فراڈ اور دھوکا۔۔امجد اسلام امجد

یقینا یہ عنوان بہت چونکا دینے والا اور پریشان کن ہے ‘لہٰذا میں پہلے یہ واضح کردوں کہ اس کا تعلق میری ذاتی تحقیق یا نظریات سے نہیں ہے اور یہ عزیزی علیم احمد (وہی گلوبل سائنس والے) کی تازہ کتاب کا عنوان ہے جس کا ذیلی عنوان ’’تحقیق کی دنیا میں بددیانتی اور جعل سازی کی مختصر تاریخ‘‘ہے۔
علیم احمد کا ذکر میں پہلے بھی کئی کالموں میں کرچکا ہوں کہ اس نوجوان نے اپنے بھائیوں اور رفیقانِ کار کے ساتھ مل کر اُردو ماہنامہ ’’گلوبل سائنس‘‘ نہ صرف شروع کیا بلکہ بیس بائیس برس تک تسلسل کے ساتھ جاری بھی رکھا، سائنس سے دلچسپی رکھنے والے اور انگریزی سے کم واقف طالب علموں کے لیے یہ رسالہ بلاشبہ ایک نعمت کا درجہ رکھتا تھا۔ اب یہ رسالہ خریداروں اور اشتہاروں کی کمی کی وجہ سے دو سال سے بند پڑا ہے۔

علیم احمد نے اپنے پیش لفظ ’’جھوٹ سچ اور سائنس اور پس و پیش لفظ‘‘میں بڑے خوبصورت انداز میں تاریخی پس منظر سمیت دورِ جدید میں ذرائع ابلاغ کی غیر ذمے دارانہ اطلاعات کے روّیے کو جس طرح سے موضوعِ تنقید بنایا ہے اس کا ایک نمونہ دیکھیے۔
’’پہلے کوئی ہمارے سامنے ‘‘ کیا انٹرنیٹ پر غلط معلومات دستیاب ہوں گی؟ یا کیا اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں چھپنے والا مضمون غلط ہوسکتا ہے ؟ یا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین مذہبی پروگرام کا میزبان غلط کہہ رہا ہو‘‘ جیسے انداز میں دلائل پیش کرتا تو ہم اسے سمجھانے کی پوری کرشش کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے طفیل غلط اور صحیح کے پیمانے یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
آج وہ معتبر بے حس کے ’’فالورز‘‘کی تعداد زیادہ ہے یا جس کی ہر پوسٹ/ اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والوں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے ایسے لوگوں کو ہم ’’سماجی پائٹڈ پائپر‘‘ کہتے ہیں اور ان کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرنے والوں کو ’’شاہ دولہ کے جدید چوہوں‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس کے بعد وہ اُن سائنس دانوں یا سائنس سے متعلق ذمے دار لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی تحقیق کی کمی کو چھپانے یا کسی مخصوص نوع کی نسلی اور علمی بددیانتی سے کام لیتے ہوئے غلط اور غیر مصدقہ معلومات کو علمی تھیوری یا مصدقہ تحقیق کے طور پر پیش کرتے ہیں پہلے علمی حوالے کی ایک مثال دیکھیے۔
’’مغرب کے کچھ ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ ماہرین نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس کوئی قدرتی وبا ہرگز نہیں بلکہ اسے ’’ووہان‘‘ میں وائرس کی ایک تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا تھا جہاں سے یہ Leak ہوکر پہلے ووہان شہر میں اور پھر ساری دنیا میں پھیل گیا۔آپ کو یہ جان کر شائد صدمہ ہو کہ مذکورہ سازشی نظریے کو فروغ دینے والے صاحب کوئی گئے گزرے نہیں بلکہ فرانس سے تعلق رکھنے والے مشہور سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر لچ موٹیے ہیں جنھیں ایڈز وائرس (HIV)کی دریافت پر 2008 میں طب/ فعلیات کا نوبل انعام مل چکا ہے۔‘‘
اسی طرح نسلی تعصبات کے حوالے سے سائنس کے میدان میں جن بددیانتیوں کو بہت شہرت ملی ان میں سے ایک کا تعلق اس سائنس دان سے جا ملتا ہے جو جدید سائنس کے معروف ترین ناموں میں سے ایک ہے مگر اس کی تحقیق کی نظریاتی بنیاد میں اس کا نسلی تعصب کیسے رُونما ہوا ہے علیم احمد اسے یوں الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔
’’بہر کیف یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ڈارون نہ صرف خود سفید فام نسل پرست تھا بلکہ اُس نے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف ’’اصلِ انواع‘‘ (Origin of species) کے ذریعے اپنے ان نسل پرستانہ خیالات کو سائنسی بنیادوں پر بہت فروغ دیا اس کا سب سے بڑا ثبوت اس کتاب کا پورا عنوان ہے۔

’’فطری انتخاب کے ذریعے انواع کی ابتدا کے بارے میں یا زندگی کی جدوجہد میں حمایت یافتہ نسلوں کا تحفظ‘‘ اُس کے اس سچ کی مزید وضاحت پروفیسر ڈاکٹر اسٹیون روز نے کچھ اس طرح سے کی ہے ۔
’’اور یہ کہ سفید فام نسلیں بالخصوص سفید فام یورپی نسلیں’’ارتقائی اعتبار سے سیاہ فام نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور اس طرح ڈارون نے نسلی تفرقات اور نسلی درجہ بندی کو مضبوط بنایا۔‘‘
علیم احمد نے سماجی ڈارونزم Social Darwanism اور یوجینکس کے فروغ کا رشتہ جس طرح ہٹلر کی نسلی برتری کے فلسفے اور اس سے جڑے ہوئے مشہور ہولوکاسٹ سے جوڑا ہے وہ بھی اسی مسئلہ پر بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہے اس کتاب کی ایک اور بہت اہم خوبی اس کے آسان طرز نگارش سے قطع نظر اس کے ابواب کی بامعنی تقسیم اور انگریزی اصطلاحات کے ساتھ اُردو متبادلات کا اہتمام بھی ہے کہ قاری دونوں کو بیک وقت موجودگی سے کسی تفہیمی مشکل کا شکار نہیں ہوتا۔
جہاں تک سائنس میں فراڈ اور دھوکا دہی کے واقعات کا ذکر ہے ان کی تفصیل کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی غایت پر بھی دلچسپ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے بالخصوص دورِ حاضر میں ایسے کچھ واقعات کو (جن سے ہم سب کسی نہ کسی حد تک واقف ہیں) بہت ہی پرلطف انداز میں بیان کیا گیا ہے مثلاً پروفیسر غوری کی آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے جواب میں Theory of Associativity ’’قادر اور قدیر‘‘ تنازعہ لایا ۔ آغا وقار پٹھان کی پانی سے چلنے والی کار کا احوال جو یہ بتاتا ہے کہ سائنس کے نام پر فراڈ اور دھوکا ایک عالمگیر وبا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب کے بیک ٹائٹل پر اس کتاب میں اٹھائے گئے سوالوں ان کی تاریخ، نوعیت اور اہمیت کے بارے میںجو تحریر درج کی گئی ہے اس کے ایک پیراگراف کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں کہ اس میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی سی کیفیت ہے جو اس احساس کو مزید تقویت دیتی ہے کہ اردو زبان میں سائنس، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اس معاشرے کو علیم احمد اور ان جیسے دوسرے محنتی رضا کاروں کی حوصلہ افزائی کس قدر ضروری ہے اور یہ کہ یہ کام پورے معاشرے کی ذہنی سطح کو بلند کرنے کا ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جس کی قیمت صرف چند لمحوں کی سنجیدہ توجہ ہے اور بس۔
’’اس کتاب کے مطالعے سے آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ سائنس کے ’’مسٹر فراڈیوں‘‘ نے کس طرح دولت اور شہرت کمائی ڈارون کے ارتقائی تصورات کو کس طرح سفید فام نسل پرستی کو سائنسی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور لاکھوں انسانوں کو قتل کیا گیا اور نقلی رکازات کے ذریعے انسانی ارتقا کی ’’گمشدہ کڑیاں‘‘کیسی جعلسازی سے بنائی گئیں۔
غرض اپنے تمام ذیلی عنوانات سمیت اس کتاب کا مقصد قارئین کو موجودہ زمانے میں ’’سائنسی فیشن ‘‘ سے باہر نکال کر ’’سنجیدہ سائنسی فکر‘‘ کی طرف متوجہ کرنا اور اس قابل بنانا ہے کہ وہ سائنسی ترقی ، پیش رفت کے بارے میں معقول، متوازن اور غیرجانبدارانہ رائے قائم کر سکیں یعنی نہ تو وہ سائنس سے حد درجہ مرعوب ہوکر اسے کسی عقیدے کی طرح اختیار کریں اور نہ ہی سائنس کو مکمل طور پر برا سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت ہی کو اپنا نصب العین بنالیں۔‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply