• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امیرجان حقانی کے ساتھ ایک فکر انگیز مکالمہ(حصّہ دوم)۔۔۔مرتب ومکالمہ: حافظ محمد فہیم علوی

امیرجان حقانی کے ساتھ ایک فکر انگیز مکالمہ(حصّہ دوم)۔۔۔مرتب ومکالمہ: حافظ محمد فہیم علوی

سوال: میگزین جرنلزم میں شوق کیوں پیدا ہوا اور کتنے رسائل میں بطور ایڈیٹر کام کیا؟

جواب:          زمانہ طالب علمی، میں جامعہ فاروقیہ کے دیواری مجلات(اردو و عربی) میں مجلس تحریر میں کام کرتا تھا۔سادسہ کے سال خیرکثیر لاہور میں بطور سب ایڈیٹر اور وائس آف گلگت بلتستان کراچی کے ایڈیٹوریل بورڈ کا رکن رہا۔ فراغت کے بعد ماہنامہ شہاب گلگت کا پہلا بانی ایڈیٹر بنا۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت سے گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سہہ ماہی نصرۃ الاسلام بطور بانی ایڈیٹر جاری کیا۔ ماہنامہ دارالقرآن گلگت جاری کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سہہ ماہی فکر و نظر گلگت،ماہنامہ بیاک میں بطور رکن خاص کام کیا۔زندگی نے وفا کی تو ایک بہترین میگزین اجراء کرنے کا ارادہ ہے جو آن لائن بھی ہوگا۔میگزین جرنلزم بھی میرا شوق بنتا جارہا ہے۔ اب شاید ویب میگزین کی طرف بڑھنا ہوگا۔

پاکستانی جامعات سے بہت سارے شاندار ریسرچ جرنلز  شائع ہوتے ہیں جہاں بہت سارے سماجی و دینی اور ادبی موضوعات پر بہترین تحریریں، ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہیں۔اب تو ان کا لیول بہت شاندار ہوگیا ہے۔یونیورسٹیز کے ریسرچ جرنلز کی تفصیلات اور پی ڈی ایف کی شکل میں قاری تک پہنچانے کے لیے ہمارے استاد ڈاکٹر محی الدین صاحب نے ایک پروجیکٹ  اسلامک ریسرچ انڈکس (IRI) کے نام شروع کیا ہے جس میں تمام جامعات کے ایچ ای سی سے منظور شدہ جرنلز موجود ہیں۔آن لائن استفادہ کیا جاسکتا ہے۔دینی مدارس و جامعات سے بھی ہزاروں میگزین شائع ہوتے ہیں۔ان کا معیار معمولی ہوتا ہے۔ بہت کم رسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں کچھ کام کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان میں شاندار بہتری کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان کی کالجز میں میگزین کے اجرا کے لیے بہت ہاتھ پاوں مارے مگر کہیں میرے اس شوق کی پذیرائی نہیں کی گئی بلکہ منتظمین نے اس شوق و جنون کو دبانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔یہ علم وادب اور تحریر سے دوری اورلاتعلقی کی بین دلیل ہے۔

سوال:  زندگی کے ایسے سبق امور واقعات جو بھلائے نہ بھولتے ہوں؟

جواب:          میں کیا میری زندگی کیا اور گزرے لمحات اور بیتے ایام میں سبق کیا۔ایسے واقعات و احوال بڑے لوگوں کے ساتھ اچھے لگتے ہیں۔

سوال:  آپ اپنی زندگی  کے کن لمحات کو قیمتی ترین اور یادگار سمجھتے ہیں؟

جواب:        میں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتا ہوں اور ہر لمحے کو یادگار بنانا چاہتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی پوری زندگی کو ہیرے کی قیمتی کان سمجھنا چاہیے۔ اپنے آپ کو ہیرا سمجھنا چاہیے اور پھر اپنی تلاش میں نکل کھڑا ہوا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو لمحہ لمحہ قیمتی ہوگا اور یادگار ترین بھی۔ ویسے اگر کسی کی خدمت کروں اور بے لوث کروں تو مجھے اندر سے انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میں اس وقت بہت خوشی محسوس کرتا ہوں جب  دینی و رفاہی اداروں کو بغیر معاوضہ کے وقت، توانائی اور سکلز  اور دیگر فری سروسز دیتا ہوں، بہت دفعہ وقت ، توانائی، مہارتیں اور محبتیں دینے پر بھی بعض بڑے افراد اور ادارے خوش نہیں ہوتے  بلکہ کیڑے  نکالتے ہیں تو بہت دکھ بھی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں صرف ”چندہ” دینا ہی تعاون کہلاتا ہے۔ وقت اور علم کے نذرانے کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی۔ بہر صورت افراد ہوں یا ادارے، میں وقت اور علم کا نذرانہ دے کر انتہائی خوشی محسوس کرتا۔انسان کی زندگی کا انتہائی عزیز اور قیمتی لمحہ وہ ہے جو  دوسروں کی بے لوث خدمت میں گزرے۔

سوال: کیا بامقصد زندگی گزارنے والے موت یا دنیا کے خوف سے ڈرتے ہیں؟

جواب:          اگر انسان بامقصد زندگی گزار رہا ہے تو اس کو موت کا خوف نہیں رہتا، کیونکہ پہلے سے وہ زندگی بامقصد گزار رہا ہے.اللہ کی طرف سے دی ہوئی اسائمنٹ پوری کررہا ہے بامقصد زندگی کے ذریعے، تو موت کا خوف کاہے کو۔
اور اگر زندگی بے مقصد گزر رہی ہے تو ہر دم موت کا خوف لگا رہتا ہے۔
آپ یوں سمجھ سکتے کہ
طالب علم کا سالانہ امتحان سر پر ہے۔ اگر مضامین کی تیاری مکمل ہے تو امتحانی سینٹر کی طرف جاتے ہوئے سرور ملتا اور امتحان کو ویلکم کہتا اور ڈٹ کر لکھتا رہتا۔امتحان کو انجوائی کرتااوراگر امتحان کی تیاری نہیں ہے، سال بھر وقت گزاری کی ہے تو پھر امتحان سر پر آجائے تو خوف آنے لگتا اور دعا مانگتا کہ کسی طرح امتحان آگے پیچھے ہوجائے۔
بس یہی صورت حال بے مقصد زندگی اور بامقصد زندگی کا ہے۔
انسان کو احساس ہے کہ وہ ایک خاص مشن اور وژن کیساتھ بامقصد زندگی گزار رہا ہے، تو سمجھ جائیے کہ وہ ایڈوانس موت کی تیاری کررہا ہے، اسکا کوئی پَل بے سود نہیں گزر رہا۔ موت کسی بھی وقت آجائے تو وہ گلے لگاتا ہے اور وہ اللہ کے حضور کامیاب و کامران ہے.
اور اگر زندگی بے مقصد گزرہی ہے۔ انسانیت کے لیے کوئی فائدے کا کام نہیں کررہا ہے، تو ایسے لوگ موت سے خائف ہوتے اور خوف کے عالم میں موت سے بھاگنے لگتے مگر وہ بھاگ نہیں سکتے۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔ یہ دیکھ لیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں کہ وہ انسانیت کے لیے سود مند ہے؟ اللہ کے فطری اصولوں کے موافق ہے؟
اگر ہمارے اعمال فطری اصولوں کے خلاف ہیں، ہماری مال وجان اور علم و ہنر سے سے انسانیت فائدہ نہیں اٹھا پارہی ہے، بلکہ ہماری دولت، علم، ہنر اور جان سے انسانیت کو خطرہ ہے، تکلیف اور دکھ کا سبب بن رہی ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم بے مقصد زندگی گزار رہےہیں۔پھر موت کیا، ہر چیز سے خوف آنے لگتا، دولت چھن جانے کا خوف، عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے کا خوف، اولاد کی نافرمانی کا خوف، بڑھاپے کا خوف، بیماری کا خوف،خرابی تعلقات کا خوف، کم علمی کا خوف اور بہت سارے خوف سے پالا پڑتا۔ سو ان تمام خوفوں سے بچیں، زندگی بامقصد بنالیں اور زندگی جیے یا پھر موت سے ڈرتے پھریں۔

سوال:  زندگی کو بدلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:          زندگی کو بدلنے کے ليے خود کو بدلنا ہوگا۔ سب سے پہلے منفی سوچوں سے نکلنا ہوگا۔منفی سوچيں انسان کو تباہ کرکے رکھ ديتي ہيں۔ انسان ويسے ہی ہوتا ہے جيسے اس کی سوچ ہوتی ہے ۔سوچ بدلنے کي ضرورت ہوتی ہے۔انسان فطرت پر پيدا ہوا ہے۔فطرت کا مطلب ہی اعتدال، درستی اور اچھائی ہے۔يہ سچ ہے کہ انسان منفی سوچ لے کر پيدا نہيں ہوا ہے۔ بدقسمتی سے انسان شعوری يا لاشعوری طور پر منفی سوچنا شروع کرديتا ہے۔تو ميں عرض کرنا چاہتا ہوں، آج کل کرونا  آيا ہوا ہے۔کرونا ايک معتدی و موذی مرض ہے جو جان ليوا ہے۔کرونا سے بچنے کے ليے حفاظتی اقدامات کرنے پڑتے ہيں، ايس او پيز بنائے جاتے ہيں اور ان پر عمل درآمد کروايا جاتا ہے۔سوشل ڈسٹينس رکھا جاتا ہے۔ اس کی ويکسی نيشن ہوتی ہے۔ اسي طرح کسي بھي وبائی مرض کی ويکسی نيشن ہوتي ہے۔ منفی سوچ بھي وبائی مرض سے خطرناک ہے۔منفی سوچ  وخيالات انسان کو تباہ کرکے رکھ ديتی ہيں۔ اس کی بھی ویکسی نیشن ہونی چاہیے۔ ايس او پيز بناکر عمل کرنا ہوگا۔ اس کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ منفی سوچ کی ویکسی نیشن، ذکر الہی ہوسکتی ہے۔کوئی کتاب ہوسکتی ہے۔کوئی استاد و اسکالر ہوسکتا ہے۔کوئی پیر و مرشد ہوسکتا ہے۔ کوئی محفل ہوسکتی ہے ۔ غرض ہر انسان کی طبیعت و ساخت کے مطابق منفی سوش سے چھٹکارا کی ویکسی نیشن ہوسکتی ہے۔ کوئی دوست وجہ بن سکتا ہے  انسان کو منفی سوچ سے چھٹکارا پانے کے لیے۔ شريک حيات بھي بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہے يا کرسکتا ہے? غرض جو لوگ  اہداف و مقاصد کے مطابق زندگی گزارتے ہيں وہ آسانی سے منفيت کا شکار نہيں ہوسکتے ہيں۔ اور اگر ايسے لوگ منفيت کا شکار ہوں بھي تو وہ اپنی زندگی اور کيرئير بدلنے ميں آسانی سے کامياب ہوسکتے ہيں۔کيونکہ انہوں نے ايڈوانس ايس او پيز بنا رکھی ہوتی ہیں۔

سوال: زندگی بدلنے کے لیے ایک استاد کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

جواب:          سچ یہ ہے کہ استاد ہی ”گیم چینجر ” ہوتاہے۔بس استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ استاد کی زمہ داریاں کیا ہیں۔اللہ رب العزت نے استاد کو یہ  ٹیلنٹ دیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ  کو اس قابل بنادے کہ وہ اپنی فیلڈ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کریں اور پھر زندگی  کے ہارئے ہوئے کھیل کو انجوائی کرتے ہوئے جیت لیں۔ مشکل سے مشکل مرحلے کو انجوائی کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کا گُر سکھانا، استاد کا کام ہے۔میں اس شخص کو قطعا استاد نہیں سمجھتا جو اپنے تلامذہ کو ان کے شاندار مستقبل کی جھلک نہیں دکھاتا۔استاد کا اصل کام   ”علم کی پیاس بھڑکانا” ہے۔ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو نالائق ترین طالب علم کو فائق ترین بنادے۔دنیا کا سب سے بڑا استاد ” محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم” ہیں۔ آپ ﷺ نے  اپنے لاکھوں کمزور شاگردوں کو دنیا کے بہترین اور کامیاب ترین اور اعلیٰ ترین  انسان بنایا ۔یہی کردار آج کے استاد کو بھی ادا کرنا ہوگا۔ تب گیم چینجر ہوسکتا ہے۔

سوال: زندگی میں کونسی  خواہش پوری نہیں ہوسکی؟

جواب:        اس سوال کے جواب میں اپنا ایک واقعہ بیان کردیتا ہوں ۔ اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا۔ جب میں ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کررہا تھا تو ایک دن  تمام اسٹوڈنٹس  کو اس سوال کے جواب پر پریذنٹیشن دینی تھی کہ

آپ اپنی چار خواہشات کا اظہار کیجیے۔ ہر ایک نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا۔ میں نے اپنی باری پر عرض کیا :

1: حرمین شریفین کی زیارت

2:  استاد بننا  (یعنی مدرسے کا مدرس اور کالج کا پروفیسر)

3:  والدین کی خدمت

4:  ایک ایسی شریک حیات کی چاہت ، جو زندگی کے ہر لمحے میری معاون بنے۔ میرے سماجی، علمی اور دیگر غمی و خوشی اور مستقبل کے پلاننگ میں لمحہ  لمحہ میری رفیق بنے اور مجھے ٹوٹ کر چاہیے  اور میں بھی اس کو ٹوٹ کر چاہوں۔اور وہ علم کی دھنی بھی ہو۔

یہ آخری خواہش پوری نہ ہوسکی۔ امید ہے مستقبل میں پوری ہوجائے۔

سوال: زندگی میں سینکڑوں نشیب و فراز آتے ہیں۔ اگر کوئی مایوسی کا مرحلہ آیا تو آپ نے کیا  رد عمل دیا یا ایسے موقع پر کیا کیا؟

جواب:      الحمدللہ ابھی تک مایوسی نہیں ہوئی کبھی۔ایک دو دفعہ کچھ ذاتی اور گھریلوے امور میں سخت قسم کی ڈسٹربینس ہوئی تھی مگر یہ کہہ کر خیال دل سے جھٹک دیا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور یہ مسئلہ بھی اپنی موت آپ مرے گا۔ دوسری شادی کے حوالے سے دس سال سے کوشش جاری ہے۔ سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ہوسکی مگر مایوسی نہیں ،مزید کوشش جاری ہے۔

سوال: علم و ادب کی دنیا میں آپ کون  کون سی شخصیات سے متاثر ہیں؟

جواب:          بہت سارے نام ہیں جن کی علم و ادب میں بے تحاشا خدمات ہیں اور ان سے انسپائریشن ملی ہے۔ ان کو پڑھ کر چند لفظ جوڑنے کا موقع ملا ہے۔ دینی ادب میں بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مناظر احسن گیلانی، شیخ الحدیث مولانا زکریا،مولانا مودودی، جناب شورش کاشمیری،مولانا ابوالحسن علی ندوری، سید سلیمان ندوری، قاری طیب،ڈاکٹر حمیداللہ ، ڈاکٹر محمود احمد غازی،عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر،مولانا ظفرعلی خان،پیرکرم علی شاہ،علامہ اسد، شاہ حکیم اختر،مولانا وحیدالدین خان,مولانا سمیع الحقؒ، مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہدالرااشدی، مولانا ابن الحسن عباسی،مولانا اسلم شیخ پوری،سید محبوب رضوی،شیخ محمد اکرم، پروفیسر خورشید احمد،پروفیسر خورشید رضوی،مفتی مختارالدیشن شاہ، پروفیسر رفیق اختر، سرفرار اے شاہ،ڈاکٹرذاکر نائک جیسے کبار اہل علم   کے رشحات قلم سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں۔

اور دیگر اہل ادب میں قدرت اللہ شہاب،احمد ندیم قاسمی،قرۃ العین  حیدر،کرشن چندر،منشی پریم چند،دیوان سنگھ مفتون،واصف علی واصف، ممتازمفتی،صدیق سالک،سعادت حسین منٹو،قدسیہ بانو،اشفاق احمد، ڈپٹی نذیر احمد،نسیم حجازی،چودھدری افضل حق،اسلم راہی، اشتیاق احمد،خامہ بگوش،مختار مسعود،عمیرہ احمد وغیرہ کو پڑھا ہے۔

کیرئیر کونسلنگ اور گائیڈینس میں چند ایک مصنفین مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جن میں اسٹیفن آر کوئے، بشیر جمعہ،ڈینل گارینگی، قاسم علی شاہ، عارف انیس، احمد فرہاد وغیرہ کو پڑھتا ہوں، اور بہت سارے موٹیویشنل اسپیکرز کو سنتا ہوں۔موٹیویشنل اسپیکرز میں مولانا طارق جمیل ، قاسم علی شاہ اور حماد صافی  کو بڑے غور سے سنا ہے۔

اور بہت سارے اہل علم و اد ب ہیں جن میں کئی ایک عربی مصنفین ہیں۔ان سب کا ذکر بہت مشکل ہوجائے گا۔رئیس الحمدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان ؒ کی کشف الباری سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ بخاری شریف کی اس سے محقق ، مفصل اور مستند شرح اب تک اردو زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔

میری بدقسمتی دیکھیں۔ اب تک اشرف علی تھانویؒ جیسے جلیل القدر مصنف کو جس طرح پڑھنا چاہیے نہیں پڑھ سکا۔

شاعری خوب سنتا ہوں مگر شاعری کے رموز و اقاف سے واقفیت نہیں۔ غلام رسول مہر کی مرتب کردہ کتاب ”مطالب اقبال” کئی بار پڑھی ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں وہ کونسے اصول ہیں جنہیں ہر شخص کو اپنی زندگی  کا نصب العین بنانا چاہیے؟

جواب:          بہر صورت شعبہ ہائے زندگی کے تمام شعبوں کے احباب کے لیے الگ الگ اصول ہوسکتے ہیں۔ ان کے پیشوں اور ذوق و صلاحیت کے اعتبار سے الگ اصول ہوسکتے ہیں۔ تاہم شعبہ ہائے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے یہ چند باتوں کو زندگی کا لازمہ بنانا چاہیے۔اپنے کام کا آئیڈیا اور وژن،کام سے محبت بلکہ عشق،احساس ذمہ داری،مثبت  سوچ کے ساتھ مثبت اپروچ، شاندار پلاننگ ، وقت کا برمحل اور درست استعمال، رفقائے کار پر اعتماد،متعلقہ فیلڈ کے لوگوں کے ساتھ شاندار تعلقات، مایوسی و قنوطیت سے دوری کے ساتھ جہدمسلسل  کو یقینی بنانا اور اللہ رب العزت پر بھروسہ اور دعا کرنا انتہائی اہم ہے۔ان سب باتوں کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے۔ان چند باتوں کو کوئی بھی شخص اپنی زندگی  کا نصب العین بناکر ، ایک فریم میں لکھ کر اپنے بیڈ روم کی دیوار پر آویزاں کردے تو زندگی میں شاندار کامیابی مل سکتی ہے۔

سوال: آپ کی شخصیت میں کس ہستی کا کردار سب سے زیادہ ہے؟

جواب:          میری ماں جی کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ماں کی دعاؤں اور محبتوں کی بدولت زندگی نے بہت سکھ دیے۔باقی اساتذہ کرام سے بہت سیکھا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ زندگی نے بھی بہت کچھ سکھایا ہے۔ زمانہ اور زندگی سے بڑا کردار، ہستی اور استاد کوئی نہیں۔زمانے کو ڈیل کرنے سے ہی شخصیت  بنتی ہے۔وہ بھی درجنوں غلطیاں سرزد ہونے کے بعدانسان راستی پر آجاتا ہے۔

سوال: وہ کونسے اسباب ہیں جنہوں نے آپ کو لکھاری بننے کی ترغیب دی؟

جواب:          اسباب بہت سارے ہیں۔مطالعہ کے شوق نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔مسلسل پندرہ سال تک تمام جید کالم نگاروں کو پڑھنا اور ان سے انسپائریشن لینا ایک ایسا سبب ہے جس کی وجہ سے مجھے بھی لکھنے کا شوق چڑھا۔ اب تو لکھنا جنون سا بن گیا ہے تاہم یہ گاڈ گفٹڈ بھی ہوتا ہے لیکن بہر صورت لکھنے کے لیے موت کے دن تک پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ میرے خوابوں میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ پاکستان کے دس بڑے کالم نگاروں میں ایک نام میرا بھی ہوا۔ شاید اس کے لیے ابھی ادھا سفر باقی ہے۔میں سمجھتا ہوں اچھا کالم نگار بننے کا ادھا سفر طے ہوچکا ہے۔ باقی آدھا سفر جاری ہے۔

سوال: نئے لکھنے والوں کو آپ کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟

جواب:      یہ کمال نہیں کہ آپ کو دنیا جہاں کی سہولیات میسر ہیں اور کسی قسم کی کوئی ذمہ داری بھی آپ پر نہیں، کتاب ہر حوالے سے آپ کی دسترس میں ہے اور آپ بے تحاشا مطالعہ کرتے ہیں۔
میرے نزدیک قابل ستائش وہ لوگ ہیں جن پر زمانے نے بہت سا بوجھ لاد دیا ہے۔ بہتوں کے کفیل ہیں۔ غم جاناں کا دکھڑا بھی ہے اور غم دوراں کی کہانی بھی۔ اس سب کے باوجود بھی کتاب کو وقت دیتے ہیں اور اپنی فکر کو جلا بخشتے ہیں۔علمی اور ادبی شہہ پاروں سے محظوظ ہوتے ہیں اور اہل علم و قلم سے مستفید ہوتے ہیں۔ رات گئے بھی کچھ نہ کچھ پڑھ کر ہی سوتے ہیں۔ درجنوں الجھنوں میں الجھنے کے باوجود بھی کتاب کو روگ جان بنالیتے ہیں، تکیے پر رکھ لیتے ہیں۔ طبیعت مضمحل ہو تو کتاب کی زیارت اور لمس بھی کرکے روح کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں ننانوے فیصد یہی لوگ ہیں جن کی آتما کی آگ سے ہی کتاب کی حیات ہے۔ ورنا تو سرمایہ دار اور صاحب علم لوگوں کی اولادیں کتاب سے بہت دور ہیں۔آج تو غریب آدمی PDF کتب سے بھی اپنا شوق پورا کرلیتا ہے۔ جن کے پاس کتاب خریدنے کی گنجائش ہے وہ کسی اور شغل میں غرق ہیں اور جن کی قوت خرید نہیں وہ پڑھنا چاہتے ہیں۔پڑھنے کےتمام ذرائع مسدود ہیں لیکن پھر بھی پڑھ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اپنی مطالعاتی زندگی کے حوالے سے ایک تحریر لکھی ہے۔یہ تحریر استاد محترم ابن الحسن عباسی ؒ کے مجلہ “النخیل” کراچی میں پبلش ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مطالعاتی زندگی کا احاطہ بہت سہل اور دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔اس مضمون کا اختتامیہ ہم جیسے نیو لکھاریوں کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ آپ سے شئیر کرنے جو جی کررہا ہے۔ نئے لکھنے والے ان مختصر مشوروں پر عمل کرسکتے ہیں۔ میں خود اس پر عمل پیرا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں:
“نئے لکھنے والوں اور نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے کہ آوارہ مطالعہ سے بچیں ۔ یہ رویّہ درست نہیں ہے کہ جو کتاب بھی ہاتھ لگ جائے ، اسے پڑھ جائیں ، بلکہ منتخب (Selected) مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔
دوسری بات یہ کہ صرف ہلکی پھلکی کتابوں ، قصے کہانیوں اور ناولوں کے مطالعے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ سنجیدہ علمی اور دینی کتابوں کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل رکھیں ۔ دونوں طرح کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور دونوں کی اپنی اپنی افادیت ہے ۔
تیسری بات یہ کہ عمومی مطالعہ کے ساتھ اختصاصی مطالعہ کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کریں ۔ اختصاصی مطالعہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک شخصیت کی تمام کتابیں پڑھ جائیں ، یا کسی ایک موضوع کی تمام اہم کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
چوتھی بات یہ کہ مطالعہ کے سلسلے میں صرف اپنے ذوق پر انحصار نہ کریں، بلکہ کسی صاحبِ علم شخصیت کی رہ نمائی میں مطالعہ کیا کریں اور وقتاً فوقتاً اس سے مشورہ کرتے رہا کریں ، بلکہ ایک سے زیادہ شخصیات سے رہ نمائی حاصل کرنا بہتر ہوگا ۔” ۔

سوال:  نئے لکھنے والے بالخصوص دینی علوم سے وابستہ قلم کاروں کو اختصاصی معالعہ کیسے کرنا چاہیے؟

جواب: بھائی یہ دور ہی اختصاصی مطالعہ کا ہے۔ آج تو انتہائی مختصر عنوانات پر بھی اسپیشلائزیشن کی جاتی ہے۔ دینی موضوعات پر بھی پاکستانی جامعات میں بڑا اختصاصی کام ہوا ہے۔اختصاصی مطالعہ ہر صاحب قلم اور لکھاری کے لیے ضروری ہے۔تاکہ دیگر موضوعات کے ساتھ  وہ اپنے مخصوص موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت رکھے۔میرے خیال میں دینی و مذہبی موضوعات پر لکھنے والے لکھاریوں کے  عصرحاضر کے اسلوب میں لکھنے والے کئی مفکرین کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے۔ان مفکرین اور اہل علم کا اختصاصی مطالعہ کیا جائے، تاکہ اسلام کی روشنی میں جدید دور میں درست رہنمائی کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکےمثال کے طور پر چند ایک اسلامی اسکالرز کا نام بھی لے سکتے ہیں۔
1.مولانا مناظر احسن گیلانی
2.ڈاکٹر حمیداللہ
3.مولانا ابوالحسن علی ندوی
4.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
5.ڈاکٹرمحمود احمد غازی

6۔ علامہ محمد اسد

7۔ ڈاکٹر اسرار احمد

8۔ علامہ وحیدالدین خان

9.مفتی تقی عثمانی
10.جاوید احمد غامدی
اس فہرست میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ان صاحبان کی جملہ کتب کو بالاستعیاب پڑھا جائے تو جدید تعلیم یافتہ احباب اور معاشرے کے تمام مسائل میں بہتر رہنمائی کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ ان اہل علم نے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔بہت سارے اور نام بھی ہیں لیکن ان سب کو بالاستیعاب پڑھنا اتنا آسان بھی نہیں۔ مذکورہ بالا حضرات نے اسلامی موضوعات پر انتہائی سلیس، شستہ، مددلل اور ادیبانہ اسلوب میں کتب تصنیف کی ہیں جو ہر اعتبار سے مفید اور دلچسپ ہیں۔ ان سب کا اسلوب نگارش دل لبھانے والا ہے۔اس لیے بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان کی کتب اسلامی ادب کی شاہکار ہیں۔اسی طرح ایک عام تعلیم یافتہ لکھاری اپنے ذوق و شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مخصوص موضوعاتی کتب اور مصنفین کو پڑھے گا تو اس  میں اختصاصی خصوصیات پیدا ہونگے۔ بہر صورت یہ دل گردے کا کام ہے۔

سوال: لکھنے لکھانے کے حوالے سے آپ اپنے آپ کو کیا نصیحت کریں گے؟

جواب: اپنے آپ کونصیحت کرنا اور اپنا محاسبہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔بہر صورت مجھے پڑھنا چاہیے لیکن میں نے بڑا وقت لکھنے میں ضائع کیا۔یہ مسلم اصول ہے کہ تھوڑا سا اچھا لکھنے کے لیے بہت سارا اچھا پڑھنا پڑتا ہے بلکہ بے تحاشا پڑھنا پڑتا ہے۔یہ میرے حق میں ہے کہ کئی سال خاموشی سے مطالعہ و تحقیق میں گزاروں، تاکہ جب بولوں، لکھوں اور کہوں تو مستند مانا جاوں۔جانتا ہوں کہ مجھے انتظامی الجھنوں سے خود کو آزاد کرانا چاہیے لیکن سردست یہ ناممکن سا لگتا ہے۔یہ بھی جانتا ہوں کہ غیرضروری نمبردار یوں سے خود کو الگ کرنا ہے مگر نہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری نمبردار یاں کرنی پڑتی ہیں۔
جب بہتوں کی ذمہ داری سر پر آن پڑے تو پھر پڑھنے لکھنے کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل ہوجاتا۔ لیکن وقت نکالنے کی کوشش کرتا۔
یہ سچ ہے کہ مجھے علاقائی، مسلکی اور لسانی حدود سے نکل کر اپنا وجود تسلیم کرانا ہوگا، جس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص مطالعہ اور غیر جانبدارانہ تحقیق۔ان دونوں کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول اور کچھ ذہنی و جسمانی آرام وسکون چاہیے جو سردست میسر نہیں۔ ذہن بھی مختلف امور میں بَٹا ہوا ہے اور جسم بھی۔
یہ بھی جانتا ہوں کہ خود کو تحقیق و مطالعہ کے لیے فارغ کربھی سکتا ہوں لیکن طبیعت ابھی اس کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مطالعہ و تفکر کے لیے علیحدہ گوشہ میں جاچھپنا کافی مشکل ہے سر دست۔
سچ یہ ہے کہ مخلص اور کہنہ مشق بزرگوں اور احباب نے ان چیزوں کی طرف توجہ بھی دلائی ہے مگر عمل کرنے میں کوتاہی برت رہا ہوں۔
تاہم خوش آئند بات ہے کہ
بطور غذا ہی سہی روز کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔ناغہ نہیں کرتا۔موبائل نے بھی پڑھنے اور ریسرچ کرنے میں بڑی معاونت کی ہے۔ روز کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر ہی دَم لیتا۔
ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ گھر میں چھوٹے بہن بھائی اور بھانجے بھانجیاں ہیں۔ ان کو بھی کچھ نہ کچھ پڑھانے کے لیے کتابیں دیکھتا رہتا۔بہت سارے پراجیکٹ پائپ لائن میں ہیں۔ تاہم سب سے اہم کام مطالعہ و تحقیق ہی ہیں۔

سوال: تخیل  اور فکر نظر روگ ہے یا عیش؟

جواب:      تخیل روگ بھی ہے مگر تخیل سے زیادہ عیش پرستی کچھ بھی نہیں۔ایک عرصے سےتخیل کی موج مستیوں میں جی رہا ہوں، سچ کہوں تو آج کل تخیل کے سہارے ہی راتیں کٹ رہی ہیں۔ یہ ایسا روگ ہے کہ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔وہ دن گئے جب رات رات کتاب پڑھا کرتا تھا۔
یہ بات بتانے میں حرج بھی نہیں کہ “بے بس” تخیل ہی میری زندگی کا عظیم سہارا ہے۔دل کا درمان ہے۔ دماغی الجھنوں کا اکلوتا مداوا ہے اور بدنی تکالیف کا تریاق۔

خدا کسی کو تخیل کے مرض میں مبتلا نہ کرے ورنا صبح تک آنکھیں موندتے ہوئے بیتنا پڑے۔
فریب تخیل کے کیسے کیسے مناظر انہی آنکھوں نے رات رات دیکھے ہیں اور جسم نے کروٹیں بدلی ہے اور دماغ نے مستقبل قریب اور بعید کے کیا کیا پلان بُنے ہیں اور دل نے کتنی آہیں بھری ہیں، میں ہی جانتا اور پھر مرغ نے صبح کی بانگ دی ہے۔
تصور کیجیے ! رات کا سناٹا ہو، کمرے کے جھروکوں سے چاند جھانک رہا ہو، ستاروں کی جھلملاہٹ ہو، ڈھلتی ہوئی چاندنی آپ کو دعوت تخیل دے رہی ہو۔ اور انسان کسی کے تخیل میں غرق ہے۔ اس سے بڑی عیش بھی کچھ ہوسکتی؟
کھبی دسمبر کی بھیگی ہوئی راتیں ہوں تو کھبی جولائی کی ڈھلتی صبحیں، اور انسان تخیل کی غم میں مبتلا ہے۔
واہ! اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موج ومستی اور عیش و عشرت کا کتنا سامان جمع ہوتا ہوگا۔اور دماغ کیا کیا گُل کھلاتا ہوگا۔
یہ ماننے میں بھی حرج نہیں کہ تخیل دل پر اگر آگیا، تو وہی دل کا درد ہے اور درمان بھی۔
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں یا صلاحیت میں، بہر صورت قہر انگیز ہی ہوتا۔ اور اگر اس حسن تک رسائی کا سہارا صرف تخیل ہو تو یہ قہر انگیزی دوبالا ہوتی۔
تخیل کے ترنم اور صدائیں جان لیوا ہیں۔
میری اور اس کی شناسائی تخیل کے ذریعے ہے۔ واحد تخیل ہے جس نے مجھے ماضی اور مستقبل کیساتھ جوڑا ہے۔ تخیل نے ماضی کی درماندیاں اور مستقبل کی خوش گمانیوں میں مبتلا کرکے رکھا ہے۔
سچ کہتا ہوں کہ تخیل نے بہت ساری گلیوں کی خاک چھنوائی ہے۔ناک کٹوائی ہے۔ دکھ دیے ہیں۔غم دیے ہیں اور درد بھی۔مگر پھر بھی مجھے تخیل بہت عزیز ہے۔ عزیز از جان!
تخیل سے بڑا رقیب کوئی نہیں
اور نہ تخیل سے بڑا رفیق کوئی ہے۔تخیل کی رقابت اور رفاقت نے الجھا رکھا ہے۔
تخیل کی دلآویزیاں اتنی جمیل ہیں کہ بس ان میں مستغرق ہوں۔ کاش کہ تخیل کو حقیقت کا روپ مل جاتا۔

سوال: ادبی و علمی دنیا میں  شریک حیات آپ کی معاون رہیں یا۔۔۔؟

جواب:  ایسا حادثہ اب تک نہ ہوسکا، میری موجودہ شریک حیات ادبی و علمی دنیا سے بہت دور ایک سادہ مزاج،اور ان پڑھ خاتون ہے۔زندگی  نے وفا کی تو ادبی و علمی دنیا میں معاون  ایک اور شریک حیات مل جائے گی۔

سوال: کوئی ایسی دعا جو من و عن قبول ہوئی ہو؟

جواب: جی بہت ساری دعائیں جیسے مانگی تھی قبول ہوئی ہیں۔ مثلا حرمین کی زیارت، پروفیسر بننا، والدین کی خدمت، ادارہ بنانے کی خواہش، اور ایک دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔ یعنی ٹوٹ کر چاہنے والی اور میرے دینی و تعلیمی کاموں میں بہترین معاون بننے والی ایک شریک حیات۔ ان شاء اللہ جلد اللہ یہ دعا بھی قبول کریں گے۔

سوال: لکھنے لکھانے کے علاوہ آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

جواب: لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے علاوہ بھی کئی ایک کام کرتا ہوں۔ کزن کے ساتھ مل کر کاروبار بھی کررہا ہوں ۔ دینی و ادبی اور درس نظامی کی کتب اور اسٹیشنری کا کام ہے۔ آن لائن ڈرائی فروٹ کی ترسیل کا سلسلہ بھی ہے۔کاروبار میں بڑی برکتیں ہیں۔ اہل علم کو پارٹ ٹائم ضرور کاروبار کرنا چاہیے۔محلے کی مسجد میں جمعہ پڑھاتا ہوں۔ جمعہ میں بطور تقریر درس قرآن دیتا ہوں۔ مختلف سیمنارز اور ورکشاپس میں لیکچر دیتا ہوں۔ بعض ادارے اچھی خاصی پیمنٹ بھی کرتے ہیں۔ ملک بھر میں سیمنارز اور ورکشاپس میں بڑے شوق سے شرکت کے لیے جاتا۔ ریڈیو پاکستان گلگت میں 2010 سے مسلسل دینی و سماجی  موضوعات اورکیریئرکونسلنگ پر لیکچر دیتا ہوں۔ اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ریڈیوپاکستان گلگت کا باقاعدہ گیسٹ اسپیکر ہوں۔سماجی ایکٹویٹیز بھی جاری رہتی ہیں۔لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا بڑا اچھا لگتا ہے۔کئی ایک فلاحی اداروں کیساتھ بھی علمی و قلمی کنٹری بیوشن کرلیتا ہوں۔اس سب کے ساتھ گھر والوں کو بھی وقت دیتا ہوں ۔ احباب اور تلامذہ کو بھی وقت دیتا ہوں۔احباب اور تلامذہ کے لیے الگ گروپس بنارکھے ہیں اور فیملی اور کاروباری احباب کے بھی گروپس ہیں۔

سوال: درس قرآن کے لیے کونسی تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں؟

جواب:        کچھ عربی اور کچھ اردو تفاسیر کا بالاستیعاب مطالعہ کرتا۔عربی تفاسیر میں علامہ نیسابوری کی الوسیط فی تفسیرالقرآن المجید،علامہ صابونی کی صفوۃ التفاسیر،صابونی کی ہی التفسیر الواضح المیسر اور عربی ترجمہ جو سعودی حکومت کی طرف سے تیار کردہ التفسیر المیسر کا بالاستیعاب مطالعہ کرتا۔

اردو تفاسیر میں مولانا ادریس کاندھلوی کی معارف القرآن، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن، مفتی تقی عثمانی کی آسان ترجمہ قرآن اور اپنے پیر و مرشد مفتی مختارالدین شاہ  کی تفسیر البرہان فی توضیح آیات الرحمان  کا لفظ لفظ پڑھتا ہوں۔ ہر جمعہ کے درس کے لیے ان  چار عربی اور چار اردو تفاسیر کا ہر حال میں مطالعہ کرتا ہوں۔

ان کے علاوہ ابن کثیر، ترجمان القرآن،گلدستہ تفاسیر، معارف القرآن شفیع عثمانی،خلاصۃ القرآن، انوارالبیان وغیرہ کو ضرورت پڑھنے پر دیکھتا ہوں۔علامہ اصلاحی کی  تدبرقرآن اور کچھ بڑی عربی تفاسیر نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ سے محروم ہوں۔ لفظی ترجمہ کے لیے علامہ جوناگڑھی اور مفتی تقی عثمانی کے ترجمہ بغور پڑھتا۔ان سب تفاسیر کے اخذ شدہ نکات کاقرآنی  بیاض پر نوٹس لیتا ہوں۔

سوال: وہ کونسے اہل علم ہیں جن سے استفادہ کرنا چاہیے اور کن سے نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:          میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بقراط سے لے کر مانٹیسکیو تک سب غیر مسلم اسکالرز اور سائنس دانوں سے استفادہ ضروری ہے۔آج عملا پوری مسلم دنیا غیر مسلم دانشوروں اور سائنس دانوں سے استفادہ کررہی ہے۔ان کی علمی تحقیقات ،افکار و نظریات اور ان کی کتب مسلم دنیا کی ہر یونیورسٹی و جامعہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔سوشل سائنسز اور پیورسائنسز کا اکثر لٹریچر ان کا ہی ہماری درسگاہوں میں داخل نصاب ہے۔اس کے بعد پھر ثواب کی نیت سے ان مفکرین اور دانشوروں اور سائنسدانوں کو گالی نہیں دی جاسکتی۔بلکہ ان کا شکریہ ادا کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔
رہی بات مسلم دنیا کے اسکالرز کا تو ان سے استفادہ کرنا عصر حاضر کے معاملات کو سمجھنے میں یقینا مدد ملتی ہے۔اگر کسی نے حدود سے تجاوز کیا ہے تو ان کو پڑھ کر ہی ان کا علمی محاکمہ کیا جاسکتا ہے۔رجما بالغیب کے ذریعے نہیں۔بڑے بڑے اسکالر ، فقہاء اور مجتہدین معاصر علماء سے نہ صرف استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کا خوشہ چیں ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔دور جانے کی ضرورت نہیں مفتی تقی عثمانی صاحب کو بطور تمثیل پیش کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اپنی علمی استعداد ،قوت استدلال اور دلیل و منطق سے یہ سمجھتا ہے کہ فلاں اسلامی اسکالر، عالم، مفتی یا مجتہد نے فلاں جگہ منصوص احکام سے روگردانی کی ہے یا علمائے امت کی اجماعی طریق سے جدا گانہ راہ اختیار کی ہے تو یقینا اس پوائنٹ میں اس سے شدید اختلاف کیا جائے اور علمی محاکمہ ومحاسبہ بھی۔مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عمر بھر دینیات میں غوطہ زنی کرکے علوم و معارف کا دریا بہانے والے اہل علم کو گمراہ قرار دیا جائے اور یک جنبش قلم ان کی ساری کاوشوں کو دریابرد کردیا جائے؟بہرحال ان کے معاملے میں خذ ما صفا و دع ماکدر کا اصول اپنانا ہوگا۔
ہاں اگر کسی کا عقیدہ وایمان اتنا کمزور ہے یا کسی کی علمی حالات اتنی پست ہے کہ وہ افلاطون و ارسطو، کانٹ، گارنر، مانٹیسکیو، احمد دیدات، علامہ رشید، سر سید احمد خان، قطب شہید، حسن البناء،مولانا مودودی ، عبیداللہ سندھی،جلال الدین افغانی،ابوالکلام آزاد ،علامہ اسد،وحیدالدین خان اور غامدی کو پڑھنے سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور فوری طور پر ان کا نام لیوا بنتا ہے اور اپنے مسلک و منہج سے ہٹ جاتا ہے ،تو پلیز وہ ضرور ان سے دور رہیں بلکہ ان کی کتب موجود ہوں تو فورا ادھر ادھر کردیں۔خلاصہ کلام کہ اہل علم کی کسی بھی تصنیف و تالیف اور تحقیق سے فائدہ اٹھانا ہی اہل علم و طالب علم کا شیوہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply