روئے زمین پر انسان کو ہی یہ کمال حاصل ہے کہ وہ اپنے دہن کو ہلا کر زبان سے اپنی بات کا اظہار کر سکے انسان کو دوسری مخلوقات پر برتری دلانے میں یہ خوبی بھی اپنا الگ مقام رکھتی ہے کہ بول چال کی یہ خصو صیت انسان کی کتنی بڑی طاقت ہے کہ وہ صرف بات چیت سے ہی کیسے کیسے معاملات طے کر لیتا ہے ہر حرف ایک معانی بیان کرتا ہے جو دوسروں کو مدعا سمجھنے میں مدد کرتا ہے ۔
یہ بات کتنی دلکش اور خوبصورت ہے کہ زبان سے اظہار کی قوت نے ایک انسان کو دوسرے انسان کو سمجھنے ، محبت کرنے اور اس سے قربت کرنے کو آسان بنا دیا ہے شاید قدرت نے بھی انسان کو یہ وصف اس لیے عطا کیا تھا کہ وہ الفاظ کی مدد سے دکھ درد سمجھ سکے ، دوسروں کی ضرورت جان سکے، تمناؤں کے لیے گنجائش نکال سکے۔
مگر یہ بات کتنی عام سی ہے کہ اہم اپنی اس زبان کے ذریعہ اظہار سے اتنے نا واقف ہیں کہ یہ اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ ہماری زبان لفظ ادا کر رہی ہے یا تیر برسا رہی ہے ہم محبت بانٹ رہے ہیں یا نفرت کے شعلے اڑا رہے ہیں ہماری زبان نرمی کا آئینہ ہے یا اشتعال کی چنگاری سلگا رہی ہے۔
ویسے تو ہم میں سے ہر کوئی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہمارے بہت سے الفاظ اور زورِ بیان ایک مخصوص طرز لیے ہوتے ہیں ، اور یہ طرزِ گفتار ہماری عادات، ہماری سوچ اور نظریاتی حد بندی کا عکاس ہوتا ہے جس سے بالا تر ہونے کی شعوری کوشش کبھی نہیں کرتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ پیٹرن ہماری مدد کرتے ہیں جبکہ یہ صرف لا علمی ہے کہ ہمارے وہ پیٹرن ہماری مدد کرتے ہیں ۔ ہمارے ایسے پیٹرن دراصل کبھی وہ سہولت پیدا ہی نہیں کر سکے جس کا تعلق تہذیب و شائستگی سے ہو اور جب ہم کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو ان پیٹرن کے ٹریپ میں ایسے الجھتے ہیں کہ ہم پل بھر میں عمر بھر کی رفاقت اور تعلق کو اپنی انا کی جوتی کی نوک پر رکھ دیتے ہیں۔
اک پل کے لیے غور کیجیے کہ آپ کا طرزِ تخا طب کیسا ہے ؟ کیا یہ دوسرے لوگوں کو سہولت دیتا ہے؟کیا آپ کی بات میں وہ تاثر برقرار ہے جو سننے والے کو آپ کی بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ؟ کیا آپ کو اپنی بول چال کی طرز میں کوئی خرابی کی صورت نظر آتی ہے ؟
یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کے بارے انتہائی سنجیدگی سے سوچ بچار کی ضرورت ہر شخص کو ہوتی ہے کیونکہ زبان کے بغیر الفاظ کے بغیر ہم اپنی بات نہیں کر سکتے اور جب ہم اپنی بات دوسروں کو سمجھا نہ سکیں گے تو کتنے ہی بکھیڑے زندگی کی راہ میں کھڑے ہو جائیں گے جو ہماری زندگی میں آسانیوں کی گنجائش کو کم کرتے جائیں گے اور مصیبتوں کو بڑھاتے جائیں گے۔
زندگی کی تکلیفوں کو کم کرنے میں ہماری زبان سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ زبان کو جنبش دینے سے پہلے اپنی سوچ کے اڑتے ہوئے بھنور کو قابو میں رکھا جائے اور حوصلے سے دوسرے کی بات کو سمجھ کر سلیقے سے جواب دیا جائے۔
ہم میں سے اکثر اسی وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہی درست ہے اور دنیا کی آخری حقیقت ہے ،جبکہ ماہرین کے نزدیک یہ وہم اتنا خطر ناک ہے کہ کسی شخص کو یہ تک سوچنے نہیں دیتا کہ اسے اپنے ذریعہ اظہار، لب و لہجہ کو جانچنے پرکھنے اور اس میں مزید نکھار کی ضرورت ہے ۔
اسی رکاوٹ کے سبب اکثریت کی یہی سوچ بن چکی ہے کہ دوسرے ہمارے ساتھ بہتر برتاؤ نہیں کرتے جس کے سبب ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں رہتا کہ وہ اپنے الفاظ کو زہر خند کر لیں ،لہجے کو سخت بنا لیں، تا کہ دوسروں کی غلطی کو اپنی انا نیت کے جبر سے کچل سکیں ۔
خام خیالی کا یہ بھلکڑ پن دونوں فریقین کو حماقت کے اس درجے تک آسانی سے لے جاتا ہے جہاں پر دونوں ایک شخص دوسرے سے ازلی دشمنی تو پیدا کر سکتا ہے ، مگر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی گنجائش نہیں دے پاتا ۔ جس کے سبب دونوں طرف آگ برابر کی لگی ہوتی ہے اور اس آگ کی لپیٹ سے دوسرے قریبی افراد آسانی سے جھلس جاتے ہیں ۔
اگر ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہم کو آسانی سے کوئی ایسا فرد دستیاب ہو جائیگا جس کے بات کرنے کے طریقے سے آپ بہت متاثر ہوں گے ایسے افراد دراصل یہ سیکھ چکے ہوتے ہیں کہ زبان کا استعمال نرمی سے کرنے اور دوسروں کو احترام دینے سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا کیوں کہ وہ اس راز کو پا چکے ہوتے ہیں کہ انا کی آگ دوسروں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنا انا پسند شخص خود کا کر لیتا ہے انکے نزدیک بات چیت سلجھاؤ پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، جبکہ عام طور پر لوگ بات چیت اس ڈھب سے کرتے ہیں کہ وہ مزید الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
بات چیت میں الجھاؤ کے سٹائل کا اندازہ کیا جائے تو سب سے زیادہ کنفیوزڈ، الجھاؤ اور مسائل پیدا کرنے والے سٹائل کپلز اور شادی شدہ جوڑوں میں ملے گا جس کے چلتے دونوں ایک ایسا مائنڈ سیٹ اپنے ذہن میں فکس کر لیتے ہیں جس سے دونوں کے درمیان کمیونیکیشن کا گیپ بڑھتا جاتا ہے اور کبھی کبھار نوبت ایسے نا گزیر ہر فیصلے پر آ جاتی ہے، جہاں پر دونوں اک دوسرے سے راہ جدا کرنے میں ہی سہولت محسوس کرتے ہیں ۔
اگرچہ یہ ایک وقتی سہولت اس وقت تو ذہن میں پوشیدہ اس انا کی تسکین کر کے یہ تاثر تو پیدا کر رہی ہوتی ہے کہ اب سکون مل جائے گا۔
مگر دراصل یہ دلفریبی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتی اور علیحدگی کے انتہائی فیصلے کے بعد ایک ایسے پچھتاوے کی صورت زندگی کا سکون برباد کرنا شروع کرتی ہے جو زندگی کو رائیگانی کے احساس سے بھر دیتی ہے ۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ صرف زبان سے لفظ ادا کرنے کی صلاحیت کے ہونے کا مطلب بات چیت کا ماہر ہونا یا کمیونیکیشن ایکسپرٹ ہونے کا نام ہے ۔ کمیونیکیشن میں ضروری ہوتا ہے کہ جتنا زور اپنے الفاظ ادا کرنے پر لگایا جائے اس سے زیادہ زور دوسرے کی بات کو سمجھنے پر لگا یا جائے تا کہ جب آپ بات کریں تو صرف وہی بات کر سکیں جو اس وقت کے لیےضروری ہو اور سلجھاؤ کا باعث ہو نہ کہ اپنی انا اور غصے کے جال میں پھنس کر معاملات کو بگاڑ لیں ۔
آج کی سب سے بڑی ضرورت پرسنل اپرومنٹ ہے جس کا کمیونیکیشن سٹائل یا گفتگو کا انداز پہلا مرحلہ ہے آج اس سِکل کی ضرورت اس لیے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ ہر فرد اب رئیل ورلڈ کی بات چیت سے دور ہو گیا ہے اور ورچول ورلڈ کی ٹیکسٹینگ لینگویج کا عادی ہو گیا ہے جبکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ورچول ورلڈ کی ٹیکسٹینگ ہماری لینگویج کی صلاحیت پر سب سے زیادہ منفی اثرات پیدا کرتی ہے، اور گفتگو کی اہلیت و قابلیت کو بگاڑ کے رکھ دیتی ہے جو شخص اس حقیقت کو جان لیتا ہے وہ اپنی کمیونیکیشن سٹائل کو بہتر بنانے اور کمیونیکیشن سکلز سیکھنے پر عملی توجہ دیتا ہے تا کہ معاملات سلجھا نے کے اس سب سے آسان ہنر کو اپنی زندگی کا اثاثہ بنا سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں