رزق۔۔محمد وقاص رشید

بارات تیار تھی زرق برق لباس پہنے مرد و زن چمچماتی گاڑیوں میں بیٹھنے کو تیار تھے،رئیس کہنے لگااوہو میں کتوں کو کھانا دینا بھول گیا۔۔اس نے فریج سے انکا  امپورٹڈ کھانا اور پکا ہوا گوشت نکالااور چھت پر چلا گیا۔ مہمان بھی ساتھ ہو لیاوہ انہیں انکی صاف ستھری پلیٹوں میں علیحدہ علیحدہ کھانا ڈال کر دینے لگااور ساتھ ساتھ مہمان کو بتانے لگا کہ بڑے نسلی کتے ہیں علیحدہ علیحدہ پلیٹ میں نہ دو یا زمین پر پھینک کر چلے جاؤ تو نہیں کھائیں گےگاڑیوں کے ہارن کے ساتھ رئیس رئیس ہونے لگی تو وہ کتوں کو پچکارتے ہوئے مہمان کے ساتھ نیچے آ گیا۔۔

بارات چل پڑی ،جب لڑکی والوں کا گھر قریب آیا تو رئیس نے اپنی گاڑی کا سن روف کھولا اور کھڑے ہو کر دولہے کی چلتی گاڑی پر نوٹ پھینکنے شروع کر دیے۔ دس دس روپے کے نئے نوٹ گویا آسمان سے رزق کی طرح گر رہے تھےاس رزق کو چننے اور جھپٹنے کے لیے مصروف سڑک پر جس طرح اس قوم کے مستقبل کے معماروں نے اپنی بھوکی جانیں ننھی گندی مندی خالی ہتھیلیوں پر رکھیں ،وہ منظر مہمان کا کلیجہ چیر گیا۔۔

لیکن جس نظارے نے مہمان پر سکتہ طاری کر دیا وہ یہ تھا کہ ایک گاڑی سے ایک سونے میں لدی ہوئی عورت اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کہہ رہی تھی سٹو سٹو ماموں دی گڈی تے نوٹ تسی وی ایہہ لو پھڑو (پھینکو پھینکو ماموں کی گاڑی پر نوٹ تم لوگ بھی یہ لو پکڑو)تو کیا اگلی نسل بھی نہیں ؟؟

مہمان نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اے جہانوں کے رئیس تو خیر الرازقین صرف ان کتوں کا تو نہیں۔۔

دو دن بعد جب شادی کی تقریب ختم ہو چکی تھی ،رئیس چھت پر کتوں کو کھانا دے رہا تھا تو اسکا بیٹا اور بھانجا اسکے پاس آئے اور کہنے لگے آپ کتوں کا کھانا زمین پر کیوں نہیں پھینک دیتے۔۔ رئیس نے کہا کیوں کہ یہ ہائی بریڈ یعنی اعلیٰ  نسل کے کتے ہیں ،بچوں نے یک زبان ہو کر کہا تو کیا یہ کتے ان بچوں سے اچھی نسل کے ہیں، جو شادی پر ہمارا پھینکا ہوا رزق زمین سے چن اور جھپٹ رہے تھے۔اگر ان میں سے کسی کو حادثہ پیش آ جاتا تو کیا اللہ میاں ہمیں punishment نہ دیتے؟۔۔ہم اگر انکو یہ رزق ان کتوں کی طرح عزت سے دے دیتے تو وہ کتنے خوش ہوتے اور اللہ میاں ہم سے خوش ہوتے ۔ہم آئندہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رئیس نے جھینپتے ہوئے کہا آپ سے یہ کس نے کہا
مہمان انکل نے!بچوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply