تصوف اور تخلیق۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شاہینہ جمال صاحبہ نے “آئینہ در آئینہ” میں مشمولہ تصوف کے حوالے سے فلسفے کی اس جہت کے بارے میں دریافت کیا ہے، جس سےتخلیق کا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ ان کا استفسار پنجابی صوفی ادب کے سباق میں ہے۔ ۔۔سوال یہ ہے۔ کیا تخلیقی فلسفہ ہو سکتا ہے ؟ یا یہ بھی تصوف کی عقلی تعبیرات کی کوشش ہے ؟

جواب : میری رائے میں تخلیقی فلسفہ Creative Philosophy بطور اصطلاح قابل ِ قبول نہیں ہے۔مغربی دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی ،بشمولیت قدیم یونان اور رومائے قدیم (سقراط، ارسطو، افلاطون ۔۔۔درجنوں نام ہیں، شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے) اور یورپ میں قرون وسطیٰ یا قرون مظلِمہ(دسویں سے پندرھویں صدی تک) یا اس کے بعد بیسویں صدی تک سینکڑوں نہیں تو بیسیوں نام ایسے ہیں، جنہیں فلسفی ہونے کی سند دی جا سکتی ہے۔ ان میں نظریہ پرست بھی ہیں، کتاب پرست بھی ہیں اور پان صوفیت، فلسفہ ٔ علت و معلول، عقیدہ ۔۔۔ وسیع سے وسیع (علم بسیط) اور narrower schools of thoughtعلم الدنی، کسب خارجی، علم طبیعی، علم الہیٰ وغیرہ کے یگانہ ٔ روزگار بزرگ بھی گزرے ہیں، لیکن سبھی یا تقریباً سبھی شعری شعار ِ اظہار سے بری الذمہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔(شاید اپنی کم علمی کی وجہ سے مجھے کوئی نام نہ ملا ہو، لیکن یورپ اس لحاظ سے ، میری ناقص رائے میں) قرون ِ وسطیٰ سے لے کر آج تک ’’فلسفی شاعر‘‘ کی اصطلاح سے خالی رہا
ہے۔ بہت سے اطالوی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن اور سکینڈینیوین شعرا کو Philosopher Poet کہا جاتا ہے لیکن ان کے ہاںجو فلسفہ ملتا ہے ،وہ سب کا سب مستعار ہے۔ ان میں Philosopher first and foremost and poet later کوئی نہیں ہے۔نظریہ ساز کوئی نہیں ہے، صرف نظریہ پرست ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال کا دوسرا حصہ پہلے حصے سے بطور علت و معلول منسلک ہے۔ اس لیے اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ یہ روح کی گہرائیوں میں اتر کر علت ِ اولیٰ کی اُسی الوہیت سے مصافحہ کرنے کی کوشش ہے، جو ’’سبب‘‘ کے مسبب الاسباب سے تعلق پر استوار ہے ۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت ِ امکاں کو ایک نقش ِ پا پایا
دوسرا سوال یہ ہے۔
l شاعری میں امکان کی بود وباش غیر فطری کیوں محسوس ہوتی ہے ؟
جواب: امکان کی بود و باش؟ امکان کی نہ تو ’بود‘ ہے، نہ ہی’باش‘، یعنی یہ’ ماضی‘ اور’ حال‘ ، دونوں سے مستثنیٰ ہے ۔ اس کا تعلق ’مستقبل‘سے ہے۔ غالب کا شعر ایک سیال کیفیت کا مرقع ہے۔ اس میں سکون یا ٹھہرائو نہیں ہے، بہائو ہے۔ یہ سیال کیفیت’’، تمنا‘‘ (آرزو، خواہش، چائو، چاہ، چاہت، امید، ادمات، امافی، ارمان، ۔۔۔کچھ ہم معنی الفاظ) اپنے سیال معانی میں ’’قرار‘‘ کا قطبینی الٹ پھیر ہے۔ فلسفے میں یہ برگساں کے Elan Vital کے مفروضے سے متصور اور متشکل ہے۔ ایک سعی ٔ مسلسل ہے۔تڑپ اور لگن ، بے قراری ہے۔ اٹھے ہوئے قدم کے زمین پر پڑنے سے پہلے ہی دوسرے قدم کو اٹھانے کی سعی ہے۔ یہ ارتقا پذیری کا وہ عمل ہے جس پر ہم آج تک چلتے چلے آئے ہیں لیکن غالب جیسے شاعر تو امکان کی حدود کو پھلانگ کر آگے کی سرزمیں تک ایک ہی زقند میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کیفیت کو کوئی نام دیا جا سکتا ہے؟ پہلا قدم ایک ستون کی سی مضبوطی سے زمین پر ، دوسرا قدم اٹھا ہوا اور شاعر ِ ِ دور بین یہ دیکھ کر حیران و پریشان کہ پہلے نقش ِ قدم کو تو اس نے اپنے پائوں سے تسخیر کر لیا، دوسرا کہاں ہے؟ (شاید تیسرے قدم کے لیے زمان و مکان کی حدود بھی نا کافی ہیں۔) ’ہونے‘ Being سے ’بننے‘ Becoming کی طرف ایک جہد مسلسل ہے کہ جو شاعر کو اس سیال کیفیت سے بہائے لیے جار ہی ہے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ وقت کے ابعاد ثلاثہ کا یہ کرشمہ ہے، کہ ’حال‘ جو شاید ایک لمحے کے کروڑویں حصے سے بھی کم دورانئے پر محیط ہے، ارتقا پذیری کا مرکزہ بن جاتا ہے اور شاعر مستقبل کی اس تمنا کے پیچھے دوڑنے کا خواہشمند ہے جو افقی ہے، جو اِس سے اُس افق تک پھیلائو کو اپنی سیال کیفیت میں لپیٹ لینا چاہتی ہے۔
امکان کی بود و باش غیر فطری ہے بھی اور نہیں بھی، کیونکہ جہاں ’حال‘ کے لمحہً گذراں کا جگنو آپ کی مٹھی میں ہے، وہاں یہ بھی تمنا ہے کہ اس کی روشنی میں (یعنی ماضی کی مشعل ِ راہ سے روشنی پا کر) آپ مستقبل ِ مخفی کو متشکل کر سکیں۔ تمنا کے دوسرے قدم کے امکان کا یہ افقی رُخ اس شعر میں تو بعینہ ایسے ارتفاع پذیر ہو گیا ہے کہ عمودی رخ Vertical dimension تقریباً (کم از کم یہ شعر پڑھتے ہوئے) ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ لیکن عمودی رخ ذات کے زنداں سے نجات پانے اور اوپر اٹھنے کی تمنا کے سیاق و سباق میں ایک صوفیانہ قدر و قیمت کا پتہ دیتا ہے۔ جب تک تشنگی رہے گی، جد و جہد جاری رہے گی۔ تشفی تو پیٹ بھرنے سے ملتی ہے اور اس کا حصول جگالی کرنے والے مویشی کو بھی ہے۔کیا یہ ’نرا مبالغہ ‘ ہے ؟ جی نہیں، محترمہ، یہ ’نرا مبالغہ‘ نہیں ہے۔ ہر ’سچے‘ شاعر کے ہاں یہ لا شعوری جہت موجود ہے جہاں وہ خود سے دور (افقی) اور (عمودی و عمقی) حصص میں رہائش پذیر ہے ۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply