ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا۔۔محمد اسد شاہ

الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داریوں اور تقاضوں کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے اپنے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کر دیا – لیکن حکومت کا اس پر ضد میں آ جانا ، الیکشن کمیشن کے خلاف کھلم کھلا دشمنی پر اتر آنا ، الیکشن کمشنر کے خلاف ہتک آمیز زبان استعمال کرنا اور ان پر سطحی الزامات لگانا ، پورے ادارے کو آگ لگا دینے کی دھمکیاں دینا ، الیکشن کمیشن کو نامکمل قرار دینا ، عدالتوں میں الیکشن کمشنر کے خلاف درخواستیں دائر کرنا —– بعض لوگوں کے لیے اچنبھے کی بات ہے – ان لوگوں کا حیران ہونا سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ دنیا بھر میں کہیں بھی حکومتوں کا رویہ ایسا نہیں ہوتا – حکومتیں کئی طرح کی ہؤا کرتی ہیں ، جمہوری ، شاہی ، خاندانی ، قبائلی ، قابض اور آمرانہ – لیکن اگر آپ غور کریں تو عصر حاضر میں آپ کو ان میں سے کسی کا بھی وہ رویہ نظر نہیں آئے گا جو ہماری موجودہ حکومت نے اختیار کیا ہے – یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے استاد آپ کو بتائے کہ آپ کا بیٹا امتحان میں پرچہ ادھورا چھوڑ آیا ہے تو آپ استاد کو اپنا دشمن قرار دے دیں – یا ڈاکٹر تھرما میٹر دیکھ کر بتائے کہ آپ کو بخار ہے تو آپ ڈاکٹر کو گالیاں دیں اور اس کو اپنا دشمن قرار دے دیں – یا اگر کوئی انجینئر آپ کو بتائے کہ دیوار ٹیڑھی ہے تو آپ انجینئر کے خلاف پرچہ کٹوا دیں – یا اگر مکینک آپ کو بتائے کہ گاڑی کے انجن میں کوئی خرابی ہے تو آپ مکینک کو اینٹ دے ماریں – اس کا سیدھا سادہ مطلب تو پھر یہی ہؤا کہ آپ کسی شدید ذہنی اور دماغی مرض میں مبتلا ہیں یا پھر آپ خراب مال بیچ کر کسی کی جیب کاٹنے کے چکر میں ہیں – کیا استاد ، ڈاکٹر ، انجینئر یا مکینک آپ کو مسائل کی نشان دہی کرنا چھوڑ دیں ؟ حکومتی رویئے پر حیرت البتہ صرف ان لوگوں کو ہوئی ہے جو ہنوز کسی فریب فہم و نظر میں مبتلا ہیں – ورنہ گزشتہ صرف چند سالوں کے تاریخ ساز واقعات پر نظر رکھنے والوں کو بھی کسی قسم کی کوئی حیرت نہیں ہوئی – جب آپ غنڈوں اور موالیوں کو ڈنڈے پکڑا کر شہر بند کروا سکتے ہوں اور ایمبولینسز کو روک کر حاملہ خواتین کو سرعام بچے جنم دینے پر مجبور کر سکتے ہوں ، جب آپ تھانوں پر حملہ کر کے حوالاتیوں کو زبردستی نکال کر لے جا سکتے ہوں ، جب آپ عدالتوں کی دیواروں پر گندے کپڑے لٹکا کر اپنا قانون نافذ کر سکتے ہوں ، جب آپ پولیس افسران کے نام لے کر ان کی ٹانگیں توڑنے اور اپنے ہاتھوں سے انھیں پھانسیاں دینے کا نعرہ لگا سکتے ہوں ، جب آپ اپنے اعلان کے مطابق سڑکوں پر لٹا کر پولیس افسران کی ٹانگیں واقعی توڑ کر دکھا بھی سکتے ہوں ، جب آپ عدالتوں کے بار بار طلب کرنے پر بھی 7 ، 7 سال تک پیش نہ ہوتے ہوں اور اوپر سے صداقت و امانت کا دعویٰ بھی کر سکتے ہوں ، جب آپ مہنگائی میں ایک روپیہ اضافہ ہونے پر بل جلانے کی فلم چلا سکتے ہوں اور اپنے محبین کو ہنڈی کے طریقے اختیار کرنے کی ترغیب دے سکتے ہوں ، جب آپ ججوں ، جرنیلوں ، پولیس افسران ، حتیٰ کہ منتخب وزیراعظم تک کے متعلق گلی محلے کے لونڈوں لپاڑوں والی زبان سٹیج پر کھڑے ہو کر بول سکتے ہوں ، جب آپ کسی قومی نشریاتی ادارے پر اعلانیہ حملہ اور قبضہ کرنے کے بعد وکٹری کا نشان بنا کر مسکرا بھی سکتے ہوں ، جب آپ پر ناشائستہ پیغامات کا الزام ہو لیکن آپ اپنا موبائل فون دکھانے سے ہی انکار کر دیں اور پارسائی کا دعویٰ بھی برقرار رکھ سکتے ہوں ، جب آپ ایک ہی محل کی مختلف اقسام کی تین تین منی ٹریل بنا کر بھی صداقت و امانت کے سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہوں ، جب آپ 62 روپے فی لٹر کو مہنگائی کہہ کر 125 روپے فی لٹر پر جشن منا سکتے ہوں ، جب آپ 52 روپے فی کلو کو چوری قرار دے کر 115 روپے فی کلو کو ایمان داری کہتے ہوں ، جب آپ 20 روپے فی کلو والی سبزی کو 200 روپے فی کلو بیچ کر بھی سابقین کو گالیاں بک سکتے ہوں ، جب آپ چوری پکڑے جانے پر چوروں کی نشستیں آپس میں ہی بدلنے کو سزا کہہ کر مطمئن ہو سکتے ہوں ، جب آپ سیاسی عداوت پر منشیات کے پرچے کٹوانے پر فخر کر سکتے ہوں ، جب آپ قبروں کو سجدہ کرنے کے بعد ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہوں ، جب آپ ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ لگا کر پچاس لاکھ گھروں کے چولھے ٹھنڈے کر سکتے ہوں ، جب آپ اپنے 310 کنال قبضے کو ریگولرائزڈ کروانے کے بعد غریبوں کے دو دو فٹ تجاوزات اور کچی بستیوں پر بھی بلڈوزر پھروا سکتے ہوں ، جب آپ سڑکیں بنانے کو جہالت کہہ کر سڑکوں کی تعمیر کا کریڈٹ بھی لینے کی کوشش کرتے ہوں ، جب آپ طلبہ میں لیپ ٹاپ بانٹنے کو کرپشن کہہ کر خود بھی دھڑلے سے یہی کام کر سکتے ہوں ، جب آپ دوسروں کی بنائی ہوئی یونیورسٹیوں ، ہسپتالوں اور ایئرپورٹس پر سے ان کے ناموں کی تختیاں اتار کر اپنے نام کی تختیاں لگواتے ہوں ، جب آپ 20 ارب کی اربن ٹرانسپورٹ کی لاگت 130 ارب تک پہنچا سکتے ہوں اور پھر آڈٹ بھی رکوا سکتے ہوں ، جب آپ 30 روپے فی کلو آٹا 85 روپے فی کلو تک بیچ کر بھی یہ بتا سکتے ہوں کہ آپ غریبوں کے سب سے بڑے ہم درد ہیں ——– تو ایک ادارے کو آگ لگانے کی دھمکی دینا یا کسی سرکاری افسر کو اپنا سیاسی دشمن قرار دینا تو آپ کے بچوں کا کھیل ہی ہو گا ناں – اس پر حیرت تو اسی کو ہو گی جو سادہ دل ہو ، سویا رہتا ہو یا بے وقوف ہو –
کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے جتنی دھاندلی کی جا سکتی ہے ، اتنی مینوئل ووٹنگ کے ذریعے کبھی نہیں ہو سکتی – مینوئل ووٹنگ میں تو گنتی کے دوران دھاندلی کے لیے آپ کو مخالفین کے ایجنٹس باہر نکالنے اور دھڑا دھڑ ٹھپے لگا کر مخالفین کے ووٹ ضائع کروانے کی مشقت کرنا پڑتی ہے ، یا الیکشن سے پہلے مخالفین کے مضبوط ترین امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن پر مجبور کرنا پڑتا ہے ، یا دھند کے نام پر پریذائیڈنگ آفیسرز کو اغواء کروانا پڑتا ہے —– لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین نے آپ کو ان تمام جنجھٹوں سے آزاد کر دیا – اب آپ کو آر ٹی ایس جام کرنے سے بھی زیادہ آسان کام کرنا ہو گا – بس سافٹ ویئر میں ایسی معمولی سی گڑبڑ کریں کہ ووٹر مطمئن ہو کر گھر جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس کا گھر تو آپ کا ہو چکا – امریکہ ، جاپان اور جرمنی ٹیکنالوجی میں دنیا بھر کے استاد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں – لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی وہاں بھی یہ حالت ہے کہ امریکی انتخابات میں تمام ووٹرز کو مینوئل ووٹنگ کا آپشن بھی دیا جاتا ہے – ووٹرز کی اکثریت مشین کو چھوڑ کر مینوئل کو اختیار کرتی ہے – پھر بھی الگور جیسے امیدوار اور ٹرمپ جیسے صدر الیکٹرانک ووٹنگ میں گڑبڑ اور دھاندلی کی دہائیاں دیتے ہیں – جرمنی ، جاپان اور کوریا جیسے ممالک نے کئی سال پہلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کوڑے دان میں پھینک کر مینوئل ووٹنگ کا طریقہ دوبارہ سے اپنا رکھا ہے – بھارت کے مشہور تحقیقی صحافی سید الماس نقوی کہتے ہیں کہ لوگ ووٹ مختلف پارٹیوں کو ڈال رہے تھے لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہر ووٹ بی جے پی کے حق میں جا رہا تھا – کہیں آپ بھی اسی طرح جیتنے کا منصوبہ تو نہیں بنا چکے ، تو اتنی شدت سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسلط کرنے پر تلے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو پاکیزہ و مصفا کہنے کا کوئی جواز آپ کے پاس نہیں – کوئی سلیکٹڈ کہے یا الیکٹڈ ، حکومت آپ کے پاس ہے – اب آپ خود کو مادر پدر آزاد اپوزیشن سمجھنا چھوڑ دیجیے – اس ذہنیت سے نجات حاصل کیجیے – اگر الیکشن کمیشن نے مشین کی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے تو آپ ان کا دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیجیے اور خرابیوں کو دور کر دکھائیے – اپوزیشن اگر اس طریقے کی خرابیوں کی نشان دہی کرتی ہے تو اس کے ساتھ بیٹھ کر اصلاح کی صورت نکالیے – لیکن اگر آپ دھونس ، زبردستی ، گالیوں ، پرچوں ، طعنوں اور مشترکہ اجلاس بلا کر ہر قیمت پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہم پر لازمی مسلط کرنا چاہتے ہیں تو مخالفین کے پاس وہ سب کہنے کا جواز ہو گا جس سے آپ کا مزاج برہم ہو جاتا ہے – لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ شاید آپ بیڈ گورننس ، انتہا درجے کی کرپشن ، لاقانونیت اور بدترین مہنگائی سے لے کر عدم مقبولیت تک ، اپنے اقتدار کی ساری خرابیوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے پیچھے چھپا کر آئندہ بھی ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں – اور اگر آپ الیکشن کو شفاف بنانا چاہتے ہیں تو الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد سیاست میں غیر سیاسی کرداروں کی مداخلت کو روک کر دیکھ لیجیے ، شاید مسئلہ حل ہو جائے –
نوٹ: یہ کالم خاص طور پر ایک وفاقی وزیر کے صاحب زادے کے کالم “ہے کس کے لیے موت مشینوں کی حکومت” کے جواب میں لکھا گیا ہے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply