عرضی بنام مائی باپ آرمی چیف۔منصور ندیم

عزت مآب جناب آرمی چیف صاحب!

مرشد، آپ کو پچھلے ہفتے بہت ہمت کرکے ایک خط تو لکھ دیا تھا، اس کے بعد دل کی دھڑکنیں ہر فون کال پر اتھل پتھل ہو جاتی تھیں، کچھ کرم فرماؤں کا کہنا ہے کہ تم کیا افلاطون بن بیٹھے ہو جو زمانے کے خداؤں کو چیلنج کرتے پھرتے ہو، چار بھیگے  چھتروں میں چیں بول  جاؤ گے، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
مائی باپ، ڈر تو واقعی بہت لگتا ہے لیکن اللہ کے بعد اس ملک کے مقتدر حلقوں میں آپ کی جانب ہی نگاہ اٹھتی ہے، مانا کہ گلہ بھی آپ سے ہی ہے، لیکن عرض کےلئے بھی آپ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لئے یہ دوسری عرضی لکھنے کی جسارت کر بیٹھا۔

مائی باپ!  جب کل یہ سنا کہ پاکستان نے انسانی بنیادی حقوق کی مد میں  باضابطہ طور پر بھارتی ہائی کمیشن کو خط لکھ کر کلبھوشن یادو کے گھر والوں کو کلبھوشن یادو سے ملاقات کی پیشکش کی گئی ہے۔ جس کلبھوشن سنگھ یادو جاسوس کو گزشتہ سال 3 مارچ 2016 کو  بلوچستان کے سرحدی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا، مرشد یہ سن کر دل پر بوجھ بڑھنے لگا ، کہ یہ کیسا انصاف ہے میرے ذہن میں 44 سالہ آصف حمید کا خیال آنے لگا جسے 10 اکتوبر 2013 میں ریاستی ادارے اٹھا کے لے گئے، 4 سال بیت گئے ، اس کی بیمار بیوی دوا دارو سے بھی عاجز ہے، مکان کا کرایہ دینے سے قاصر ہیں، اس کے 7 بچے نہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں نہ ہی پیٹ کا دوزخ بھرنے کے اہل ہیں، ان کی آنکھیں اپنے لاپتہ باپ کا  رستہ تک رہی ہیں کوئی ادارہ اس گرفتاری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں،  ڈر لگتا ہے کہ کل ان بچوں کا کیا مستقبل ہوگا۔

لاہور سے 35 سالہ الیکٹریکل انجینیر کامران ساجد کو بھی یہ ریاستی ادارے 2015  کو  8 ستمبر اور 9 ستمبر کی شب گھر سے اٹھا کر  لے گئے تھے اس کی نوبیاہتا بیوی کس منصف سے فریاد کرے۔آج تک ان کے لواحقین کو یہی نہیں پتہ چل سکا کہ لے جانے والے کون تھے اور کس جرم میں ان کے پیارے لاپتہ کردیے  گئے ہیں۔کتنے ہی والدین  کے بڑھاپے  کا سہارا تھے وہ لوگ، کتنے بچے یتیموں جیسے زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے،   کتنی سہاگنیں کرب و انتظار میں مبتلا ہو گئی ہیں۔

مائی باپ ! اس وقت ملک میں کم وبیش 25000 افراد لاپتہ ہیں، ان میں سے 90فیصد  لوگوں کے لواحقین تو  ایسے ہیں جو باقاعدہ کسی بھی سطح پر آوا ز تک نہیں اٹھا سکتے ہیں پھر چاہے بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہوں ، چاہے شعیہ کمیونٹی کے لاپتہ افراد ، کراچی کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے وابستہ 165 افراد ہو یا کسی بھی جہادی تنظیم سے وابستہ افراد،  پاکستان میں تسلسل سے کئی سالوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کو کیا  یہ حق حاصل نہیں ہے، کہ انہیں کسی عدالت یا کسی احتسابی فورم پر پیش کیا جاے، انہیں انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کا، یا اپنے دفاع میں وکیل کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

مرشد  ! ہم  مان لیتے ہیں، ان تمام لاپتہ افراد نے کسی بھی صورت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہوگا۔ کسی بھی جرم سے ان کی وابستگی ہوگی، کیا وہ تمام لاپتہ افراد اپنا یہ بنیادی انسانی حق بھی نہیں رکھتے۔
مائی باپ ! جب ہم یہ التجا کرتے ہیں کہ ان لاپتہ افراد کو ان کا جائز قانونی حق دیا جاے تو ہمیں وطن اور سرحدوں پر سپاہیوں کی قربانیاں گنوا کر  اس غیر قانونی فعل کو Justify کیا جاتا ہے، ہمیں غدار وطن ثابت کرنے یا ہماری حب الوطنی پر انگلی اٹھا دی جاتی ہے۔

مائی باپ! آج دل چاہتا ہے کہ اپنے دل کے اس درد کو بھی سنا دوں  کہ جب کوئی قومی نغمہ سنتا ہوں تو میری بھیرگوں  میں خون کی گردش بڑھ جاتی ہے۔ جب کوئی سپاہی اس دھرتی پر اپنی جان نچھاور کرتا ہے اور اس کا باپ بیوی یا بچے اپنے نمدیدہ آنکھوں سے پاکستانی پرچم وصول کر رہے ہوتے ہیں ، میرا بھی کلیجہ پھٹتا ہے، اس سپاہی پر فخر محسوس ہوتا ہے  کہ وہ اس مٹی اور وطن کی ناموس اور حفاظت پر اپنی جانوں کا سودا کرتے ہیں۔ ان ماوں کو سلام کرتا ہوں جو اپنے بچوں کو جوان کر کے اس سفر پر روانہ کر دیتی ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی، حیران ہوجاتا ہوں ان ماؤں کی عظمت کو دیکھ کر جو ایک بیٹے کو موت کا راستہ چنتے دیکھتی ہیں اور پھر اس بیٹے کی موت کے بعد دوسرے بیٹے کو بھی فوج میں کیوں بھیجتی ہے؟

وہ منظر کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ جب اس سپاہی کے لواحقین اپنے جان کے ٹکڑے کو اس وطن پر قربان کرکے اس کے بدلے میں پرچم لیتے ہیں، کبھی بھی ممکن نہیں ہوا کہ میری آنکھیں یہ منظر برداشت کر پائیں اور اشک نہ رواں ہوں،  سوچتا ہوں کہ یہ سپاہی بھی کیا واقعی انسان ہیں، یہ  دھرتی کے لئے ایسا سودا کرتے ہیں، وطن کی دوسری سہاگنوں کا سہاگ رکھنے کےلئے اپنی بیویوں کا سہاگ اجاڑ دیتے ہیں، دھرتی کے بچوں کو یتیمی سے بچانے کےلئے اپنی اولادوں کو یتیم چھوڑ جاتے ہیں۔

مائی باپ ! لیکن یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے کہ کلبھوشن جیسے دہشتگرد کے لئے تو بین الاقوامی عدالت بھی میسر ہے اور انسانی بنیادوں پر اس کے گھر والوں سے ملاقات بھی، پھر کیونکر پاکستان میں ریاستی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے لاپتہ ہونے والے افراد کو وہ تمام بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں۔

مائی باپ! جب امریکہ آپ کو دھمکیاں لگا کر Do More   کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ امریکہ کو اپنی قربانیاں یاد دلاتے ہیں ، بالکل ایسے ہی ان لاپتہ افراد کے لواحقین اسی ملک کے شہری ہیں اور اس ملک سے محبت کرتے ہیں ، خدارا  انہیں پاکستانی سمجھا جائے  اور  ان لا پتہ افراد میں سے جو لوگ مجرم ہیں ان کا قانونی احتساب کیجئے اور جن کے مطالبات جائز ہیں اور طریقہ کار قابل قبول نہیں، انہیں بھی یہ احساس دلایا جائے  کہ وہ ریاستی شہری ہیں ان کے ساتھ کوئی محرومی روا نہیں رکھی جائے گی۔اور  پاکستان میں خصوصاً وہ لاپتہ افراد جو قلم سے ملک کے ان مقدس اداروں پر تنقید کرتے ہیں، ان لاپتہ افراد کا جرم دہشتگردی سے بھی بڑا جرم ہے کہ آپ ان مقدس اداروں پر کوئی جائز اور مثبت تنقید بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس کی بنیاد پر بنیادی انسانی حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں۔

مائی باپ !  مانا کہ گستاخی کر بیٹھا ہوں، لیکن یہ کمبخت دل  مانتا بھی نہیں اور اسی دل کو جب یہ احساس دلاتا ہوں کہ  لاپتہ ہونا کیسا ہوتا ہے، تو اس کی رفتار قابو سے باہر ہونے لگتی ہے۔ پر کیا کروں پھر بھی کمبخت دل ہے کہ مانتا ہی نہیں پھر گستاخی کر بیٹھتا ہے۔

گستاخی معاف —-

Advertisements
julia rana solicitors london

عاجز  فریادی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply