پروفیسر ہود بھائی اور حجاب۔۔محمد وقاص رشید

ایک ہی گھر میں ایک ہی والدین کی اولاد ہوتے ہوئے بھی بہن بھائیوں کی سوچ آپس میں ایک جیسی نہ ہونا ایک عمومی مشاہدہ ہے ، یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں  لیکن وہ ایک خاندان بن کر والدین کی نسبت سے جڑے اختلافات سمیت ایک ہی چھت تلے رہتے ہیں ۔ باشعور والدین انکی سوچ کے عمومی فرق یعنی پسندناپسند کو انکا بنیادی حق تصور کرتے ہوئے ایک عدل و انصاف کا گھریلو نظام رائج کرتے ہیں،جس میں ایک برابری کا بنیادی تصور ہوتا ہے،حقوق و فرائض کا توازن ہوتا ہے اور برابری کا یہ نظام صحیح اور غلط کے ایک ہمہ وقت سانچے سے گزرتا ہوا والدین کی زیرِ سر پرستی خاندان کے ادارے کو خوش اسلوبی سے چلائے رکھتا ہے اور جہاں یہ نظام اپنی اس تنظیم اور ترتیب سے جاری نہیں رہتا خاندان کا وہ ادارہ نا کام رہتا ہے اور ہمیشہ گردشِ دوراں کی زد پر شکست و ریخت کا شکار ہو کر بالآخر ٹوٹ جاتا ہے ۔

سماج کی بُنت بھی اسی اصول پر ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ کامیاب گھرانوں کا ایک اجتماع ایک اچھا انسانی سماج ہوتا ہے اگر گھر میں ایک دوسرے کی فکری آزادی کو بنیادی حقوق میں سے ایک تصور کرتے ہوئے اسکا احترام سیکھا اور کیا ہو تو اسکا مظاہرہ ہمیں معاشرے میں بھی نظر آتا ہے  اور معاشرہ ایک امن پسند ترقی یافتہ انسانی سماج کا منظر پیش کرتا ہے وگرنہ دوسری صورت میں وہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہے۔

مندرجہ بالا تمہید سے یہ بات ایک اصول کے طور پہ طے ہوئی کہ ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا فکری آزادی کی بنیاد پر احترام معاشرے  میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک گھر میں ایک ماں باپ کی اولاد جب زندگی کے مختلف معاملات میں متنوع طرزِ فکرو عمل کی حامل ہوتی ہے تو کیا ایک سماج میں مختلف تعلیم و تربیت ، خاندانی پسِ منظر اور بودوباش رکھنے والے خواتین و حضرات کا انہی معاملات پہ سوچنے کا انداز ایک جیسا ہو سکتا ہے ۔؟ نہیں ناں۔۔  تو پھر حل کیا ہے۔؟  حل وہی جو ازل سے ہے جسے ایک آفاقی اصول کے طور پر “جیو اور جینے دو Live and let live ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مذہب ،معاشرت ،تعلیم، ملازمت ، خوراک ،رہن سہن ، تفریح ، سماجی عقائد و رسومات اور لباس ۔۔ یہ چند موٹے موٹے وہ سماجی عوامل ہیں جن پر ہم معاشرے میں تنوع دیکھتے ہیں۔

اگر ہم جیو اور جینے دو کے بنیادی اصول پر پہلے حصے کو رکھ کر دیکھیں تو اسکا مطلب بنتا ہے،  جس مرضی مذہب کے ساتھ جیو۔۔ جیسی مرضی طرزِ معاشرت کے ساتھ جیو ،جیسا جی چاہے تعلیم اور ملازمت کے ساتھ جیو۔  من چاہی خوراک کھا کر جیو اور اپنی پسند کی سماجی و مذہبی رسومات کے ساتھ جیو اور دوسرے حصے کے مطابق ان تمام معاملات میں دوسروں کو بھی انکی منشا کے مطابق جینے دو۔ اس میں ریاست کا کردار وہی ہے جو گھر میں والدین کا ہے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایک کی آزادی کی وسعت اور حد دوسرے کی آزادی کے نقطہءِ آغاز ہی تک ہے ۔

کسی تحریر میں ،میں یہ لکھ چکا کہ انسان کے زیرِ تصرف اشیا ء میں سب سے زیادہ متنوع شے لباس ہے اور اسکی وجہ ظاہر ہے انسانی نفسیات ہے جو کہ تغیر پسند ہے، اسکی دوسری وجہ انسانی ضرورت بھی ہے ۔ لباس بہت سی انسانی اقدار کا آئینہ دار ہوتا ہے  لیکن ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے میں لباس ایک مخصوص تناظر میں وجہِ نزع بنا ہوا ہے ۔

تازہ ترین بیان پروفیسر ہود بھائی کی جانب سے سامنے آیا جب انہوں نے اسی طرزِ فکر کا مظاہرہ کیا  جس کے وہ اور ہم ناقد ہیں۔ ۔ یعنی اپنی آزادی کو دوسرے کی حدود میں داخل کر چھوڑنا۔ ۔ یہ وہی اندازِ فکروعمل ہے جو انکے ہدفِ تنقید طبقہ کا وطیرہ ہے  یعنی جیو کے حق کو تو استعمال کرنا لیکن جینے دو کے فرض سے عہدہ برآں نہ ہونا ۔انہوں نے بیان دیا کہ “جو خواتین حجاب کرتی ہیں وہ نارمل نہیں ابنارمل ہیں ۔”

یہ بیان اس لیے افسوسناک ہے کہ پروفیسر صاحب جیسے پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں سے بہرحال اس رویے کی توقع بالکل نہیں ہے جو یہاں کے اس طبقے سے منسوب ہے جو شخصی آزادی کے سرے سے قائل ہی نہیں۔  اپنی مذہبی اور سماجی لٹھ برداری کے ساتھ جو ہمہ وقت دوسروں کے ذاتی معاملات میں بنام مذہب اور معاشرت دخل اندازی کرتے ہیں۔۔۔ اور جس پر جنابِ پروفیسر تنقید کرتے ہیں۔

موجودہ دورِ حکومت میں حکمرانوں کی جانب سے دیے گئے کچھ عدم احتیاط پر مبنی بیانات نے وہ کردار ادا کیا ہے کہ اس مضمون کے آغاز میں دی گئی گھر کی مثال کے مصداق والدین نے اپنا وزن ایک کی آزادی کو صلب کرتے ہوئے دوسرے کے پلڑے میں ڈال دیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اولاد کے درمیان ایک مہلک خلیج پیدا ہو گئی ۔گھر کا توازن بگڑ گیا جسکا تسلسل ایک طرف احساسِ تفاخر اور دوسری جانب احساسِ محرومی پیدا کرتا ہے جسکے نتیجے میں سماج میں ایک ایسی خلیج پیدا ہو جاتی ہے جو سماج کو تقسیم کر دیتی ہے اور بارِ دگر عرض ہے منقسم فوج کبھی کوئی جنگ نہیں جیت سکتی۔

بقا ہمیشہ اصول کو حاصل ہوتی ہے اور اصول یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ کسی بھی معاملے میں اپنی پسند نا پسند دوسروں پر نہ تھوپے، دوسروں کو اپنے مروجہ اور متعین معیارات پر نہ پرکھے۔ اپنے نظریات و افکارکا دوسروں کو پابند کرنے کا تو سوچے بھی نہ۔

پروفیسر صاحب جیسے دانشوروں کو اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہیے۔۔  اگر اہلِ علم کے ہاں بھی یہ اصول راندہ درگاہ ٹھہرا تو لٹھ مارکہ مکتبہ فکر سے کیا گلہ۔۔ کیونکہ اصول ایک ہی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے کہ اس پر ایک طرف سے ہی سہی لیکن پیہم عمل ہو۔۔

بارِ دگر عرض ہے کہ پاکستان میں خواتین عموما پانچ قسم کے لباس میں نظر آتی ہیں ۔شلوار قمیض ، دوپٹہ ، چادر ،برقعہ گاؤن ،جینز شرٹ ۔لباس کو محض ایک عورت کی ذاتی پسند نا پسند ہی سے تعبیر کیا جانا چاہیے اور اس سے آگے اسے کسی بھی قسم کی مذہبی و سماجی تقسیم کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے ۔ ان تمام ملبوسات میں موجود خواتین کا ایک سا احترام اور تقدس ہونا چاہیے، یہ تمام لباس “نارمل” ہیں اور انکو پہننے والی خواتین بھی  اور کسی کو بھی ان ملبوسات کی بنیاد پر کسی بھی خاتون کو جج نہیں کرنا چاہیے ۔

ایک اور بات اس ضمن میں اہم ہے یہاں پر جذات فروشی بہت زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔۔۔۔ ایک ٹی وی چینل کی اینکر نے پروفیسر صاحب کے بیان کی مخالفت کرنے کے لیے جب حجاب کر کے پروگرام کا آغاز کیا تو انٹرو دینے کے بعد کہنے لگیں کہ بریک کے بعد “نارمل” طریقے سے پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔۔۔۔ یعنی پہلے ۔ خیر!

Advertisements
julia rana solicitors

پروفیسر ہود بھائی کے پاس دوسرے بیانیے والوں پر اخلاقی برتری کا ایک موقع  یوں بھی ہے کہ انہیں دانشورانہ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بات سے رجوع کر لینا چاہیے ۔ ان لوگوں پر کہ جو لباس کی بنیاد پر پاکستانی خواتین کو نہ جانے کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔  اگر پروفیسر صاحب ایسا نہیں کرتے تو بد قسمتی سے انکے ردِعمل میں وہ لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے پھریں گے اور نتیجتاً وہ خلیج مزید بڑی ہوتی جائے گی جس کو پاٹنا اس منتشر معاشرے کو ایک مربوط انسانی سماج بنانے کے لیے اشد ترین ضروری ہے جہاں ہم سب جئیں اور جینے دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply