دکان کا انتخاب۔۔۔ عامر فاروق

کسی اتھلیٹ کا اثاثہ اور امتیاز مضبوط جثہ، توانا پٹھے اور تگڑے ہڈ پسل ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اتھلیٹ ایسے کاسٹیوم پہنتے ہیں جن سے ان کے تراشیدہ جسم اور جسمانی قوت اچھے سے ظاہر ہوں۔

وجہ ظاہر ہے کہ انہی اوصاف یا صلاحیتوں کی وجہ سے اتھلیٹ کو شہرت، دولت اور مداحوں کی محبت میسر آتی ہے۔ اتھلیٹ کا خوب رو یا پرکشش ہونا ضروری نہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ اتھلیٹ کی کشش، خوب صورتی اور سیکس اپیل خوب صورت چہرے اور دل فریب آنکھوں میں نہیں، مضبوط جثے میں ہے۔

بالفاظ دیگر جسمانی قوت، مضبوط و توانا جسم اور پھرتی وغیرہ ایک اتھلیٹ کا سامان تجارت ہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شو بز سٹار کا چہرہ، بال، خال و خد، لباس، بول چال اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز وغیرہ وہ پہلو ہیں جو مارکیٹ ہوتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے اسے مداحوں کی محبت ملتی ہے۔ مداحوں کا حلقہ ہی اس کے کام کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ اس لیے شو بز سٹار اس حوالے سے حساس ہوتے ہیں کہ یہ سب ان کا سامان تجارت ہے۔

شو بز سٹار کے لیے ضروری نہیں کہ بغیر ہانپے پانچ کلومیٹر بھاگ سکتا ہو، یا 100 پش اپس لگا سکتا ہو۔ اس کی ٹانگیں بھلے اس کا وزن اٹھا کر تھک جاتی ہوں لیکن ان کا سڈول ہونا ضروری ہے۔ وہ بھاگے یا نہ بھاگے, اس کا ہیئر سٹائل خراب نہیں ہونا چاہیے۔ بہتے پسینے میں چہرے پر لگی فاؤنڈیشن گارا نہیں بننی چاہیے۔

اسی طرح ایک شاعر، ادیب، استاد، دانشور، موجد، انجینئر، سائنس دان کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے کندھے جھکے ہوئے ہیں، ناک پر موٹے شیشے والا چشمہ دھرا ہے، کامپلیکشن کئی شیڈز پر مشتمل ہے، داڑھی بڑھی ہوئی ہے، ناک موٹی ہے، بال جھڑ چکے ہیں اور پیٹ نکلا ہوا ہے۔

وجہ یہاں بھی وہی کہ اس کی پہچان اور “سامان تجارت” علم و فن ہے، مضبوط جثہ، جسمانی قوت، دل فریب نقوش یا سیکس اپیل نہیں۔ اس کی سیکس اپیل یا خوب صورتی اس کا علم ہے، استدلال ہے، وسعتِ مطالعہ ہے، آگہی سے پیدا ہونے والا انکسار اور سطحی معلومات کے بھرم میں گھیر لینے والے تکبر سے گریز ہے۔

اوپر دی گئی مثالوں کا اطلاق ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ سیاست و سماج سے لے کر عسکری سائنس کے میدانوں تک، ہر شعبے میں متعلقہ ماہرین کو ہی زیبا ہے کہ رہنمائی کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔ فرض کریں یہ ماہرین بوجوہ اپنے دائرہ کار سے باہر نکل نکل کر “قسمت آزمائی” کو بے تاب ہوں تب بھی خریداروں کو اتنا سینس ضرور ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور مطلوبہ سودا کہاں ملتا ہے۔

یہ خریدار پر ہے کہ اسے اپنی ضرورت کا ادراک ہو اور معلوم ہو کہ اس کے لیے کون سی دکان پر جانا ہے۔ اگر کوئی گیان کی تلاش میں اکھاڑے میں جا نکلے اور کوئی پہلوان اسے جیسا تیسا “گیان” بیچ دے تو قصور پہلوان کا نہیں خریدار کے فہم کا ہے۔ بازار سے با رعایت خریداری کے چکر میں اکثر لوگوں کو اتائیوں کا تختہ مشق بنتے دیکھا ہے۔

فی الحال تو ان ستم زدگان کا خیال آیا تھا جنہوں نے معیشت، تعلیم، خارجہ تعلقات، صحت، قومی تفاخر، اقوام عالم کی سیادت، بھارتی سازشوں کے توڑ، امریکی بد دماغی کے علاج، کھیلوں کی دنیا پر راج، گوروں کو پتوکی کی نرسریوں میں بحیثیت مالی بھرتی کرنے کی خواہش، گوریوں سے گوبر کی تھاپیاں لگوانے کے خواب، کرپٹ سرکاری افسران کو سر عام درے مارنے اور اسی طرح کے 420 مزید خوابوں کی تعبیر کے لیے صرف ایک اتھلیٹ کی دکان سے ساری جمع پونجی دے کر بہت سا ناقص مال خرید لیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اب بقول شخصے “سوچیں پئے آں ہن کی کریئے” والا منظر ہے۔ موج کرو، سانوں کی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply