانا چاہتے ہیں تو بہتر ہے‘ یہاں تزکیہ شدہ اراکین بھجوا دیئے جائیں ، یا پھر موجود اراکین میں خدا خوفی کا درس دیا جائے ، انہیں امانت اور دیانت کا سبق پڑھا دیا جائے۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ نیک ہو گا تو نیکی کے اثرات لامحالہ پورے ادارے پر مرتب ہوں گے۔ الغرض فرد کی تعمیر ہی سے ملّت کی تعمیر ممکن ہے۔ ملّت کا تصور افرادِ ملّت کے بغیر بھی ممکن ہے کیا؟ کیا اِسلام کا قیام مسلمانوں کو خارج اَز اِسلام کرنے کے بعد بھی ممکن ہے؟ اسلام بذاتِ خود جماعت المسلمین ہے، جماعت کے اندر جماعت سازی چہ معنی دار؟ اس کے معنی سوائے خروج کے اور کیا ہیں؟؟

ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں قوم و ملت کو اس طرح تقسیم نہیں کرتیں جس طرح دینی جماعتیں ملک و ملت کو تقسیم دَر تقسیم کر دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں اور ان کی بنیاد پر عوام سے ووٹ کی طلبگار ہوتی ہیں، اس کے برعکس دینی جماعتیں دین کی حرمت کے ساتھ خود کو بھی لازم و ملزوم مشتہر کرتی ہیں اور اپنی جماعت سے غیر متفق افراد کو لادینی عناصر قرار دے دیتی ہیں۔ شومئی قسمت ‘ ہر دینی جماعت دین کے نفاذ کو اپنے نفاذ کے ساتھ مشروط بھی کر دیتی ہے۔ اگر ان جماعتوں کا مقصد ِ وحید‘ نفاذ دین کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا تو یہ تعداد میں اتنی فراواں نہ ہوتیں، بلکہ ایک مقصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے میں ضم ہو جاتیں۔ہر جماعت کے پس پشت ایک مفسر ہے، اور ہر مفسر اپنی دینی تعبیر پر اصرار کرتا ہے، وہ اپنے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بھی اس کی طرح اعلائے کلمتہ الحق کا فریضہ سر انجام دے ، اِس کے برعکس توقع یہ کی جاتی ہے کہ اب جس اُمّتی نے دین کے لیے کام کرنا ہے‘ اُسے ہماری سربراہی میں ہمارا تابع فرمان رہ کر کام کرنا ہوگا۔ کم و بیش تمام نیم سیاسی اور نیم دینی جماعتوں کا اِس پر” اجماع” ہے کہ ان سے غیر متفق مسلمان یا تو ادھورے اور نامکمل مسلمان ہیں یا پھر کفر ، فسق اور زندیقیت میں بھٹک رہے ہیں۔ناموس ِ دین اور تحفظ ِ دین کے داعی بھی اسی مائینڈ سیٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

“اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر “پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے لیے ہر جماعت خود کو استعداد اور استحقاق میں انتہائی اہل تصور کرتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے‘ اگر کسی مریض کے طبی علاج معالجے کا لائسنس ہر کس و ناکس کو نہیں دیا جاتا اور نہیں دیا جاسکتا ‘ تو “اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا عَلم اْٹھانا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔دینی دعوت و ارشاد جیسا حساس شعبہ ہر کس و ناکس کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اِس اہم مسئلے کو حدیث ِ پاک کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں نماز کا ذکر ہے ، لیکن اِس حکم ِ خداوندی کی تفصیل ہمیں احکام ِ رسولِ کریمؐ میں میسر آتی ہے، اسی طرح قرآن میں زکوٰۃ کا ذکر ہے ، بار بار ذکر ہے ، لیکن زکوٰۃ کا نصاب اور دیگر احکامات ہمیں احادیث سے ملتے ہیں، قرآن میں حج کا ذکر بھی اِجمالی طور پر آیا ہے ‘جبکہ اس کی تفسیر و تفصیل ہمیں احکام ِ رسولِ کریمؐ سے میسر آتی ہے— بالکل اسی طرح “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا شعبہ ہے، اِس کی عملی تفسیر احادیث کی روشنی میں ملے گی۔ قولِ رسولِ کریم ؐ ہے “تم میں سے ہر شخص ایک راعی ہے ، اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا”۔ یہاں ” امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا دائرہ کار متعین کر دیا گیا—-یعنی “امر بالمعروف ونہی عن المنکر” کا عملی مظاہرہ اپنی اپنی رعیت کے دائرے میں ہوگا۔یہ کل عالمین صرف اور صرف رسولِ کریمؐ رحمت اللعالمین ؐکے دائرہ رحمت و رعیت میں ہیں—- کسی اُمتی کی رعیت میں یہ سب کچھ نہیں دیا گیا۔ اصلاح کا فریضہ اب اپنی اپنی رعیت میں ہوگا۔ مثال کے طور پر میں اپنی گاڑی میں میوزک چلانے پر اپنے بیٹے کی علی الاعلان گوشمالی کر سکتا ہوں‘ لیکن اپنے ہمسائے کے بیٹے کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا، کہ وہ میری رعیت میں سے نہیں ، اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اپنے محلے میں فساد پھیلانے کا موجب ٹھہروں گا۔ اپنے دائرۂ رعیت و تاثیر کے باہر” نہی عن المنکر” کا بے دریغ مظاہرہ مجھے “فساد فی الارض” کا مرتکب ٹھہرائے گا۔ اِس قرآنی ہدایت کو اِسی حدیث کی روشنی میں سمجھ لیا جائے تو داعی الی الخیر بہت سی سیاسی اور معاشرتی قباحتوں سے بچ سکتا ہے۔ قرآن کریم کی بہترین اور معتبر ترین تفسیر حدیث ِ رسولِ کریم ؐہے۔ اگر قولِ رسول ﷺ سے اعراض کرتے ہوئے اپنی ذہنی مشق اور جامد لغت کی مدد سے قرآن کی تفہیم کی جائے گی تو افہام و تفہیم کے باب میں بہت بڑی گمراہیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ مرشدی واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ’’الہامی کلام کی ذہنی تفسیر اَزخود غیر معتبر ہے‘‘

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ الہامی کلام کی ذہنی تعبیر کرنے والے ایک عجب فکری پیچیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ عقلی طور پر اپنے دین کو سب اَدیانِ عالم پر غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں— سائنس کی مدد سے اسے”برحق” ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیر مسلم مشاہیر کے اقوال گنوا کر دین ِ حق کی افادیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا دین‘دین ِ فطرت ہے۔ فطرت اَزخود غالب ہے، اسے غالب ثابت نہیں کرنا پڑتا۔ فطرت کا مقابلہ اور موازنہ انسان کے خود ساختہ نظاموں کے ساتھ نہیں کیا جاتا… یہ فطرت پر عدم اعتماد کی دلیل ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دین کا موازنہ دوسرے مذاہب سے کیوں کرتے ہیں؟ کیا اپنے دین کے بارے میں (معاذ اللہ) ہم کسی تشکیک کا شکار ہیں؟ اگر ہمارا دین سورج ہے—- اور واقعی سورج ہے کہ یہ” سراجاً منیر اً” کا عطا کردہ دین ہے— تو اندھیرے اِس سے خود ہی بھاگ جائیں گے۔ کیا اندھیروں کو بھگانے کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے؟ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب!! اگر ابھی تک دنیا اِس آفتاب سے فیض یاب نہیں ہوئی تو اِس میں قصور مسلمانوں کا ہےٗ اسلام کا نہیں—-مسلمان خود کو درست کریں،اپنی اصلاح اور تزکیے کے طرف لوٹ آئیں ، ہمارے دین کی روشنی ہمارے وجود سے چھن چھن کر خود ہی باہر آئے گی… ماحول منور ہو جائے گا—ریاست اور سیاست خود بخود معطر ہو جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

صرف اور صرف رسول ِ کریم ؐخاتم النّبیّنؐ ہی کی ذاتِ والا صفات ظاہر اور باطن میں کُل عالمین پر ایک قطعی حجت ہے— یہی ایک ذاتِ کامل ؐ ہے جو حجت ِ کامل ہے۔ کسی اُمتی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ تمام اُمت کے لیے عالم ِ ظاہر میں بھی حجت قرار پائے۔ اِس لیے اب کوئی اُمتی خواہ کتنا ہی مقرب و متقی کیوں نہ ہو ‘ باقی اُمتیوں کے لیے ایسی حجت قرار نہیں پائے گا کہ اُس کی رائے سے اتفاق نہ کرنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے۔ اب معاملات ِریاست بنانے اور چلانے کے لیے سب اُمتی”وامرھم شوریٰ بینھم” کے پابند ہیں۔ معاملاتِ ریاست ہوں ، معاملات ِ معیشت ہوں یا پھرمعاشرت‘سب مشاورت سے طے پائیں گے، کسی گروہ کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ بزعم ِ خویش خود کو مصلح قرار دے کر باقی اُمتیوں کو گمراہ سمجھ لے اوراُن کی سرکوبی کے مشن پر نکل پڑے، اور نہ ہی اُس کے لیے یہ کسی طور جائز ہے کہ وہ اپنی رائے دھونس اور طاقت سے دوسرے مسلمانوں پر مسلط کرے۔ اِسلام کی سیاسی تعبیر میں یہی غلطی بار بار دہرائی جاتی رہی۔ چاہیے کہ اس حوالے سے ہم اپنی اصلاح کریں، چاہیے کہ اب ایک اِصلاح یافتہ اْمتی دوسرے اُمتیوں کی اِصلاح محبت سے کرے، خدمت سے کرے اور اُس کے باطن میں جگہ پانے کے بعد کرے۔ فرد کی طرف توجہ کی جائےٗ ہجومِ کرگساں خود ہی چھٹ جائے گا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply