پتہ نہیں کیا نارمل ہے؟۔۔۔ عامر فاروق

ایک مؤقف۔ “حجاب ابنارمل ہے”

اس میں بغیر کہے یہ شامل ہے کہ حجاب نہ اپنانا نارمل ہے۔ جو ابنارمل ہے اس کا الٹ نارمل ہو گا۔ پانی پینا ترک کر دینا ابنارمل رویہ ہے تو بنا کہے یہ پیغام ملتا ہے کہ پانی پینا نارمل بات ہے۔

دوسرا مؤقف۔ “حجاب نارمل ہے”

اس میں صریحاً (explicitly) یہ رائے شامل نہیں کہ حجاب نہ اپنانا ابنارمل ہے۔ لیکن جس تناظر میں اس موقف کے حامی کہتے ہیں تو یہ اندازہ غلط نہ ہو گا کہ ان کے نزدیک بے حجابی ابنارمل ہے۔ بہرحال یہ ثابت کرنا مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جس طرح کسی عمل یا رویے کو غلط کہنا اس سے متضاد عمل یا رویے کے درست ہونے کا بنا کہے اقرار ہوتا ہے اس طرح کسی عمل کو درست کہنے کو اس سے مختلف عمل کا غیر اعلانیہ ارتداد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تاہم یہ بحث ہی نہیں ہے۔

عرض صرف یہ ہے کہ کیا یہ دونوں کیمپ حجاب کے حق میں اور اس کے خلاف اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے حجاب لینے اور حجاب نہ لینے والی خواتین کے عمل کو محض “لباس کے انتخاب کے شخصی حق” کے اصول پر معاف فرما سکتے ہیں؟

حجاب کی تاریخ، حجاب کے فوائد و نقصانات، حجاب کے فرد کی نفسیات پر اثرات، اقوام عالم کی سائنسی و معاشی ترقی میں حجاب کی رکاوٹ اور اخلاق و کردار کی رفعتیں پانے میں حجاب کا ٹربو جیٹ رول وغیرہ وغیرہ جیسے ولایوڑ قسم کے مباحث پر کوئی قدغن نہیں۔ لیکن ان دو پوزیشنوں کے وکلا جب کہتے ہیں کہ حجاب نہ کرنے والی کو معلوم نہیں کہ استحصالی معاشرہ اس کو جنس بازار بنا رہا ہے یا حجاب کرنے والی کو معلوم نہیں کہ یہ وہ نادیدہ زنجیر ہے جو صدیوں کی کنڈیشننگ سے اس کو پہنا دی گئی ہے اور وہ لاعلمی میں اپنے tormentors کے ایجنڈے پر چل رہی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ان کو دانش کا اپھارہ ہو گیا ہے اور لباس کے انتخاب کے شخصی حق کا سادہ سا اصول بھی نہیں سمجھ سکتے اور ججمنٹس پاس کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں حجاب پر تو ان میں اختلاف ہے لیکن اس پر متفق ہیں کہ خواتین ناقص العقل ہوتی ہیں جو اپنا برا بھلا سمجھ نہیں سکتیں۔

مذہبی رجحان والوں کی ساری شرع زلف میں کیوں الجھی ہوئی ہے اور مذہب بیزار یا مذہب مخالف یا صرف حجاب مخالف رائے رکھنے والوں کی عقل پر وہ کپڑا کیوں پڑ جاتا ہے جو کوئی عورت اپنے سر پر رکھتی ہے؟

عین ممکن ہے جو کچھ لکھا ہے وہ کسی کی وضاحت سے باکل بودی سی دلیل ثابت ہو، تو شکریہ ادا کروں گا اگر کوئی مدد کر دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اکثر یہی لگتا ہے کہ ہمارے ہاں موضوعات کے انتخاب اور ان پر گفتگو کے معیار میں “گہرائی” اتنی ہی ہے جتنی سر والوں کی خطے میں تزویراتی گہرائی۔ صفر جمع صفر برابر ہے صفر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply