پہلا نشہ، پہلا خمار(1)۔۔شکور پٹھان

زندگی عجیب و غریب رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ ہر رنگ اپنی کہانی لیے ہوئے ہے اور ہر کہانی اپنے کئی رنگ چھوڑ جاتی ہے۔ زندگی طرح طرح سے بیتتی ہے۔ کچھ باتیں یاد رہ جاتی ہیں، کچھ بھول جاتی ہیں ۔ لیکن ایک بات کبھی نہیں بھولتی اور وہ ہے ہر چیز کا پہلا تجربہ۔ یہ تجربہ دل پر وہ ایسی چھاپ لگا دیتا ہے کہ ساری زندگی جب بھی اس بات کا خیال آتا ہے، پہلی تصویر ذہن کے پردے پر وہ بنتی ہے جب پہلی بار وہ بات ہوئی تھی۔
انسان پہلی پہلی بار کچھ دیکھتا ہے، کچھ چھوتا ہے، کچھ سنتا ہے ، کچھ سونگھتا ہے اور یہ پہلی بار کا تجربہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ذائقہ بھی ایسا ہی تجربہ جو پہلے پیار، پہلی محبت، پہلے نشے اور پہلے لمس کی طرح ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ جب کبھی کوئی اس غذا کا نام لیتا ہے تو زبان میں وہ ذائقہ محسوس ہوتا ہے جس سے پہلی بار شناسائی ہوئی تھی۔ ذائقے کا یہ سفر ساری زندگی جاری رہتا ہے۔
اللہ جانے آج کیوں مجھے وہ پہلے پہلے ذائقے یاد آئے ۔ یہ سب یاد آیا تو خود بخود یاد آتا چلا گیا کہ پہلی بار کون سی چیز اور کہاں چکھی تھی اور سب سے مزیدار ذائقہ کہاں ملا۔ ذائقے کے اس سفر کی راہوں سے آپ بھی گذرے ہونگے۔ شاید کسی راہ پر کسی موڑ پر، کسی پگڈنڈی پر آپ بھی چلے ہوں کہ اس میں سے کچھ تو خالصتا ذاتی تجربے ہیں تو کچھ جگ بیتی بھی ہے۔
اور یہ سفر مجھے اپنے بچپن میں لے جاتا ہے جب یہ دنیا بہت محدود تھی۔ وجہ شاید یہ تھی کہ زندگی بہت سادہ تھی، یا شاید ہماری اس سے زیادہ کی حیثیت ہی نہیں تھی، یا شاید اس زمانے کا ماحول ہی ایسا تھا۔ بات یہ ہے کہ اس وقت گھروں سے باہر کھانے کا یا گھر سے باہر کی چیزیں کھانے کا رواج ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔ اب تو باہر کھانا یا باہر سے کھانا منگوانا فیشن یا شوق سے بڑھ کر ضرورت بھی بن چکا ہے۔
جہاں تک مجھ یاد ہے گھروں میں کھانے بھی چند ایک ہی پکتے تھے اور ہم اسے ہنسی خوشی کھا لیتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ گھر میں ٹینڈے پکے ہیں تو بچے نے باہر سے برگر کھالیا۔ ہمارے گھر میں زیادہ تر دالیں اور سبزیاں پکتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں طرح طرح سے پکایا جاتا تھا جیسے کبھی بیگن یا آلو کی سبزی یا ترکاری پکا لی تو کبھی اسی بیگن یا آلو کا بھرتا بنادیا یا پھر آلو کی بھجیا پکالی۔ کبھی یہی آلو اور دال روٹی کے اندر چلے جاتے اور آلو والے پراٹھے اور دال بھری روٹی یا بیسنی روٹی، پودینہ اور ہری مرچ کی چٹنی کے ساتھ چٹخارے لے کر کھاتے۔ اللہ بخشے امی کے انتقال کے بعد دال بھری روٹی تو خواب و خیال ہی ہوئی کہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور آج کل بیگمات کے پاس اتنا وقت کہاں۔
گوشت اور قیمہ کبھی کبھار ہی، بلکہ کسی مہمان کی آمد پر ہی پکتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میرے بچپن میں مرغی ( یعنی چکن ) بہت ہی خاص دعوت میں پکتی تھی۔ چکن کا رواج ان دنوں بالکل نہیں تھا سوائے چکن تکے یا تکہ بوٹی کے کے جو صرف امراء اور شرابیوں کا شوق تھا۔ ہمیں نہ شراب نصیب تھی نہ کباب۔
جب تک امی زندہ رہیں اور میں ان کے پاس رہا ، دو ، ترتراتے پراٹھے اور چائے کے علاوہ ہمارا ناشتہ شاذ ہی کچھ اور ہوتا یا پھر کسی اتوار کو ذرا ہٹ کے ناشتہ ہوتا۔ کبھی تو گھر میں امی کی ہی کسی اور ترکیب سے بنی چیز جیسے “ مال پورے ، یا مالپوے، یا پھر دودھ ، انڈے میں تلی ہوئی ڈبل روٹی جسے آج کی زبان میں فرنچ ٹوسٹ کہتے ہیں، یا ایسی کوئی اور یا “ پاپے یا ڈبل روٹی وغیرہ کا ناشتہ ہوتا۔ ڈبل روٹی کے ساتھ جام اور مکھن کا رواج ہم غریبوں کے ہاں نہیں تھا۔ مکھن اور انڈا عموما کسی بیماری کی صورت میں ملتا تھا۔
کبھی کبھار، چھٹے چھماہے اور جب کبھی گھر میں چار پیسے زیادہ ہوتے، یا طبیعت عیاشی پر آمادہ ہوتی، یا امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو بازار سے حلوہ پوری، یا نہاری ،منگوائی جاتی۔ اور یہیں سے میری اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
بہار کالونی میں ہمارے گھر سے کچھ دور ایک امرتسر کے کشمیری النسل مہاجر کا تنور تھا جو صبح سویرے قلچے اور باقر خانی لگاتے۔ اب یہ یاد نہیں کہ یہ صرف چھٹی والے دن ہوتا یا روز کا معمول تھا کہ ہم تو صرف چھٹی والے دن ہی وہاں جاتے تھے۔ اس جیسی باقر خانی تو شاید بعد میں بھی کھائی ہو لیکن اس کے قلچے کا سواد مجھے آج تک کہیں اور نہیں ملا۔ خمیری آٹے والے، ہلکے سے نمکین، تل چھڑکے ہوئے گرما گرم ، پھولے ہوئے ان قلچوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ یہاں دوبئی میں ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ کی چین ہے جس کا نام کلچہ کنگ Kulcha King ہے لیکن یقین مانئیے یہ ہمارے بہار کالونی والے قلچوں کے پاؤں کی دھول بھی نہیں۔ وہ قلچے ہم چائے میں ڈبو کر کھاتے تھے۔ اب ان کی صرف یاد ہی رہ گئی ہے۔
اسی بہار کالونی میں سہ پہر کو ایک نانبائی سائیکل پر اپنی چیزیں بیچنے لاتا۔ ہمیں اس وقت دوپہر کی چائے کی عادت نہیں لگائی گئی تھی۔ امی اور دادی البتہ چائے پیتی تھیں۔ لیکن جب وہ نانبائی آواز لگاتا تو ہم امی سے پیسے لے کر دوڑے جاتے اور اس کی سوط خاص چیزوں میں سے ایک ضرور زخریدتے اور وہ دو چیزیں تھیں علیگڑھ کے پاپے جنہیں علیگڑھ کے بسکٹ بھی کہتے ہیں اور شاید علیگڑھ والے “مٹری” کہتے ہیں اور دوسرے اس کی نان خطائی تھی۔ آج تو شاید لوگوں کو علیگڑھ کے پاپے سمجھانا بھی ممکن نہ ہو۔ یہی نانبائی نمکین زیرہ والے بسکٹ اور ڈبل روٹیاں بھی لاتا تھا جن میں ایک قلچے کے سائز کی گول ڈبل روٹی ہوتی تھی جسے نان کہتے تھے۔ اب مجھے وہ نان نظر نہیں آتے۔
ہمارے بہار کالونی میں تو نہیں لیکن کبھی کبھار جب ہم شہر میں یعنی سوسائٹی وغیرہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں آتے تو یہاں صبح سویرے بی پی والوں کی گاڑی آتی۔ بی پی کا بن اور مسکہ بن کا جوڑ دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا۔ اور بی پی کی ڈبل روٹی والا ذائقہ بھی مجھے کسی اور ڈبل روٹی میں نہیں ملا۔ بی پی میرے بچپن کی یادوں کا اٹوٹ نقش ہے۔ سب سے پہلے چاکلیٹ اور ٹافی سے بھی بی پی کے ذریعے ہی شناسائی ہوئی اور اس وقت تک ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے بہترین چاکلیٹ بی پی کا ہی ہوتا تھا۔
اور اسی بی پی کے ٹرک سے پاکولا کے ٹرک بھی یاد آئے۔ اس وقت پیپسی وغیرہ پاکستان میں متعارف نہیں ہوئے تھے۔ کوکا کوکا، سیون آپ اور فانٹا بھی کچھ عرصہ بعد آئے تھے، پاکولا اورنج، لیمن، آیسکریم سوڈا، سوڈا اور جنجر ہی ہمارے ہاں کولڈ ڈرنک کہلاتے تھے۔ دکانوں اور ہوٹلوں سے بوتلیں لاتے وقت انہیں کھولنے کی چابی لانے کی خاص تاکید کی جاتی، دوسری صورت میں دروازوں کی چٹخنیوں وغیرہ سے یہ کام لیا جاتا۔ اور ہاں بوتلوں کی رقم پیشگی رکھی جاتی اور خالی بوتلیں واپس کرنے پر بقیہ پیسے واپس ملتا۔ لفظ “ ڈیپازٹ” ہم نے پاکولا کی بوتلوں سے ہی سیکھا تھا۔
غربت کے انہی دنوں میں جب ہماری اوقات گلی میں ٹن ٹن گھنٹی بجاتے گولے گنڈے، ملائی قلفی یا سیکرین والی آئس کینڈی کی تھی جو دو پیسے سے دوآنے تک میں مل جاتی تھیں ، ایک عیاشی کا تعارف کراچی والوں کی زندگی میں ہوا اور وہ تھی “ ایم ایف آئس کریم “۔ بعد میں تو بہت ساری ملکی اور غیرملکی آئس کریم آئیں لیکن ایم ایف کراچی والوں کا آئس کریم سے پہلا پیار تھا جسے میری نسل کے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس کی کم از کم ،چوک بار، چار آنے کی تھی جو ہماری اوقات سے بہت زیادہ تھی لیکن ہم بچوں کا دل رکھنے کے لیے امی چار آنوں کی قربانی دیتیں اور چھری سے اس چوک بار کے چار برابر حصے کرکے ہمیں پلیٹوں میں دیتیں جنہیں ہم برضا و رغبت کھاتے۔ شکر ہے پانچویں بہن اس وقت پیدا نہیں ہوئی تھی ورنہ ہمارا حصہ اور کم ہوجاتا۔ امی کو کبھی آئسکریم کھاتے نہیں دیکھا نہ کبھی ہم نے انہیں اپنی آئسکریم میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ ایم ایف والے آئسکریم کے ساتھ پوٹاٹو چپس بھی بیچتے تھے جنہیں ان دنوں ہم “ ویفرز” کہتے تھے۔ آج بھی وہ ویفرز ہی ہیں مگر ہماری اوقات کے ساتھ زبان بھی بدل گئی ہے۔ میری یاد داشت کے مطابق یہ پہلے چپس تھے جو ہم نے دیکھے تھے۔ شاید شہر کے اچھے ریسٹورانوں اور دکانوں میں چپس ملتے ہوں مگر یہ عام آدمی کے چونچلے نہیں تھے۔
بہار کالونی کی دنیا ہماری دنیا تھا لیکن اپنے “ امیر” رشتہ داروں کی بدولت ہمیں اس دنیا کی جھلکیاں بھی دیکھنے مل جاتیں جہاں ہر روز ، روز عید اور ہر شب ، شب برات ہوتی تھی۔ چھٹیوں میں یا کسی شادی بیاہ میں یا کسی غمی اور سوگ میں ہم سوسائٹیز کے علاقے میں اپنی پھوپھیوں کے ہاں آتے اور کئی کئی دن رہتے۔
کوکن سوسائٹی کے پڑوس میں دہلی مرکنٹائل سوسائٹی ہے بلکہ کہیں کہیں یہ آپس میں کچھ اس طرح گندھی مندھی ہیں کہ ایک گلی کوکن کی ہے تو اس کے ساتھ کی گلی دہلی والوں کی اور اگلی گلی پھر کوکن سوسائٹی کی ہے۔
ہم لڑکوں کی جیب میں کہیں سے اگر آتھ آنہ یا ایک روپیہ آجاتا، جو کہ عید بقر عید پر ہی ہوتا، یا کبھی ہمارے کسی بڑے کی طبیعت سخاوت پر آمادہ ہوتی، یا اچانک کوریاض مسجد کی مشرقی سیڑھیوں کی دائیں جانب ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے کاؤنٹر پر بھائی غفار کباب بھونتے رہتے۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک چھوٹی سی بنچ تھی جس پر بیٹھ کر ہم بھائی غفار کے “ آتشیں” کباب کھاتے اور سی سی کرتے اور پانی پیتے رہتے۔ بھائی غفار شاید کبابوں میں “ گن پاؤڈر “ یعنی بارود ڈالتے تھے۔ بہت بعد میں ہماری برادری کے بہت متمول اور مخیر شخصیت جناب ایم ایم بخشی کے ہاں “ بندو خان” کے کباب بھی پہلی مرتبہ کھائے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی۔ بھائی غفار کی دکان جو ایک بنچ پر مشتمل تھی آج ریاض مسجد کی پوری گلی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی ایک اتنی ہی بڑی برانچ بلوچ کالونی میں بھی ہے جہاں دہلی سوداگران کی بڑی تعداد آباد ہوگئی ہے۔ ان کی شاید اور بھی شاخیں ہوں۔ اب کراچی میں وحید کے کباب ، میرٹھ اور دوسرے کباب بھی مشہور ہوگئے ہیں لیکن جنہوں نے بھائی غفار کے کباب کھائے ہیں وہی جانتے ہیں کہ اصلی گولا کباب کسے کہتے ہیں۔
اور ہاں پہلی بار جب بھائی غفار کے ہاں کباب کھائے تو وہ “ کھیری” کے تکے تھے۔ اس کے بعد پھر کبھی کھیری کے تکے نہ کھائے نہ ان کا نام سنا۔
اک کارواں کے ساتھ گئی، کارواں کی دھولئی مہمان وارد ہوجاتا تو ہماری دوڑ دہلی سوسائٹی میں ریاض مسجد کی طرف لگتی۔ لیکن ہم اس علاقے کو ڈی ایم ایس یا ریاض مسجد نہیں بلکہ “ شمسی ہاؤس “ کے نام سے جانتے جہاں “ بھائی غفار” کی کبابوں کی دکان تھی۔ بھائی غفار کا نام بھی ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوا جب کالج آنے کے بعد میرے بہت سے دوست وہ بنے جو دہلی مرکنٹائل سوسائٹی میں رہتے تھے ورنہ ہم اسے ہمیشہ “ شمسی ہاؤس کے کباب “ کہتے تھے ( شمسی ہاؤس والوں غریب کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی)۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply