• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی داستان )دوسرا حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی داستان )دوسرا حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

وہ پہلی رات وہاں میرے لیے شدید کربناک تھی  پہلے تو ماں بہت یاد آرہی تھی سوچ رہا تھا کاش ابو نے میرے دوست اسامہ کے ابو کی طرح داڑھی نہ رکھی ہوتی اور اتنے کٹر مذہبی نہ ہوتے تو اسکی امی کی طرح میری امی کی بھی گھر میں کچھ حیثیت ہوتی تو آج میں اپنی امی کو بتاتا کہ مجھےڈر لگ رہا ہے ،  وہ مجھے اپنے ساتھ سلا لیتیں  ، اس بچے کو لگنے والی بے پناہ چھڑیوں کی گونج اور اس پر اسکی کربناک چیخیں کانوں میں آ رہی تھیں کاش میں اپنی ماں کو کہہ سکتا کہ میرے کانوں پہ اپنے مشفق ہاتھ رکھ دے میں ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔  جب بھی میری آنکھ لگتی تو اس کے آنسو میرے دل پر گرنے لگتے اور آنکھ کھل جاتی ۔جب میں بہت نڈھال ہو گیا تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔  اور اس بے چارے کو دیکھا تو وہ اپنے بازو کو سہلا رہا تھا اور رو رہا تھا، مجھے شدید جھٹکا لگا اور میں اسکے پاس پہنچا۔ اس سے نام پوچھا تو اس نے عبدالرحمان بتایا ۔ ارے یہ رحمان کا بندہ اسکے رحمت کدے میں اسکی رحیمی سے محروم کیسے ہے ؟ اسکا جواب یوں ملا کہ اس بچے کو پہلے بھی کئی بار بری طرح سے تشدد کیا گیا اس نے ایک دفعہ اپنے باپ کو بتایا جنہوں نے قاری صاحب سے بات کی تو قاری صاحب نے جواب دیا کہ یہ دینِ خدا کو سیکھنے کے دوران تکالیف برداشت کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے اور جس حصے پر ضرب لگتی ہے وہ دوزخ کی آگ سے پاک ہو جاتا ہے۔ افسوس!

میں اپنے بستر پر واپس آیا تو بے حد مضطرب تھا میرے چھوٹے سے دل میں بسنے والا خدا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ پہلے معصوم بچوں کو اپنی بہشت کے باغ کے پھول کہے اور پھر ان پھولوں کو جنت کی کسی کیاری میں کھلنے کے لیے یوں انکے مسلے جانے کی شرط رکھ دے۔ وہ تو مشفق ترین خدا ہے۔

خدا خدا نہیں بلکہ ماں ماں کر کے مجھے نہ جانے کب نیند آ گئی اور میں بمشکل چند ہی گھنٹے سو کر علی الصبح اٹھ گیا۔۔ نماز پڑھی اور اسکے بعد اَدھ کھلی آنکھوں اور محوِ خمار دماغ کے ساتھ  پارہ لیے بیٹھ گیا‍‍۔ آج سبق ملنے کا پہلا دن تھا لیکن اس سے پہلے سبق سکھا دیا گیا تھا ۔ قرآن کو حفظ کرنے کے پیچھے محرک ہدایت و رحمت کے پیغام کو دل میں اتارنا اور دوسروں تلک پہنچانا نہیں تھا بلکہ بہیمانہ تشدد سے بچنا تھا ۔جس کا خوف دل کو دہلا رہا تھا،روح کو لرزا رہا تھا۔

ایک ایسی عمر میں جہاں بچے کو ممتا کے لاڈ پیار محبت اور پدری شفقت کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں ہمیں اس سفاکانہ ماحول کا قیدی بنا دیا جانا بڑی زیادتی تھی۔۔۔۔اس جبر و زیادتی کا احساس بذات ِ خود ایک تیز دھار آلہ قتل تھا جس سے انسانی احساسات کی شاہ رگ کٹتی تھی۔

پیر صاحب اور قاری صاحب کے حکم کے مطابق مجھے اس ماحول کا عادی بنانے یعنی میرے  اندر سے انسانی جذبات و احساسات کو مکمل قلع قمع کرنے کے لیے مجھے گھر سے زیادہ تر دور اور مدرسے میں رہنے کا پابند بنایا گیا ۔ ماں اور اپنی فطری حیات کی یاد بہت ستاتی تھی ۔اڑتے ہوئے جہاز دیکھتا تو ان میں پائلٹ حاشر کے آنسو آسمان سے بارش کی طرح سیدھے دل پر گرتے ۔کسی بڑے ڈاکٹر یا مفت علاج وغیرہ کا تذکرہ ہوتا تو ڈاکٹر حاشر میری حسرت کی ردا اوڑھ لیتا۔ کہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات ہوتی تو انجینئر حاشر میرے ساتھ بیٹھا آہیں بھرتا اور کسی سائنسی دریافت و ایجاد کی کا ذکر چل نکلتا تو وہ بچہ میرے گلے لگ کے روتا جو سائنس کی کتاب پڑھتے یہ سوچتا تھا کہ وہ پاکستان کا نامور سائنسدان بن کر کوئی ایسی ایجاد کرے گا کہ پوری قوم کا تفاخر بن جائے اور ۔اور جب کہیں کوئی کرکٹ میچ ہوتا تو بس ہمتِ مرداں کی نیٹ پریکٹس کرتی زندگی کا کپتان جبر و استبداد کے ہاتھوں شکست کھانے والی ٹیم کا تماشائی بن کر اپنے آنسو پی جاتا تھا ۔ اک دوراہے پر جی جاتا تھا ۔

ہمارے مدرسے کے عقب میں ایک گراؤنڈ تھا ایک دن جب مجھ سے بالکل رہا نہ گیا اور میں عصر کی نماز پڑھ کے غائب ہوا اور دیوار پھلانگ کر وہاں کھیلنے چلا گیا  ۔ لڑکے عمر میں میرے سے کچھ بڑے تھے۔ میں انکی ٹیم کا باقاعدہ حصہ بھی نہیں تھا۔ میں نے جب انہیں کہا مجھے بھی کھلاؤ تو پہلے ہنسے پھر ایک کھلاڑی کم ہونے کی وجہ سے مجھے کھلا لیا ۔بڑا مزا آیا میں نے ڈائیوز لگا کر دو چوکے روکے۔  ایک یقینی چھکا تھا ایج لگ کر فائن لیگ کے اوپر سے جا رہی تھی اور میں نے نہ جانے کیسے اتنا اونچا جمپ کیا کہ کیچ پکڑ لیا، وہ انکا مین بیٹسمین تھا۔ ۔ اوور تو مجھے ملا نہیں اور جب جی بیٹنگ آئی تو آخری اوور میں رنز رہتے تھے گیارہ۔۔  اور میں تھا لاسٹ مین ایک گیند دسویں نمبر نے بیٹ کی اور دوسری پر آؤٹ  پھر میں گیا۔  ۔ باؤنڈری بڑی تھی چھکا تو میرے سے مشکل تھا ۔ اس لیے اس نے تیز شارٹ پچ کی تو میں نے سلپ کے اوپر سے ہلکا سا نج کیا اور چوکا ہو گیا۔ ۔ سارے حیران کہ یہ کیا، جو پہلے کہہ رہے تھے ہار گئے۔ اب انہیں امید لگ گئی تھی۔ اگلی بال مجھ سے بیٹ ہوئی دو گیندوں پر سات رہتے تھے۔ ۔میرے دل میں شاہد آفریدی کا خیال آیا۔۔  بالر نے یارکر کرنے کی کوشش کی اور وہ ایسی ہاف وولی بنی کہ میں نے پوری قوت سے فرنٹ فٹ پر سیدھے بلے سے ہٹ کی تو وقاص بھائی مجھے لگا کہاں جائے گی کیچ ہو جائے گا وہ تو پتا تب چلا جب سیدھی مدرسے کی دیوار کے ساتھ۔۔ وہ دیوار جو میری زندگی کے رستے میں بھی حائل ہوئی۔ میچ تو ہو گیا برابر اور میری ٹیم تو بھاگی میری طرف۔ ۔ روک لینا۔۔وکٹیں کور کر لینا۔۔۔سنگل لے لے۔۔۔یہ مشورے اور نصیحتیں مجھے ملیں اور بالر نے آخری بال کروائی اور میں نے پرفیکٹ یارکر کو بڑی مشکل سے ڈگ کیا گیند شارٹ لیگ پر گئی اور میں رن پورا نہ کر سکا اور رن آؤٹ ہو گیا ۔میچ ٹائی ہو گیا۔ سب نے مجھے شاباش دی اور میں بھاگا مدرسے کی اس دیوار کی طرف جہاں سے آیا تھا ۔ جونہی میں دیوار کو پھلانگنے لگا تو مجھے قاری صاحب نے دیکھ لیا اور میرا دل حلق میں آ گیا۔ میں خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور وہی ہوا جسکا ڈر تھا ۔میرے جسم کا کوئی حصہ نہیں تھا جس پر ملاں کی جنت واجب نہ ہوئی۔۔۔۔۔پائپ لگنے کی جلن ایسی تھی کہ جہنم کی آگ بھی ہیچ۔

اس کے بعد مجھے دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنانے کے لیے پیروں کو زنجیر سے باندھ دیا گیا۔  پروں کو تو پہلے ہی کتر دیا گیا تھا اب پیروں کو بھی باندھ دیا۔ ۔لیکن اس رات میں درد سے نڈھال جب کمر زمینی بستر پر ٹکاتا تو سینے سے آہ کے ساتھ ماں کا لفظ نکلتا لیکن اس رات یہ لفظ واقعی دل سے نکل ہی گیا ۔میں نے سوچا کہ خدا نے اپنی تخلیق کی سب سے اہم ذمہ داری تو اسکے بطن اور آغوش کو دی تھی ۔اگر وہ اس ذمہ داری کے لیے تیار ہی نہیں تھی تو مجھے پیدا کیوں کیا۔ کیا اسے مجھ سے زیادہ اپنی نام نہاد مشرقی روایات کی خود ساختہ مجبوریوں سے پیار ہے۔ اگر میں اسکے دل میں بستا ہوں تو دل کو دل سے درد کی راہ کیوں نہیں ہوتی؟ کاش وہ آج میرے پیروں میں موجود زنجیریں توڑنے کے لیے اپنے پیروں کی بے یقینی و بے وقعتی کی زنجیریں توڑ کر مجھے ممتا پور میں لے جائے۔۔ جہاں وہ خدا کی نائب ہو اسکی محبت رحمت للعالمین کی وارث ہو یہ درندے نہیں جو تشدد سے بچوں کے جسموں سے روحوں تک زخم لگا کر انہیں بے خواب کر کے نہ جانے کیسے چین کی نیند کے خراٹے بھرتے ہیں۔

اگلے دن میں موقع پا کر وہاں سے بھاگ کر گھر آ گیا اور میری ماں میرے جسم پر زخموں کے نشان دیکھ کر تڑپ اٹھی۔ والد صاحب بھی جلال میں آئے اور مجھے لے کر پیر صاحب کے پاس گئے جنہیں  یہ کہہ کر اپنے بارے میں میری رائے پر مہر ثبت کر دی کہ غلطی میری ہے اور یہ کہ میں آئندہ کرکٹ کھیلنے کے گناہِ کبیرہ سے پرہیز کروں۔ ۔اور پھر کہا کہ تھوڑی بہت سرزنش تو سکولوں میں استانیاں بھی کرتی ہیں ۔ انکا تھوڑی بہت کہنا مجھے لگنے والے پائیپوں سے بھی زیادہ زہرخند لگا اور یہ کہہ کر وہ جو مسکرائے۔ روح کے آخری کونے تک نفرت بھر گئی ۔میرے والد صاحب کو کہا کہ اسے واپس چھوڑ آؤ۔ وہاں سے نکلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ پیر صاحب کا بیٹا پاکستان بھارت کا میچ دیکھ رہا تھا ۔یہ منافقت میں لتھڑے ہوئے اس نظام پر میرے لئے آخری مہر ثابت ہوئی۔

میں جب واپس آیا تو قاری صاحب نے میرے ابو سے کہا ۔مجھے یقین تھا آپ اسے واپس چھوڑ جائیں گے آپ نے اچھا کیا۔۔۔ ورنہ میری نظر میں تو دینی علم سیکھنے کے دوران چھوڑنے والے مرتد جیسے ہوتے ہیں۔قاری کے لیے میرے والد کا پیر کا اندھا مقلد بن کر مجھے واپس چھوڑ جانا مجھ پر تشدد کا گویا NOC ثابت ہوا۔۔ وہ ہر دوسرے دن مجھے مارنے لگا اور میں ایک ذہنی مریض بننے لگا۔ آہستہ آہستہ میری صحت گرنے لگی، وزن کم ہونے لگا۔  میں جو ایک چاک و چوبند صحت مند نوجوان نظر آتا تھا اب ایک مدقوق سا چہرہ لیے بیمار دکھائی دینے لگا۔

میرے کٹے ہوئے پَر وقت کو لگ گئے اور اس نے اڑنا شروع کر دیا یونہی دو سال بیت گئے۔۔۔مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے قیامت تلک کے لئے خدا کی کتاب اپنے دل میں محفوظ کر لی  لیکن نہ اسکی محبت میں دلی چاہت کے ساتھ بلکہ جبر ی و استبدادی ہتھکنڈوں کے نتیجے میں تھرڈ ڈگری کے تشدد سے بچنے کے لیے جس کے بہانے مکار و درندہ صفت قاری کسی نہ کسی طریقے سے نکال ہی لیتا تھا ۔

لیں وقاص بھائی آپ کی گاڑی آ گئی اگلی ملاقات میں میں آپ کو اسکے بعد کی وہ دلخراش داستان سناؤں گا جسکے باعث آپ کا چھوٹا بھائی حاشر کہکشاؤں میں اڑنے کی حسرت لئے آج سڑکوں پر رکشہ چلاتا ہے۔ ۔میں اس سے اگلے ہفتے کی رات اسی ٹرین پر مجھے ریسیو کرنے کا وعدہ لے کر گاڑی میں بیٹھا اور اسے خدا حافظ کہا۔ ۔

اگلے ہفتے ہم ٹھیک اسی جگہ پر پہنچے۔۔۔ جہاں سے پچھلے ہفتے بچھڑے تھے۔ آج وہ کافی بشاش نظر آ رہا تھا ۔ کہانی گزشتہ سے پیوستہ۔ ۔

میں اب حاشر سے حافظ حاشر ہو چکا تھا۔۔۔جس دن میں نے حفظ مکمل کیا اس دن مدرسے میں میری دستاربندی ہوئی ۔میرے والد بھی وہاں آئے اور پیر صاحب بھی۔ پیر صاحب نے اختتامیہ خطاب میں کہا کہ میں اپنے مرید اور اس مدرسے کے مہتمم و سربراہ قاری اظہر اور باقی قاری صاحبان کو داد دیتا ہوں جو کہ بڑی شفقت و محبت سے اپنی اولاد  سمجھتے ہوئے ان بچوں کو دینی تعلیم دے رہے ہیں اس بچے میں پنہاں ایک عالمِ دین اور حافظ کو ہماری بصیرت کی آنکھ نے اسی دن دیکھ لیا تھا جس دن اس نے ہمارے دربارِ عالیہ پر نعت شریف پڑھی تھی۔۔۔۔ ڈاکٹر ،انجینئر ، سائنس دان یہ سب دنیا داری کے شعبے ہیں انکو دنیا میں بھی ایک عالم کی ضرورت پڑتی ہے اور آخرت میں اپنی بخشش کے لئے بھی دینی اعمال درکار ہوتے ہیں جبکہ حافظ تو اپنے ساتھ چھے اور لوگوں کو جنت میں لے کر جائے گا اور یہ اگر اس مدرسے میں نہ آتا تو دنیا داری میں اسکا زیاں ہو جاتا زیاں کا یہ لفظ سننا تھا کہ میری روح تڑپ اٹھی۔۔۔۔۔ مجھے اس جھوٹے خطاب سے گھن آنے لگی۔۔۔۔۔میں سٹیج پر گیا اور ان سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی ۔ قاری اظہر نے کان میں کہا کچھ ایسا ویسا کہا تو تیری چمڑی ادھیڑ دوں گا۔  میں انکی طرف دیکھ کر مسکرایا  اور مائیک کے سامنے پہنچ گیا ۔

پیر صاحب ،آج میں خدا کے کلام اسکی ہدایت کی کتاب اور اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی قرآن مجید کو اپنے سینے میں محفوظ کر چکا ہوں۔ اس لیے آج سچ بولنے کا دن ہے ۔میں کچھ سوالات آپکی اور اپنے استادوں کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں ۔کیونکہ آپ ہمارے حاکم ہیں اور بحیثیتِ حاکم اگر سوال حضرت عمر رض سے ہو سکتا ہے تو آپ سے کیوں نہیں اور میں تو طالبِ علم ہوں۔۔۔اور علم کا طالب سوال سے بے بہرہ علمیت کو بھی مطلوب نہیں۔

پہلا سوال  ۔آپ نے یہ کیسے فرمایا کہ یہ ہمیں اپنی اولاد کی طرح محبت و شفقت سے رکھتے ہیں کیا انکی اولاد بھی پائیپوں ،چھڑیوں کی درد اذیت اور جلن سے راتوں کو سو نہیں پاتی ؟

دوسرا سوال  ۔یہاں ہر وقت سنت نبوی ص کی تلقین کی جاتی ہے کیا سنت محض داڑھی عمامے مسواک اور کرتے کے اونچی شلوار تک محیط ہے۔ آپ ص کی سب سے بڑی سنت اچھے اخلاق ہیں ۔تشدد ،گالی گلوچ ،بد زبانی!سختی اور مار پیٹ تو ایسی قبیح چیزیں تھیں آپ جنکی تنسیخ و تردید کے لئے آخری نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔۔۔تو یہ انہی کے نام پر کیسے جاری و ساری ہیں ؟

تیسرا سوال۔  کبھی کسی نے بجائے تھرڈ ڈگری تشدد اور بہیمانہ مارپیٹ کے علاوہ سائنسی، نفسیاتی ، طبی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی سوچا کہ ہم اردو پنحابی سرائیکی سندھی بلوچی بولنے والے اگر یہاں آکر عربی کے حروفِ قلقلہ کی ادائیگی میں خصوصا شروع میں مشکل کیوں اٹھاتے ہیں؟

چوتھا سوال۔ ایک طالب علم قاری جو کہ خود مار کھا کھا کر اپنے اندر سے انسانیت کی نرم خوئی کھو دیتا ہے جب خود قاری و عالم بنتا ہے تو اپنا انتقام لا شعوری یا حتی کہ شعوری طور پر اگلی نسل کے بچوں سے لیتا ہے اورسلامتی کا دین نسل در نسل متشدد اور غیر سلامت ہوتا رہتا ہے ؟

پانچواں سوال۔  یہ کیا کہ مسجدِ نبوی ص میں بچے آئیں تو رحمت للعالمین انکے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوں اور انکی تقلید میں بننے والی مسجدوں اور مدرسوں سے انکے امتی بچوں کی آہیں سسکیاں اور کراہیں فضاؤں میں بلند ہو کر جنت کے اس پار انکے دلِ مقدس کو مغموم کرتی ہوں ؟

چھٹا سوال ۔آپ نے کہا کہ انجینئر ڈاکٹر سائنسدان پائلٹ وغیرہ بن کر انسان ضائع ہو جاتا ہے۔  یہ قرآن جو ہم پڑھ رہے ہیں ہم تک کاغذ سے لے کر پرنٹنگ تک سائینس نے پہنچایا ،جس لاؤڈ سپیکر پر آپکی تقریر سے لے کر اذان کی آواز اور خطبات تک مسلمانوں تلک پہنچتے ہیں یہ ہمیں سائنس دان نے دیے۔ آپکی ناک پر جو عینک رکھی ہے وہ آپ کو ایک ڈاکٹر نے تجویز کی ،جس مدرسے کی اونچی عمارت میں ہم بیٹھے ہیں وہ ایک انجینئر کی تخلیق ہے اور جس جہاز پر بیٹھ کر آپ بیرون ملک مریدوں سے ملنے جاتے ہیں وہ ایک پائلٹ ہی اڑاتا ہے تو کیا جتنی انہیں ہماری ضرورت ہے اس سے زیادہ ہمیں انکی ضرورت نہیں تو یہ انسانی زیاں کاری کیسے ہوئی ؟

ساتواں سوال۔ اگر میرا کرکٹ کھیلنا گناہِ کبیرہ تھا تو آپ کے بیٹے کا اسے دیکھنا کیسے کارِ ثواب ٹھہرا ؟

آٹھواں سوال۔ آخر کب ہم ان مدرسوں کو جدید نظامِ تعلیم سے ہم آہنگ کر کے ان میں پڑھتے پچیس لاکھ پاکستانی بچوں کو کنویں کے مینڈک بنانے کی بجائے قومی دھارے میں اڑتے اقبال کے شاہین بنائیں گے ؟

نواں سوال۔  رحیم و رحمان خدا کے رحمت للعالمین پر انسانیت کے لیے تا قیامت ہدایت و رحمت کے لیے اتارے گئے قرآن کو سیکھتے ہوئے ہمیں اتنی اذیت و زحمت کیوں سہنی پڑتی ہے؟

دسواں اور آخری سوال۔ کبھی کسی نے سوچا کہ انسانی فطرت کے خلاف اس گھٹن زدہ ماحول میں اس طرزِ تعلیم میں سال ہا سال قید رہنے والے اور بہیمانہ تشدد اور حیوانوں کی طرح مار پیٹ سہہ کر اپنے اندر سے انسانیت کا ترحم کھو دینے والے ہم طالب علم جب باہر جا کر دنیوی نظام میں شامل ہوتے ہیں تو اس ماحول کے اثرات ہماری شخصیات اور عادات و اطوار کے توسط سے خدا اور اسکے دین کا کیا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ ؟؟
خدا ہمیں فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج میرے جسم سے روح تک کون کون سے حصوں کو دوزخ کی آگ سے پاک کرتے ہوئے جنت کا حقدار بنایا جائے گا لیکن اپنے سینے میں کلام الہی اتار کر میں جھوٹ تصنوع اور منافقت کو اس عظیم سچائی کا شراکت دار نہیں بنا سکتا تھا۔۔۔۔۔اس پر بچوں کی تالیوں کی گونج کم از کم ایک صدی کا جمود توڑ رہی تھی۔

میں نے سٹیج سے نیچے اترتے ہوئے پیر اور قاری دونوں کو دیکھا جن کی خشمگیں نگاہیں مجھے پیغام دے رہی تھیں کہ آج تیار رہ بیٹے تیری خیر نہیں۔۔۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply