آخری یہودی افغانستان سے کیسے نکلا؟

افغانستان میں یہودی برادری واحد فرد بھی آج 30 دیگر افراد کو لے افغانستان سے نکل گیا ہے۔ انخلا کرنے والوں میں 28 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

زیبیولون سیمنتوف کابل میں موجود واحد معبد میں رہتا تھا اور اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کا گزر بسر بیرون ملک سے عطیات پر ہو رہا تھا۔

اسرائیل نژاد امریکی تاجر اور مخیر شخص موتی کاہنا نے بتایا کہ سیمینتوف اور 30 دیگر افراد نے افغانستان کے پہاڑی علاقے پر وین کے ذریعے سفر کیا اور “پڑوسی ملک” میں داخل ہونے سے قبل طالبان کی متعدد چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑا۔

افغانستان کی یہودی برادری کے متعدد افراد 1948 میں اسرائیل کی تخلیق اور پھر 1979 میں سوویت حملے کے بعد ملک چھوڑ گئے تھے۔

حالیہ امریکی انخلا اور اس کے بعد طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان سے ہزاروں افراد نے انخلا کیا ہے۔

افغان دارالحکومت کی ایک معروف شخصیت سیمینتوف جو 60 کی دہائی کے اوائل میں ہیں، کئی دہائیوں سے تنازعات اور سیاسی خلفشار سے گزر رہی تھیں جن میں 1996 اور 2001 سے ملک پر طالبان کی سابقہ حکومت بھی شامل تھی۔

امریکا میں قائم ایک فرم جی ڈی سی کے سربراہ موردچائی کاہنا نے سی این این بتایا کہ خطرے کے باوجود سیمینتوف نے ابتدائی طور پر اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم اس کے پڑوسیوں نے اسے یقین دلایا کہ یہ محفوظ نہیں ہے اور اگر طالبان اس کے پاس نہ پہنچے تو اسلام پسند عسکریت پسند گروپ داعش خراسان (داعش کے) اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اس فرم نے شام کے علاقے حلب سے آخری یہودی خاندانوں کے فرار ہونے میں سہولت فراہم کی اور 2016 میں شام سے اسرائیل جانے والی بسوں کا اہتمام کیا تھا۔

اصل منصوبہ یہ تھا کہ کاہنا کی سیکورٹی ٹیم سیمینتوف اور 18 دیگر افراد کو لے جائے اور انہیں ملک سے باہر نکال دے۔ لیکن جب وہ پہنچے تو اس کے ساتھ 100 کے قریب دوسرے لوگ بھی تھے۔

کاہنہ نے بتایا کہ آخر میں سیمینتوف کے علاوہ 30 افراد کو جانے کی اجازت دی گئی جن میں تقریبا تمام خواتین اور بچے شامل ہیں۔

کاہنہ نے کہا کہ افغانستان سے نکلنے کا راستہ “خوفناک اور خطرناک” تھا۔ یہ طویل سفر فرش پر سونے اور طالبان کی چیک پوسٹوں سے گزرنے پر مشتمل تھا۔

کاہنہ نے بتایا کہ پہلی سرحدی گزرگاہ پر انہیں بتایا گیا کہ وہ 31 افراد کے گروپ کے طور پر داخل نہیں ہو سکتے، ایک وقت میں صرف تین افراد پار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیمینتوف نے گروپ کو الگ کرنے سے انکار کردیا اور اس لئے انہیں اگلے سرحدی کراسنگ تک 14 گھنٹے گاڑی چلانی پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

گروپ کے ساتھ بدھ کی شام محفوظ مقام پر پہنچنے سے ایک دن پہلے24 گھنٹے کے لئے ہو گیا تھا۔ کاہنا نے بتایا کہ یہ 24 گھنٹے ان کیلئے انتہائی پریشان کن تھے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply