پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن۔ ۔ اظہر سید

مولانا فضل الرحمٰن نے اسٹیبلشمنٹ کو وہ للکارے مارے  کہ ہیرو ہی بن گئے ،لیکن ان للکاروں کا سارا فائدہ چپکے سے اسٹیبلشمنٹ کے کمزور ہوتے لومڑ نے اٹھا لیا ۔ مولوی صاحب کے والد مفتی محمود بھٹو کے خلاف امریکہ اور اسکے نکے یعنی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بنائے نو ستاروں میں سے سب سے دمکتا ستارہ تھے ۔ ان چمکتے دمکتے ستاروں کی کہکشاں بھٹو اس بلیک ہول کو نگل گئی ۔
لومڑ نے صدر اسحاق کی مدد سے نواز شریف کی پہلی بغاوت کچلی چلمن کے پیچھے چھپے مولوی فضل الرحمن دندیاں نکال رہے تھے ۔
اس سے پہلے بینظیر بھٹو کو کرپشن کے الزام میں لومڑ نے شیر کی مدد سے فارغ کرایا مولوی صاحب شیر کے ساتھ کھڑے تھے ۔

دوبئی میں پُراسرار بیماری کے ہاتھوں رفتہ رفتہ قدم قدم آسمانوں کے سفر کی تیاری کرنے والے مشرف نے جب نواز شریف کو فارغ کیا ،مولوی صاحب چھلانگ لگا کر مشرف کی کشتی میں بیٹھ گئے ۔ قوم کو اسٹیبلشمنٹ اور مولوی صاحب نے مل کر خوب ہی مزیدار جانور بنایا اور کتاب کے نشان پر خیبر پختونخوا میں حکومت جبکہ مرکز میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ہتھیا لیا ۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

مولوی صاحب نے آخری معرکہ ایک آئینی ترمیم کی شکل میں مارا اور مشرف کو مزید حکومت کرنے کا جواز فراہم کر دیا ۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالیہ ماضی میں آخری معرکہ جاری تھا ۔ مولوی صاحب نے وہ گگلی ماری پیپلز پارٹی ایسی جماعت کو کلین بولڈ ہی نہیں کیا عوام کے سامنے ولن بھی بنا دیا ۔استعفوں کی شرط کا مطلب پیپلز پارٹی کے بال و پر کاٹنا تھا اور اس شرط کے زریعے مولوی صاحب نے پیپلز پارٹی کے بال و پر کاٹ دیے ۔

نواز شریف اس وقت حقیقی معنوں میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے ڈراؤنا خواب ہے لیکن نواز شریف نے عدلیہ کے ہاتھوں جس طرح یوسف رضا گیلانی کو کالا کوٹ پہن کر کلین بولڈ کرایا اسی طرح پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے بھی کلین بولڈ کرا دیا ۔مولوی فضل الرحمٰن صاحب کی اسمبلیوں سے استعفوں کی رائے اگر اس قدر صائب تھی تو ن لیگ قومی اور صوبائی اسمبلی سے استعفے دے دیتی ۔ جن استعفوں کے مطالبہ کو تسلیم نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالا اس مطالبہ پر خود بھی عمل نہیں کیا اور “شیر کے جگرے ایسا اپوزیشن لیڈر”کا لقب بھی قابو کر لیا ۔

ن لیگ کے سمجھدار لوگ پیپلز پارٹی کو دوبارہ پی ڈی ایم میں شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی بھی پی ڈی ایم میں واپس آنا چاہتی ہے لیکن اکلوتے لیڈر کے ٹائٹل کا لالچ اور مولوی صاحب کی پی ڈی ایم پر گرفت اس راہ میں رکاوٹ ہے ۔

مولوی صاحب کے استعفوں کی شرط نے اصل میں اسٹیبلشمنٹ کو بہت بڑا ریلیف دیا ہے ۔پی ڈی ایم کو توڑنا ، بھٹو کے خلاف تحریک چلانا ، مشرف کی کشتی میں بیٹھنا ، بینظیر اور نواز شریف سے بے وفائی کرنا ہی تاریخ نہیں ،ہمسائے میں طالبعلموں کی کامیابی کا جشن منانا بھی تاریخ ہے اور وہ تاریخ یہ ہے مولوی ہمیشہ سے ہی ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کا سرمایہ ہوتے ہیں اور عوام کو صرف چ بنایا جاتا ہے گندے والا چ نہیں چغد والا چ ۔مولوی کبھی بینظیر کی کشتی کی سواری کرتا ہے کبھی نواز شریف کے جہاز میں اڑانیں بھرتا ہے لیکن اصل مالکان جب بھی اشارہ کریں نواز شریف کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے اور آصف علی زرداری کو عوامی مجرم بنا دیتا ہے اور کبھی بینطیر بھٹو کو امریکی سنڈی کا لقب دیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولوی صاحب کو دیا گیا آخری ٹاسک یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دوبارہ اتحاد نہ کر سکیں ۔ ہدف کو پورا کرنے کیلئے مولوی صاحب اپنی تمام توانائیاں خرچ کر دیں گے، جان لڑا دیں گے لیکن یہ اتحاد ہونے نہیں دیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply