اپنی دنیا خود پیدا کر۔۔۔ رابعہ احسن

اس کی آ نکھوں کے سامنے اس وقت جو منظر تھا وہ کسی قیامت کا ہی حصہ ہوسکتا تھا وہ جو اپنے نازک احساسات اور جذبات لئے کتنی دیر سے انتظار کی گھڑیاں گن رہی تھی اپنےحنائی ہاتھوں پہ اک لمس کی منتظر، آ نکھیں پھاڑے ششدر اس عجیب مخلوق کو دیکھ رہی تھی وہ عجیب مخلوق جس کے ساتھ زندگی گزارنے وہ اس گھر میں آئی تھی ایک لمحے کو اسے لگا نظر کا دھوکا ہے” ہاں ایسا ہی ہے” اس نے آ نکھیں بند کرنا چاہیں ایک دم سے اس نے اس کو دھکے سے جگایا”سنو لڑکی یہی ہوں میں، اب جاؤ اپنے خوابوں کا جنازہ واش روم میں دفنا آؤ میں نے سب سے بولا تھا کہ میں یہ سب نہیں کر سکتا مگر سب کا خیال تھا کہ تمھاری صورت میری زندگی بدل دے گی” وہ ڈری سہمی پیچھے ہٹی تو وہ عجیب مخلوق اس کے اوپر جھکی اسے لگتا تھا کہ اس کے وجود سے اٹھنے والا تعفن اس کی سانسیں تک جلا دے گا ” تمھاری صورت تمھاری قسمت تو بدل نہ سکی ،چلی تھی میری زندگی بدلنے” اس نے  ساڑھی کا پلو کھینچا اور دندناتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
وہ جس کے وجود سے اس نے زندگی سینچنے کے خواب دیکھ رکھے تھے اس کا وجود اسے گھن اور تعفن کے گڑھے میں دھکیل گیا وہ اپنے خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے نکلنا چاہتی تھی مگر اس کے حلق میں کچھ بری طرح پھنس گیا تھا ۔جلتے ہوئے گالوں میں آنسووں نے اور حدت بھردی اس نے ہاتھ سے رگڑ کے منہ صاف کیا تو اتنے جتنوں سے کیا گیا میک اپ کے رنگ اس کے ہاتھ پہ لگ گئے اس نے رگڑ رگڑ کے سارا میک اپ صاف کر دیا اس کا دل چاہا اونچی اونچی روئے چیخے چلائے اس نے فون اٹھایا اپنے ابا کو فون ملایا ادھر سے کسی نے فون نہیں اٹھایا اس نے بہن کا فون ملایا سوچا سب بتا دے گی اور ان سے بولے گی یہاں سے آ کر لے جائیں اسے اور پھر اسے رہنے ہی کون دے گا ادھر “تجھے پتہ ہے تیرے جاتے ہی ابا کا بلڈ پریشر بڑا کوئی ہوگیا تھا، روئے جارہے تھے سب نے سمجھایا بھی کہ شکر کریں کہ عزتوں سے بیٹی گھر کی ہوئی بوجھ کم ہو گیا پر ابا بس روئے جارہے تھے کچھ بولتے نہیں تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رو رو کے طبیعت خراب کرلی تو پچھلی گلی والے ڈاکٹر کو چیک کرایا بولا ہسپتال لے جاؤ ان کی طبیعت بڑی خراب ہے” اس کی بہن نے روتے ہوئے اسے بتایا” ہا ں سجیلہ تجھے کس نے بتایا ابا کی طبیعت کا سجاد نے منع بھی کیا تھا ،اللہ اللہ کر کے اپنے گھر گئی ہے تو اب بس ادھر دل لگا ،ابےکا کیا ہے روز ہی بلڈ پریشر ہائی کرلیتا ہے نہ دوائی ٹائم پہ نہ کوئی پرہیز بس سارا دن کھانے پہ زور، تو یہی ہونا ہے چل تو فون بند کر اپنے خاوند کو دیکھ” بھابھی نے اس کی بہن سے فون چھین کر بولنا شروع کردیا ” بھابھی وہ سجاد بھائی”وہ بمشکل بول پائی بھابھی نے اس کی بات کاٹ دی” سجیلہ تجھے کہا ہے فون بند کر اپنے بندے پہ توجہ دے، سجاد آگے ابے کے ساتھ دھکے کھانے گیا ہے گھر میں نہیں بیٹھا کہ آدھی رات کو تجھ سے گپیں لگائے ” غصے سے بولتے ہوئے بھابھی نے فون بند کردیا ۔اس کی آنکھیں بھر آئیں کس کو بتائے کہ وہ کس تکلیف کس کرب میں ہے۔ وہ اکیلی ہوگئی تھی کتنی اکیلی اوپر سے ابا کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اسے ابا کی فکر ستانے لگی گھٹنوں میں سر دینے روتے ہوئے جانے کتنی دیر ہوگئی اذانوں کے ساتھ اسے ہوش آیا “اللہ جی مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے کوئی اتنا سنگین گناہ کیا ہو جس کی یہ سزا ملی مجھے، اللہ جی یہ سب کیا ہے میں کدھر آگئی ہوں میں ادھر سے کیسے نکلوں گی”اس نے روتے روتے نماز پڑھی ۔پوری رات کی بھیگتی کلیوں سے اسے وحشت ہورہی تھی کمرے کی ہر چیز سے اسے محض تعفن محسوس ہورہا تھا “تیرے بھائیوں کی محنت کی کمائی سے بنا ہے تیرا سارا جہیز اسے ڈھنگ سے استعمال کرنا”بڑی بھابھی کا تنک دار لہجہ اس کا دل کاٹ رہا تھا صبح چھوٹی بہن ناشتہ لیکے آگئی “عمران بھائی کدھر ہیں” “وہ کون”دفعتاً”اس کے منہ سے نکل گیا تو اچانک اسے ساڑھی میں لپٹا ہوا وہ گھن آمیز وجود یاد آگیا بے بسی اور غصے کی اک لہر اس کے پورے وجود میں دوڑی تو آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے “ابا کیسے ہیں اب”اس نے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا”ابا نہیں ہیں ٹھیک ،بس تمھارے جاتے جو رونے بیٹھے ہیں تو ہسپتال ہی پہنچ گئے تمھیں تو پتہ ہے ابا کی طبیعت کیسی بگڑتی ہے” اس کو ابھی اپنے دکھ کا صبر نہیں آرہا تھا اوپر سے ابا کی طبیعت نے اس کا دل دہلا کے رکھ کے دیا وہ بہن کے ساتھ لگ کے زور زور سے رونا چاہتی تھی مگر گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا لگ رہا تھا جیسے کوئی مردہ روح اس کے اندر آ بسی ہے جو نہ تو اسے ہلنے دے رہی ہے نہ سکون سے بیٹھنے دے رہی ہے۔
شام ولیمے کیلئے میک اپ کرواتے ہوئے اس کا دل چاہ رہا تھا میک اپ سپونج اور برشز کی بجائے کوئی ناخنوں سے اس کا منہ نوچ ڈالے آخر کس جرم کی پاداش میں وہ ادھر اپنی مردہ روح سجانے بیٹھ گئی تھی اندر پکنے والا لاوا اس کے گالوں پر گرتا تو پارلر والی اس سے شکایت کرتی کہ میک اپ خراب ہورہا ہے خود کو سنبھالیں اب اتنا بھی کیا رونا سب کی شادیاں ہوتی ہیں۔اور رات میں جب عمران اس کے ساتھ آکے بیٹھا اسے لگا گند کی گٹھڑی اس کے اوپر گرگئی ہو وہ تیزی سے پیچھے ہٹی “اس جگہ کو چھوڑنے سے کیا ہوگا مجھے چھوڑو تو تمھیں مانوں”اس نے اس کی جانب دیکھا جو سج دھج کے بیٹھی کتنی پیاری لگ رہی تھی “اتنی پیاری لڑکی ہے اس کی صورت دیکھے گا تو بدل جائے گا”اس کے ذہن میں ابا کی آواز گونجی اور اس نے زور سے سر کو جھٹک کے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا
اور پھر وہی ہوتا رہا وہ کسی سے کچھ بھی نہ کہہ پائی، بھائیوں کے آگے بھابیاں کھڑی ہوجاتیں اور ابا سے کیا بولتی وہ پہلے ہی چارپائی سے لگے پڑے تھے ۔ماں پہلے ہی نہیں تھی وہ جب بھی جاتی ابا کے سینے پر سر رکھ کے دیر دیر تک بنا آواز کے روتے رہتی بھائی اشارہ کرتے رہتے کہ چپ ہو جاؤ ورنہ ابا کی طبیعت خراب ہو جائے گی وہ خود کو سنبھالتے سنبھالتے بھی روتی رہ جاتی اس کے ذہن میں عمران کا عجیب و غریب جسم گھومتا اس کے گھن آمیز فٹنگ والے کپڑے اس کا دماغ گھومنے لگ جاتا کہ وہ اس شخص کے ساتھ ایک گھر ایک کمرے میں رہتی ہے جو اس کی زندگی میں محض سزا بن کے نازل ہوا تھا۔ وہ اس کے طنز بھرے جملے سہتی کمرے کی صفائی کرتی تو کہیں اس کی چوڑیاں کہیں گجرے اور پتہ نہیں کیا کیا پڑا ہوتا ،عمران کے سب گھر والوں کو پتہ تھا کہ وہ کیسا ہے مگر وہ سارے اسی کو طعنے دیتے کہ تم سے ایک میاں سیٹ نہیں ہورہا۔ بی بی تم میں سب ٹھیک تو ہے ناں “مجھ میں کیا خرابی ہے آپ تو جانتی ہیں کہ آپ کا بیٹا””اچھا بس بس تمھارے ساتھ شادی اس لئے کی تھی کہ عورت مرد کی بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے پر مجھے تو تمھارے عورت ہونے پر ہی شک ہے”اس کی ساس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ہاتھ نچا نچا کر بولا “میرے عورت ہونے پہ شک ہے اور وہ جو عورت بنا پھرتا ہے اس کی مردانگی پہ کوئی شک نہیں آپ کو”لاکھ ضبط کےباجود وہ چیخ پڑی “اپنی بکواس بند کرو مت بھولو کہ اس ادھورے مرد سے ہی تمھارا نکاح ہوا ہے اس گھر میں اسی کی وجہ سے ہو ایک لفظ بھی بولا ورا تو دھکے دے کر گھر سے نکال باہر کروں گی”
کچھ دن سے عجیب سی کشمکش چل رہی تھی عمران کے ماموں کا بیٹا روز آکے صحن میں پڑی چارپائی پہ بیٹھا اسے گھورتا رہتا تھا وہ گھبرا کے کمرے میں چلی آتی تو وہ بھی پیچھے پیچھے چلا آتا عمران کی حرکتوں کا علم سارے گھر کے ساتھ ساتھ خاندان کے بھی اکثر لوگوں کو تھا شاہد انہی میں سے ایک تھا کئی ایک بار تو اس نے اسے بہت عجیب جملے بھی بولے وہ سمجھ گئی تھی کہ اس لڑکے کی نیت ٹھیک نہیں ہے پانچ مہینوں سے اس گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ بالکل اجنبی تھی اسے کسی شکایت کا حق نہیں تھا زندگی کا زہر اس کے اندر بھرتا جارہا تھا اب تو آنسو بھی اکثر خشک ہو جاتے تھے ہاں اتنا ضرور تھا کہ سر پہ بھی تھی رہنے کو گھر تھا دو ٹائم کی روٹی بھی ملتی تھی اور کام تو اسے ماں باپ کے گھر بھی کرنا پڑتا تھا ادھر بھابیاں طعنے دیتی تھیں ادھر تو طعنے اس کے اپنے اندر سے اس طرح ابلتے تھے کہ اسے باہر والوں کے طعنوں کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا
اس رات سب لوگ شادی پہ گئے ہوئے تھے عمران بھی ساڑھی پہن کے جا چکا تھا اچانک دروازے کھلا وہ آدھی نیند میں تھی اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ شاہد تھا اس نے بچنا چاہا تو شاہد نے اس کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا
اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کدھر جا کے خود کو گاڑھ دے ابا کی طبیعت بگڑ گئی اس نے سوچ لیا تھا اب کبھی اس گھر میں واپس نہیں آئے گی اس گھر میں رہ کیا گیا اب سب کچھ تو ختم ہوگیا نہ وہ وہی نہ اس کا وجود ابا کے گھر پہنچی تو اس پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی وہ مہربان سا سایہ بھی ختم ہوگیا جس کے مان پہ وہ قصائی خانہ چھوڑ کے آئی تھی اسے وہ گھر قصائی خانہ ہی لگتا تھا تعفن تھا ادھر وحشت تھی
اماں کی زندگی میں ہی اس نے بی اے کرلیا تھا ان کے جانے کے بعد تو حالات نے اجازت ہی نہ دی نہ ہی گھر کے افراد نے ۔اس نے سوچ لیا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے اب وہ اس گھر میں دوبارہ نہیں جائے گی مگر جائے کدھر اس نے فیصل آباد میں اپنی خالہ سے بات کی اور ان سے جھوٹ بولا کہ شوہر مارتا پیٹتا ہے اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی خالہ بیوہ تھی اکیلی تھی سو اس نے بھانجی کو اپنے پاس بلالیا۔
اس نے بہت محنت کی سکول میں نوکری کی ساتھ ساتھ پڑھتی رہی سوچتی تھی کہ کیا یہ سب وہ سب ہونے سے سے پہلے نہیں ہوسکتا تھا اس پر سزائیں مسلط ہوئیں ،گناہ مسلط ہوئے مگر وہ اس گناہ کو کسی اور کا گناہ کیسے ثابت کرے گی اس نے خالہ کومنع کررکھا تھا کہ اس کے یہاں ہونے کا کسی کوپتہ نہ چلے چند مہینوں میں خالہ بھی چل بسیں تو پھر گھر کا سوال پیدا ہوا مگر اب اسے اس سوال سے خوف نہیں آتا تھا خوف تو گھروں والوں کو آتا ہے بے گھروں کو کس بات کا خوف سزاتو طویل تھی ہی مگر گناہ کا دورانیہ اور طویل ہوگیا وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح سے اسے ختم کردے اسے قتل کردے مگر گناہ اس کے وجود کے اندر چلی گیا تھا وہ کر جانا چاہتی تھی مگر نہ تو گناہ مرتا تھا اور نہ وہ
اس کے پاس ایک چھوٹا سا گھر تھا گورنمنٹ کالج کی پرنسپل کی پوسٹ تھی وہ سزا اور گناہ کی کیفیتوں سے باہر باہر اچکی تھی اس کی بیٹی اس کی تمام عمر کی ریاضت کا صلہ تھی اس کی سزاوں گناہوں کا بھی صلہ تھی شاید پورے ضلع میں ٹاپ کرتی ائی تھی ماں کی خواہش کے مطابق وہ ڈاکٹر بن گئی ولدیت میں عمران نامی شخص کا نام تھا جس کو نہ وہ جانتی تھی نہ پہچانتی تھی
سجیلہ چاہتی تھی کہ اب اس کے فرق سے فارغ ہوئے اور حج پہ چلی جائے بہت سارے گناہ تھے جو بخشوانے تھے خدا کے سامنے گڑگڑا کر رو کر
اور اس دن اس کی بیٹی پھٹ پڑی جسے آج تک اس نے اپنے تاریک ماضی کی بھنک بھی لگنے نہیں دی تھی “آپ کیا چاہتی ہیں میں بھی شادی کر لوں اور پھر کوئی ساڑھی میں لپٹا ہوا وجود میرے سامنے آکے میری روح کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے آپ مجھے ایک مرد کے حوالے کر کے حج پہ جاکے ان گناہوں کی بخشش چاہتی ہیں جو آپ نے سرے سے کئے ہی نہیں “وہ آنکھیں پھاڑے اپنی بیٹی کا منہ دیکھے جارہی تھی کہ اسے یہ سب کیسے پتہ چل گیا”مت حیران ہوں ماما! میں نے خود کو اک گناہ ہی سمجھ کے زندگی گزاری ہے اپنی اور آپ کی زندگی سے اس گناہ کو دھونے کیلئے میں نے دن رات خود کو جلایا ہے ہمارے معاشرے میں گناہ صرف عورت کا ہوتا ہے مرد تو کہیں بھی جاکے منہ کالا کرتا رہے اس کا نہ تو کردار مشکوک ہوتا ہے نہ ہی کوئی گناہ اس کے منہ پہ مارا جاتا ہے ہم اسی لئے تباہ ہورہے ہیں کہ ہم نے مذہب کا بیڑا غرق کردیا ہے وہ مذہب جو اولیااللہ نے محبتوں کے قصوں میں قلم بند کیا آج وہی مذہب ڈنڈے مار مار کر سکھایا جارہا ہے کمزور کو دبانے کیلئے ہم مذہب کی آڑ لیتے ہیں ۔اس گھٹیا شخص پہ مذہب کی طرف سے کوئی قیدوبند نہیں تھی جو روز رات کو عورت بن کے آپ کے جذبات کا خون کرکے جانے کہاں منہ کالا کرتا تھا مگر یہ کیسا مذہب تھا یہ کیسا نکاح تھا جس کی بنیاد پہ آپ اس کے گھر رہتی تھیں ظلم سہتی تھیں اور جس کو آپ گناہ بولتی ہیں اس میں کدھر آپ کا قصور ہے ماں آخر کدھر آپ بے بس تھیں ماں میں گناہ نہیں ہوں “وہ پھوٹ پھوٹ کے روپڑی تووہ جو پتھر بنے سب سن رہی تھی اپنے حواسوں میں آئی “میں گناہ نہیں ہوں ماما، میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں آپ مجھے ختم کرنا چاہتی تھیں مگر گناہ کی وجوہات اور محرکات کو کوئی ختم نہیں کر سکا آج تک وہ شخص گناہ گار ہے جس کے نکاح میں آپ تھیں آپ کے بھائی گناہ گار ہیں جنھوں نے کبھی مڑ کر دیکھا تک نہیں کہ آپ کس حال میں ہیں آپ کے شوہر کے گھر والے سب سے بڑے گناہ گار ہیں جنھوں نے سب جانتے ہوئے بھی آپ کی زندگی برباد کردی پلیز مما خود کو اس تکلیف سے نکالیں اس زندگی پہ آپ کا اتنا ہی حق تھا جتنا کسی بھی اور معزز انسان کا ہوسکتا ہے اور ماما آپ محض مظلوم تھیں آپ نے بہت ظلم سہتے ہیں آپ نے تکلیفوں اذیتوں کے سوا دیکھا ہی کیا ہے مما پلیز یہ زندگی آپ کی بھی ہے اس کو اپنے لئے بھی جی کے دیکھیں آپ نے ساری عمر صرف کفارے ادا کئے ہیں مما وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا آپ کو کو آپ کی برداشت سے زیادہ آزمائش میں کیسے ڈال سکتا ہے”
وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگ کے بہت دیر تک روتی رہیں اور وہ یہ سوچتی رہی مذہب کا علم تو اسے بھی تھا پھر اس میں خدا کی اتنی معرفت تک نہ آسکی کہ وہ تو رحمن ہے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا،طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ ڈالنے والا پھر ہم صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیوں نہیں کر پاتے مذہب کوئی کھونٹا نہیں کہ اس سے بندھ کے ہر ظلم سہا جائے بلکہ مذہب لائحہ حیات ہے ہر شخص کو برابری کے حقوق ،ازادیاں اور قیدوبند سے نوازا جاتا ہے پر کاش ہم انسان سمجھ سکیں اور اس پر عمل کر سکیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply