جنوبی ہندوستانی کھانے اور پاکستانی کھوتا۔۔عارف خٹک

ایک دفعہ ڈسکوری ٹی وی چینل پر ایک ڈاکیومنٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں جنوبی ہندوستان خصوصاً  کیرالہ اور تامل ناڈو کے کھانے دکھا ئے جارہے تھے۔ کیرالہ کی ایک شادی کی تقریب تھی، دسترخوان پر زیادہ تر کیلے کے پتوں پر چاول پروس کر دیئے جارہے تھے اور گاؤں کے لوگ ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھا رہے تھے۔ من میں ایک خواہش تھی کہ میں بھی کسی جنوبی ہندوستان کے ریستوران جاکر ان کھانوں کا لطف اٹھا سکوں۔

آج دوپہر دبئی کے علاقہ ابوھیل میں واقع ایک ساؤتھ انڈین ریستوران جانے کا اتفاق ہوا۔ جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوا تو ہر سو مرد وخواتین کی چہکار تھی۔ چھٹی کا دن تھا لہذا زیادہ تر لوگ اپنی فیملیز کیساتھ آئے ہوئے تھے۔ ویٹرز لنگیاں پہنے ادھر اُدھر، گرتے پڑتے، آڈر سرو کررہے تھے۔ ہر طرف سے “انا انا” کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ خواتین دیکھنے لائق تھیں۔ ماتھے پر بندیا، روایتی ہندوستانی ساڑھیاں یا گھٹنوں سے اوپر فراک پہنے ہوئے، سرمہ بھری خوبصورت آنکھوں سے مسکرا کر  خوشی کا اظہار کررہی تھیں۔ مردوں کو دیکھ کر بھائی رجنی کانت کی یاد آئی۔ ایک بات ماننے والی ہے کہ آنکھیں ان کی بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ خواہ وہ ساؤتھ انڈین مرد ہوں یا عورتیں۔ مردوں نے بھی ماتھے پر سرخ ٹیکہ لگایا ہوا تھا جو کہ ان کی سانولی رنگت کیساتھ جچ رہا تھا۔ سانولے سلونے لوگوں کے بیچ میں،میں کچھ الگ سا دکھائی دے رہا تھا۔ جس کا نوٹس وہاں بیٹھے سب لوگ اس طرح لے رہے تھے کہ بار بار گردن گھما کر مجھے دیکھ رہے تھے۔جیسے لالو کھیت کی “بسم اللہ بریانی” میں کوئی یہودی حسینہ منی اسکرٹ پہن کر آن وارد ہو۔

ویٹرز نے گاہگوں کی میز پر کیلے کے پتے بچھائے، چھوٹے چھوٹے گلاسوں میں پنیر ملے دودھ کی لسی ٹائپ  مشروب سب کے سامنے رکھ دیا اور سب نے اس مشروب کو نوش کرنا شروع کردیا۔میز کے ارد گرد خواتین و حضرات نے پانی سے ہاتھ گیلے کرکے کیلے کے پتوں پر پھیرنے شروع کردیئے۔ ایک اور ویٹر جس کے ہاتھ میں پانچ چھوٹی چھوٹی بالٹیاں تھیں،ان چھلکوں پر مختلف سبزیاں جس میں چنا، پالک پنیر، فرائی گوبھی، پتلی دال، ناریل کی مختلف چٹنیاں اور گرما گرم پھلکے پروس دیئے۔ سب مزے سے کھانے لگے۔ ویٹرز ان کے سروں پر کھڑا تھا جیسے ہی کسی کی سبزی یا چٹنی ختم ہوجاتی فوراً  سے دوبارہ ڈال دی جاتی۔ پھلکے کھانے کے بعد ایک اور ویٹر بھاگ کر آیا اور اپنی بالٹی سے چمچ بھر بھر کر ابلے ہوئے چاول انہی کیلے کے پتوں پر ڈال کر دینے لگا۔

کسی نے بھی کھانے کیلئے چمچ یا کانٹے کی فرمائش نہیں کی۔ بلکہ مرد و خواتین دونوں اپنی انگلیوں کی مدد سے سبزیاں، دالیں اور چٹنیاں چاولوں کیساتھ مکس کرکے اپنی انگلیوں سے ایک خاص مہارت کیساتھ گولہ بناکر منہ میں ڈالنے لگے۔ چاول کا نوالا یا گولہ ٹینس کی بال جتنے سائز کا ہوتا اور تیزی کیساتھ منہ میں ڈال کر اپنی لتھڑی ہوئی انگلیاں منہ میں ڈال کر زبان سے چاٹ کر صاف کردی جاتیں۔

ان کو دیکھ کر مجھے بالکل بھی گھن نہیں آئی کیونکہ ہماری دادی مرحومہ نے بچپن میں مار مار کر ہمیں ایسے ہی کھانا کھانا سکھایا تھا کہ انگلیاں چاٹنا سنت ہے۔

ایک دفعہ دوپہر کو شدت بھوک سے اماں سے پوچھا کیا بنایا ہے؟ تو اماں نے بڑے  مان اور چاؤ سے بتایا کہ آج میں نے اپنے  ہاتھوں سے اپنے شہزادے کیلئے “شلغم” پکائے ہیں۔ میں نے فوراً  سے پیشتر ایک چیخ ماری اور جواباً اماں نے گرم دیگچی سے ڈوئی نکال کر سینے پر ایک ضرب شدید لگائی۔ میری دوسری چیخ سے گویا آسمان لرز اٹھا۔حواس تھوڑے سے بحال ہوئے تو اماں کو شکایتی نظروں سے دیکھ کر کہا،
“اماں شیر ہوں گوشت کے بغیر کچھ کھانا حرام سمجھتا ہوں۔ گدھا تھوڑی ہوں کہ سبزیاں چرتا پھروں”۔
اماں نے وہی ڈوئی دوبارہ دیگچی میں گھماتے ہوئے جواب دیا
“گوشت کتے بھی کھاتے ہیں اور کتوں کی ایک خاصیت ہے کہ وہ شلغم نہیں کھا سکتے”۔

بڑے عرصے بعد اماں کے الفاظ یاد آگئے اور مسکراتے ہوئے ویٹر کو ایک مصالحہ ڈوسہ کا آڈر دیا اور ساتھ میں پنجابی تھالی بھی منگوائی،جس میں دنیا جہان کی سبزیاں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں لہلہا رہی تھیں ۔ کیا کمال کا ذائقہ تھا۔ ہم جیسے گوشت خور جس کو بیالوجی کی زبان میں کارنی وور “Carnivores” یا بقول اماں کتا کہا جاتا ہے آج سبزی خوروں ” Herbovores” یعنی کھوتوں کے بیچ بیٹھا پہلی بار ہندوانہ سبزیوں سے لطف اندوز ہونے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اماں دیکھنا آج آپ کا کارنی وور “کتا” بھی ہربی وور “کھوتا” بن گیا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply