بھٹو کا دوست – گدھے والا فقیر۔۔۔سندھی سے ترجمہ سید فیصل رضا

لاڑکانہ کے پرانے لوگوں کو آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور ایک درویش صفت فقیر شخص جمعہ فقیر کی دوستی یاد ہوگی۔ یہ واحد شخص تھا جو بھٹو صاحب سے مذاق بھی کرتا تھا اور طنزیہ جملے بھی کس دیتا تھا ۔

جمعہ فقیر ذات کا سومرو اور تعلقہ قمبر کے ایک گاؤں کور سلیمان کا تھا، مگر قمبر چھوڑ کر لاڑکانہ میں رہنے لگا تھا ۔ اکثر لاڑکانہ کی گلیوں اور رستوں پر اپنے گدھے کے ساتھ  نظر آتا تھا۔ جمعہ فقیر کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ گوشت مارکیٹ جاتا اور وہاں کے تمام ذبح کئے گئے جانوروں کی باقیات اپنے گدھے کے گودھڑوں میں ڈالتا اور پھر لاڑکانہ کے آوارہ کتوں کو وہ یہ چھیچھڑے اور باقیات کھلاتا اس طرح وہ کتے بھی جمعہ فقیر کے گرویدہ ہوگئے تھے ، فقیر جہاں جاتا اس کے پیچھے پیچھے چلتے تھے ۔

ذوالفقار قادری لکھتے ہیں کہ ایک بار میں نے اسے ایک چائے کا کپ دیا تو کہنے لگا ۔ ’’کس خوشی میں چائے پلا رہے ہو؟‘‘ تو قادری صاحب نے کہا کہ ’’ فقیر! امام کی سبیل ہے ‘‘ تو جمعہ فقیر نے کہا ’’ اماموں سے کیسا حساب ، لا دے ‘‘۔ اپنی دھن میں مگن فقیر کی باتیں صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوتی تھیں ایسی گفتار عام آدمی سے ممکن نہیں ہوتی۔

ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی دوستی کا تعلق اس وقت قائم ہوا جب بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے ۔ جمعہ فقیر خود چل کے المرتضیٰ نہیں گیا تھا بلکہ بھٹو خود چل کر اس فقیر کو دوست بنانے کےلئے اس کے پاس گیا تھا۔

قصہ کچھ  یوں تھا کہ کسی نے بھٹو صاحب سے کہا کہ لاڑکانہ شہر میں ایک فقیر ایسا ہے جس کی باتوں میں کمال کی دانائی چھپی ہے تو بھٹو صاحب کو بہت تجسس ہوا اور انہوں نے فقیر کو اپنے گھر لانے کیلئے اپنے کارندوں کو بھیجا۔ جب کارندوں نے اسے کہا کہ بھٹو صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں کوئی بھٹو کا نوکر ہوں جاؤ میں نہیں جاتا ان کے پاس ۔ بھٹو صاحب کو جب نوکروں نے بتایا کہ وہ ایسا کہہ رہا ہے تو بھٹو صاحب اسی وقت گاڑی میں بیٹھ  کر جمعہ فقیر سے ملنے نکل کھڑے ہوئے۔

جمعہ فقیر بھٹو کو کینیڈی مارکیٹ میں ایک پیپل کے درخت کے نیچے اپنے گدھے کو گھاس کھلانے میں مشغول ملا ۔ بھٹو صاحب گاڑی سے نیچے اترے اور فقیر کے پاس پہنچے۔ فقیر نے دیکھتے ہی کہا ’’ بھٹو کیسے بھول پڑے ہو ؟ ‘‘تو بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ’’ فقیر ،حاضری کیلئے آیا ہوں‘‘ فقیر نے جواب دیا کہ میں کوئی استاد ہوں جو حاضری بھرنے میرے پاس آئے ہو ؟ بھٹو صاحب نے کہا۔ چلیں یار دوستی کر لیتے ہیں۔ جمعہ فقیر نے کہا۔ دوستی رکھنا آسان ہے نبھانا بہت مشکل ہے۔ اس  پر بھٹو صاحب نے کہا تم دوستی رکھ  کر تو دیکھو ۔ باقی تم مرضی کے مالک ہو ۔ اپنے گدھے کے ساتھ  بیٹھے جمعہ فقیر نے کہا کہ میرے در پر چل کے آئے ہو، یوں خالی ہاتھ  لوٹانا مناسب نہیں اور اس طرح گلیوں میں گھومنے والے اس فقیر کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی ہوگئی ۔

جمعہ فقیر سے بھٹو کبھی کبھار وقت نکال کر ملنے آتا رہا اور یوں دونوں کی دوستی پروان چڑھنے لگی ۔ جب بھٹو صاحب پاکستان کے وزیراعظم بنے تو المرتضیٰ کو وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا گیا ۔ وزیراعظم بننے کے بعد بھٹو فقیر سے ملنے آیا اور فقیر سے کہا میرے حق میں دعا کرو ۔ فقیر نے کہا ’’لگتا ہے وزیراعظم بن کر خوش ( مطمٔن ) نہیں ہو ۔ چلو پھر یہ کرتے ہیں تم میرے گدھے پر بیٹھ  کر جمعہ بنو، میں بھٹو بنتا ہوں.‘‘بھٹو نے کہا ’’مجھے منظور ہے مجھے اپنا گدھا دو ‘‘ کئی وزیر مشیر بھی ساتھ  تھے جو یہ ساری گفتگو سن رہے تھے.
اچانک فقیر نے کہا ’’ بھٹو ! میں تجھے اپنا گدھا نہیں دوں گا میرے پاس بس یہ ایک ہی گدھا ہے تمہارے پاس پہلے سے ہی بہت گدھے موجود ہیں ‘‘. پہلے انہیں تو سنبھال لو یہ سنتے ہی بھٹو صاحب کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور ہنستے ہنستے دوہرے ہوگئے اس وقت وہاں موجود سارے افسران کے چہرے دیکھنے کے قابل تھے۔

بھٹو صاحب وزیراعظم بننے کے بعد جب بھی لاڑکانہ آتے وقت نکال فقیر سے ملنے ضرور آتے ۔جمعہ فقیر کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ بس بھٹو صاحب پتہ کرتے کہ فقیر کہاں ملے گا وہاں پہنچتے اور گھڑی بھر ملتے ضرور تھے ۔ جمعہ فقیر کا آخری ٹھکانہ قبرستان میں بنی ایک جھونپڑی تھی بھٹو نے فقیر سے کہا تمہیں گھر بنوا کر دیتا ہوں فقیر بہت جلال میں آگیا اور کہنے لگا آج بول دیا ہے آئندہ بولا تو تمہاری میری یاری ختم ۔

ایک بار بھٹو صاحب موہن جو دڑو کے ائرپورٹ پر اترتے ہی بولے کہ جمعہ فقیر سے ملنا ہے پروٹوکول والے وہ روٹ لیں جہاں جمعہ فقیر کے ملنے کے امکانات ہوں قافلہ چلا اور بلآخر جمعہ فقیر باقرانی روڈ پر اپنے گدھے کے ساتھ نظر آگیا ۔ بھٹو صاحب اس سے ملے اور کہا فقیر آج رات کا کھانا میرے ساتھہ کھاؤ فقیر بولا ایک شرط پر کھانا ہم دونوں اکیلے میں کھائیں گے بھٹو نے پوچھا وہ کیوں ؟ فقیر بولا یہ جو تمہارے آدمی ساتھہ ہوتے ہیں بڑے بھوکے ہیں سارا یہ کھا لیں گے اور ہم دونوں کے حصے میں ہڈیاں ہی آئیں گی۔ بھٹو نے یہ بات سنتے ہی قہقہہ لگایا اور بولے آپ کی شرط منظور ہے تو فقیر نے کہا ایک اور بھی شرط ہے ، سستے میں جان نہیں چھوٹے گی ، تم اور میں کھانا کھائیں ،لیکن میرے گدھے نے کیا قصور کیا ہے۔ کیا اس کا پیٹ نہیں ہے؟ بھٹو نے کہا منظور ہے فقیر منظور ہے ۔
دعوت سے ایک گھنٹہ پہلے بھٹو صاحب نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد احمد کھرل اور ایس پی محمد پنجل جونیجو کو احکامات دئیے کہ جمعہ فقیر کو المرتضیٰ لایا جائے ۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے ڈی ایس پی عنایت اللہ شاہانی سے کہا کہ جمعہ فقیر کو ڈھونڈو اور اسے پروٹوکول میں المرتضیٰ لیکر آؤ جب ڈی ایس پی جمعہ فقیر کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو فقیر نے اکیلے جانے سے انکار کردیا اور کہنے لگا ، ہم دونوں کی دعوت ہے ورنہ جاؤ میں نہیں چلتا افسران بہت پریشان ہوگئے اور یہ بات بھٹو تک پہنچ گئی جس پر بھٹو صاحب نے کہا جیسا جمعہ فقیر بولتا ہے ویسے ہی کیا جائے اور اس طرح جمعہ فقیر نے بھٹو صاحب کے ساتھہ اکیلے میں دعوت کھائی اور اپنے گدھے کو بھی خوب گھاس کھلائی

Advertisements
julia rana solicitors london

لاڑکانہ کے اس درویش فقیر نے آخر کار 1990 میں یہ جہاں چھوڑ دیا اور یوں ایک لازوال دوستی اپنے انجام کو پہنچی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply