بریڈلا ہال لاہور۔۔طلحہ شفیق

بریڈلا ہال داتا دربار کے عقب میں ریٹی گن روڈ پر واقع ہے۔
چارلس بریڈلا ماضی کے معروف لکھاری و مقرر تھے۔ ان کو آزاد خیال تنظیم کا بہترین مبلغ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اور خصوصاً برطانیہ میں لوگ آج بھی ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گو کہ چارلس بریڈلا ایک معروف شخصیت ہیں مگر پاکستان میں ان سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ نیز ہمارے ہاں قصہ گو مورخین نے ان کے حالات زندگی میں ایسی افسانہ سازی کی، کہ حقائق کہیں گم ہی ہو گئے۔ چارلس بریڈلا کے حوالے سے ہمارے بیشتر لکھاری ایک کہانی سناتے ہیں کہ بریڈلا کو ہندوستان میں ریل کی پٹری بچھانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ مگر اس نے برطانوی حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانا شروع کردیا۔ اس پر اسے ایک حکم کے ذریعے فوراً ہندوستان کی سر زمین چھوڑنے کا کہا گیا۔ مگر بریڈ لا صاحب ایک کشتی میں کھانے پینے کا سامان لے کر دریائے راوی میں چلے گئے۔ چونکہ حکومتی حکم نامے میں لفظ ‘زمین‘ استعمال ہوا تھا سو انہوں توجیہہ پیش کی کہ اس کا اطلاق دریا پر نہیں ہوتا۔ لیکن بعد ازاں بریڈلا صاحب کو زبردستی ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ واقعہ ناصرف غلط ہے بلکہ خلاف عقل بھی ہے۔ مگر اس قدر معروف ہے کہ ڈاکٹر اشتیاق احمد, ڈاکٹر شاہد صدیقی, اسد سلیم شیخ و مدثر بشیر جیسے صاحبانِ علم بھی مغالطے کا شکار ہو گے۔ راؤ جاوید اقبال صاحب نے تو بریڈلا ہال پر باقاعدہ ایک کتابچہ بھی تحریر کیا ہے۔ لیکن انہوں نے بھی بریڈلا کے ابتدائی حالات میں بغیر تحقیق کیے یہی قصہ درج کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر اس زبان زد عام کہانی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بریڈلا صاحب اس جگہ جہاں اب یہ ہال ہے لوگوں کو جمع کر کے تقاریر کیا کرتے تھے۔ بلکہ انہوں برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے یہاں ایک ہال کی تعمیر اپنی زندگی میں ہی شروع کردی تھی۔ مگر ان کو ہند سے جب نکال دیا گیا تو اس ہال کو انقلابیوں نے مکمل کروایا اور پھر بریڈلا سے مسنوب کردیا۔ بلکہ بعض تحریروں میں تو ہمارے ‘محققین’ نے بریڈلا کو اس حوالے سے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے کہ انہوں نے بریڈلا ہال کا کیا ہی عمدہ نقشہ بنایا ہے۔ جو کہ انقلابی سرگرمیوں کے لیے نہایت موزوں ہے, جہاں چھپنے کے لیے, حملہ کرنے کے لیے باقعدہ جگہیں بنائی گئی ہیں۔ گو کہ یہ ہال چھاونی کا کام بھی دیتا تھا۔ مگر ان صاحبان علم و دانش نے اس قدر غور و فکر پر جہاں وقت صرف کیا وہاں بریڈلا کی کسی سوانح عمری کو پڑھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ جو کہ تھوڑی سی محنت سے بآسانی مطالعہ کے لیے مل سکتی تھیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بریڈلا پر کچھ لکھا نہیں گیا۔ بلکہ جب راقم نے بریڈلا کے حوالے سے مواد تلاش کرنا شروع کیا تو بریڈلا کی درجن بھر داستان حیات ذرا سی جستجو سے مل گئیں۔ جن میں ان کی بیٹی کی تحریر کردہ کتاب بھی شامل ہے۔ نیز چارلس بریڈلا کی مختصر خود نوشت داستان حیات بھی روئے زمین پر موجود ہے۔ بریڈلا کے حوالے سے سب سے اہم ماخذ بھی یقیناً یہی ہے۔ لہذا چارلس بریڈلا کے حالات زندگی کے لیے راقم نے ان کے سوانحی خاکے کی ہی تلخیص کی ہے۔ بریڈلا ۲٦ ستمبر ١۸٣٣ء کو ہاکسٹن کے ایک چھوٹے سے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انتہائی کم تنخواہ پر ایک وکیل کے پاس ملازم تھے۔ جس کے باعث ان کی تعلیم غرباء کے دیگر بچوں کی طرح ناصرف کم تھی بلکہ جو حاصل کی اس کا معیار بھی کچھ خاص نہ تھا۔ ١۲ سال کی عمر میں والد کے دفتر میں ہی ملازم ہو گئے۔ بریڈلا اتوار کو چرچ میں بطور اسکول ٹیچر بھی کام کرتے تھے۔ مگر پھر چرچ کے عہدیداران سے بعض سوالات کے باعث انہیں چرچ سے نکال دیا گیا۔ اس زمانے میں منشوریت(چارٹسٹ) کی تحریک برطانیہ میں اپنے عروج پر تھی۔اب اتوار کو جو فراغت ہوتی اس میں, یہ منشوریت کی تحریک کے جلسوں میں شرکت کرتے۔ ابتداء میں ان کا رجحان راسخ العقیدہ (آرتھوڈاکس) مسیحیت کی جانب تھا۔ ١۸٤۹ء میں ان کے خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ چونکہ بریڈلا ایک فصیح مقرر تھے اس لیے انہوں نے ٹیمپرینس ہال میں تقاریر کرنا شروع کردیں۔ یہاں سینکڑوں لوگ انہیں سننے آیا کرتے تھے۔ بریڈلا نے اپنا پہلا رسالہ “مسیحی معتقدات پر چند حروف” کے نام سے ١۸٥۰ء میں تحریر کیا۔ بعدازاں عبرانی و چند دیگر زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ پھر کوئلے کا کاروبار شروع کیا مگر ناکامی ہوئی, ١٦ برس کی عمر میں انہیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جیب خالی تھی اور غربت انتہا کو تھی۔ ان کو جب ‘فری تھنکرز’ کی رکنیت کی پیشکش کی گئی تو ان کے نظریات میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ ١۸٥۰ء میں بریڈلا کو فوج میں نوکری مل گئی۔ فوج میں نوکری کے دوران بریڈلا اکثر رات کے وقت لوگوں کو جمع کر کے لیکچر دیا کرتے تھے۔ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد انہوں نے دن رات کام کرنا شروع کردیا اور باقی بچ جانے والے وقت میں لکھنے و تقاریر کا سلسلہ دوبارہ بحال کیا۔ ١۸٥٥ء میں ان کا حکومت سے پہلا سامنا ہوا جب انہیں ہائڈ پارک میں تقریر کرنے سے روک دیا گیا لیکن آخرکار مقدمہ کا فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔ آنے والے سالوں میں انہیں روکنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں۔ مگر بریڈلا نے نہ صرف اپنی تقاریر جاری رکھیں بلکہ کئی مذہبی و غیر مذہبی راہنماوں سے طویل مباحثوں کا بھی آغاز کیا۔ بریڈلا نے آئر لینڈ کے لوگوں کے انصاف کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا شروع کیا۔ نیز اس معاملہ پر ١۸٦٦ء میں ایک کتابچہ بھی شائع کروایا۔ انہیں بے شمار مرتبہ گرفتار کیا گیا اور ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔
چارلس بریڈلا کی زندگی کا ایک اور اہم واقعہ جس نے ان کی شہرت میں خاصا اضافہ کیا، بطور رکن اسمبلی حلف اٹھانا تھا۔ چارلس بریڈلا ١۸۸۰ء میں منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔ مگر انھوں نے انجیل پر حلف لینے سے انکار کردیا۔ بریڈلا کو متعین وقت کے اندر حلف نہ لینے کی بناء پر رکنیت سے محروم کردیا گیا۔ یونہی بریڈلا نے تقریباً پانچ مرتبہ الیکشن جیتا۔ ہر دفعہ انجیل پر حلف لینے سے انکار کرنے پر ایوان کا حصہ نہ بن پائے۔ لیکن آخر کار عوام کے دباؤ کے باعث قوانین میں ترمیم کی گئی اور بریڈلا ایوان کا حصہ بن گئے۔ اس سب کے دوران بریڈلا کو توہین مذہب کے الزام کے تحت گرفتار بھی کیا گیا۔ ویسے بھی چارلس بریڈلا کو عیسائیت و مذہب کا اہم ناقد مانا جاتا ہے بلکہ بعض نے تو چارلس بریڈلا کو ملحد بتایا ہے۔ البتہ اس سے بریڈلا کی بیٹی نے اختلاف کیا ہے۔ چارلس بریڈلا کا انتقال ١۸۸۹ء میں ہوا۔ مہاتما گاندھی نے آپ کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی وہ اس حوالے سے اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں”ہر ہندوستانی بریڈلا اور اس کی نام نہاد دہریت کو جانتا تھا۔۔۔اسی زمانے میں بریڈلا کا انتقال ہوا اور وہ ووکنگ کے قبرستان میں دفن کیا گیا میں اس کے جنازے میں شریک ہوا۔ اور مجھ پر کیا موقوف ہے, لندن میں جتنے ہندوستانی تھے سبھی شریک ہوئے۔”
بریڈلا کی ہندوستان و ہندوستانیوں میں شہرت کا اندازہ تو گاندھی جی کے بیان سے ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس مقبولیت کی وجہ آخر کیا تھی۔ راؤ صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ “مسٹر بریڈلا نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان میں جمہوری آئین کے نفاذ کے لیے ایک بل پیش کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے جمہوری ادارے کا انتخاب اہل ہند خود کریں۔” چارلس بریڈلا نے دسمبر ١۸۸۹ء میں بمبئی میں ہونے والے کانگریس کے پانچویں سالانہ اجلاس میں بھی خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔ بریڈلا کی صاحبزادی نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ بریڈلا کو ہندوستان سے کس قدر دلچسپی تھی اور انہوں ہند کے لوگوں کے حقوق کے لیے اس قدر جدوجہد کی کہ انہیں “ہند کا نمائندہ” کہا جانے لگا۔ ١۸۸۹ء میں جب بریڈلا ہند آئے تو یہ ان کا پہلا اور آخری دورہ تھا۔ کیونکہ اس کے بعد جلد ہی ان کی وفات ہوگئی۔ ہند میں بریڈلا کا شاندار استقبال ہوا بلکہ پٹا بی سیتا رامیا کے بقول یہ شاھانہ استقبال تھا۔ چارلس بریڈلا کی ہند کے لیے خدمات کے اعتراف میں ہی یہ ہال تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر کا احوال عون علی صاحب نے اپنے تحقیقی مضمون میں یوں بیان کیا ہے”اس ہال کی تعمیر ١۸۹٣ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے کانگریس کے تیسرے سالانہ اجلاس میں جمع کیے گئے چندے سے ہوئی۔ جسے پھر بریڈلا سے منسوب کردیا گیا۔ دراصل یہ کاوش سردار دیال سنگھ کے اس خیال کا نتیجہ تھی کہ لاہور میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے ایک مناسب جگہ ہونی چاہیے۔ اس وقت لاہور میں فقط دو ہال تھے, ٹاون ہال و منٹگمری ہال۔ دونوں ہی حکومت کی ملکیت تھے اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے دستیاب نہ تھے۔ اس کی وجہ سے مجالس کا اہتمام ٹریبون اخبار کے دفتر کے صحن میں کیا جاتا۔ ان حالات کے پیش نظر لاہور میں ایک باقاعدہ جگہ کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ١۸۸۸ء میں الہ آباد پنجاب کا دعوت نامہ قبول کرلیا گیا اور دسمبر ١۸۹٣ء میں کانگریس نے لاہور میں ملنے کا فیصلہ کیا۔ سردار دیال سنگھ کو اس اجلاس کی افتتاخی کمیٹی کا چئیرمین منتخب کیا گیا۔ یہ اجلاس بہت کامیاب رہا۔ تمام ٹکٹ فروخت ہوگے اور تمام تر خرچ کے باوجود ١۰ ہزار روپے کی بچت ہوئی۔ جس نے اس ہال کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔” بریڈلا ہال کے باہر موجود افتتاخی تختی کے مطابق اس ہال کا افتتاخ سریندر ناتھ بینرجی نے بطور صدر کانگریس ٣۰ اکتوبر ١۹۰۰ء میں کیا۔
بریڈلا ہال کا لاہور کی سیاسی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر احمد سعید صاحب نے اپنی کتاب “لاہور اک شہر بے مثال” میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ لالہ لاجپت رائے نے یہیں نیشنل کالج کی بنیاد رکھی۔ جس نے بھگت سنگھ, یش پال و سُکھ دیو جیسے انقلابیوں کو جنم دیا۔ ان کے علاوہ یہ ہال اور بھی کئی انقلابیوں کا مرکز تھا۔ جن میں پروفیسر جے چند ودیا لنکار, پرنسپل چھبیلداس, اچاریہ جگل کشور, بھگوتی چرن ودہرہ و رام کرشن اہم نام ہیں۔ چھبیلداس صاحب بریڈلا ہال میں قائم ہونے والے نیشنل کالج کے پرنسپل تھے۔ ان کے متعلق خفیہ اداروں کا کہنا تھا کہ چھبیلداس انقلاب کا سب سے خطرناک و چالاک پرچارک ہے۔ اس جدوجہد میں ان کی زوجہ سیتا دیوی نے بھی ان کا ہر قدم پر ساتھ دیا۔ بریڈلا ہال کے قریب ہی گورنمنٹ کالج لاہور کے معروف پروفیسر رچی رام ساہنی کی رہائش تھی۔ جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد اسی ہال میں احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ یہ ہال سٹوڈنٹس یونین کا بھی مرکز تھا۔ ١٩٢٤ء میں تحریک عدم تعاون و ترک موالات کے دوران بریڈلا ہال میں قائداعظم نے بھی اہلیان لاہور سے خطاب کیا۔ البتہ سجاول اشرف صاحب نے ناجانے کس ماخذ کی بنیاد پر اپنی کتاب “لاہور کی دنیا” میں دعویٰ کیا ہے کہ “مسٹر گاندھی و قائداعظم نے کئی بار بریڈلا ہال میں اکٹھے جلسہ کیا (اور) قائداعظم اور گاندھی کے درمیان تلخیاں بھی اسی ہال میں پیدا ہوئیں۔” خیر بریڈلا ہال لاہور میں کانگریس کی تمام سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ مسلمانوں کے علم خلافت کے مقابلے میں کانگریس کی جانب سے ١۹۲۹ء میں قومی جھنڈا لہرانے کی رسم ڈاکٹر محمد عالم نے بریڈلا ہال میں ہی ادا کی تھی۔١٩٣٠ء میں حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تیاریوں کا آغاز بھی اسی ہال سے ہوا۔ ١٩٣١ء میں یہاں بے روزگاروں کے لیے دفتر بھی قائم کیا گیا۔ اسی سال جب بھگت سنگھ و ان کے رفقاء کی نعشوں سے بدسلوکی کا مسئلہ سامنے آیا تو بریڈلا ہال میں ایک زبردست احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا۔ یہاں کئی سرکردہ رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ پران نوائل نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے کہ اس ہال میں اندر کمار گجرال, مظہر علی, راج کرشن, پرمود چاندرا وغیرہ خطاب کیا کرتے تھے۔ بریڈلا ہال میں نہرو, موہن راؤ, سبھاش چندر بوس و جے پرکاش جیسے صف اول کے رہنماؤں کی تقاریر کا بھی ذکر ملتا ہے۔
بریڈلا ہال سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا بھی گڑھ تھا۔ سید امتیاز علی تاج اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ کاؤس جی گھٹاؤ کی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی آف بمبئی جب لاہور آئی تو انہوں نے اپنی پیشکش کے لیے بریڈلا ہال المعروف کانگریس ہال کا انتخاب کیا۔ منیر احمد منیر صاحب کی کتاب “اب وہ لاہور کہاں” میں شیخ عبدالشکور صاحب کا ایک انٹرویو شامل ہے اس میں وہ بریڈلا ہال کے متعلق اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں “کسی زمانے میں بریڈلا ہال ہمارے شہر کا سب سے نامی ہال شمار ہوتا تھا۔ جنگ آذادی ہند کے متعلق تمام جلسے وہیں ہوا کرتے تھے۔ پھر کاؤس جی کی پارسی تھیٹریکل کمپنی اور حبیب سیٹھ کی کمپنی کو اس زمانے میں بہت فروغ حاصل تھا۔ یہ کمپنیاں بھی اپنا کھیل وہیں دکھایا کرتی تھیں۔ گوہر جان پہلی مرتبہ رائے رام سرن داس کے بلاوے پر لاہور آئی تھی۔ مگر جب اس نے زندہ دلان لاہور کی رنگین مزاجی اور راگ سے شگفتی کی کیفیت دیکھی تو وہ دوسرے سال ١۹١۲ء میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی خاطر لاہور آئی۔ چناچہ منتظمین نے اس کے مجروں کا انتظام بریڈلا ہال ہی میں کیا۔” حفیظ جالندھری صاحب نے اپنی ایک تحریر میں بریڈلا ہال میں منعقد ہونے والے اس عظیم الشان مشاعرے کا احوال بیان کیا ہے جو کہ بعدازاں اس ہال کی وجہ شہرت بن گیا۔ حفیظ صاحب لکھتے ہیں “علامہ اقبال کو پہلی مرتبہ میں نے ایک بہت بڑے مشاعرے میں دیکھا ۔جہاں میں خود بھی شعر پڑھنے کے لیے جالندھر سے بلایا گیا تھا۔ الحمد للہ میں اس روز کی عمومی ذلت سے شعر نہ پڑھنے کے سبب بچ گیا تھا۔۔۔۔(یہ) مشاعرہ اولین جنگ عالمگیر کے آخری دور میں پنجاب پبلسٹی کمیٹی کی طرف سے منعقد ہوا تھا۔ ڈیڑھ دو ہزار شاعر اور ساٹھ ستر ہزار سننے والے شمالی ہندوستان کے سب سے بڑے اور وسیع بریڈلا ہال لاہور میں جمع تھے۔ فضا کچھ ایسی تھی کہ جس شاعر نے بھی سٹیج پر آ کر لوگوں کے چشم و گوش پر حملہ آور ہونے کی جرأت کی لاہور کے کالجی جوانوں کی بپھری ہوئی موج نے شاعر کو پسپا ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ بعض شاعر لوگ بڑے دعوے سے ’’منم منم‘‘ کرتے ہوئے اٹھے۔ لیکن داد میں بڑی ندامت ملی بعض خود بیٹھ گئے اور بعض بٹھا دئیے گئے۔ سامنے فرشی بنچوں پر اور گیلریوں میں ٹھنسے ہوئے ہندو، مسلمان، سکھ کالجی نوجوانوں پر ڈنڈا برسا۔ لیکن شاعروں کی فوج کو شکست کے سوا اور کچھ نصیب نہ ہوا۔۔۔ تالیاں اور اجتماعی سیٹیاں تو ذرا چپ سادھ گئیں۔ لیکن ستر ہزار بھنچے ہوئے دانتوں اور نیم وا ہونٹوں سے ایسی شہوں شوں کی صدائے بانوا سے اس وسیع ہال کی فضا ایسی بھر گئی جیسے آبشار گر رہے ہوں یا بہشتیوں نے بیک وقت پانی کی بھری ہوئی لاکھوں مشکوں کے منہ کھول دیے ہوں۔ جس شاعر نے بھی سر اٹھانے کی جسارت کی اس پر ہزاروں گھڑوں پانی پڑنے لگا۔ سر مائیکل اوڈوائر صوبہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر صدارت فرما رہے تھے۔ مشاعرے کی یہ مضحکہ خیز حالت تھی کہ ڈاکٹر اقبال کے نام کا اعلان کیا گیا۔ لیجئے ڈاکٹر اقبال اپنا کلام سنائیں گے! میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ تمام زبانیں، تمام شور و شر، تمام تالیاں، تمام سیٹیاں یکایک چپ سادھ گئیں۔ وہ جو فرش پر جوتوں کی پھٹ پھٹ تھی۔ وہ جو بنچوں پر پنسلوں کی کھٹ کھٹ کھٹاک تھی، سب دم بخود پانی کی سب مشکوں کے منہ بند۔۔۔ اس نے فارسی زبان میں ایک نظم ترنم کے ساتھ سنائی۔ یہ تھا اس کا حوصلہ اور اعتماد ذات اس وقت جب سترہ ہزار میں زیادہ سامعین سکھ پنجابی کے رسیا, ہندو ہندی کے طالب, اردو تک کے دشمن وہاں فارسی کی نظم! یہ نظم سب نے سنی, فارسی نہ جاننے والے بے شمار تھے۔ جاننے والے چند سینکڑوں سے زیادہ نہ ہوں گے۔ لیکن اقبال جب وہ نظم سنا کر بیٹھا تو تحسین کی تالیوں سے ہال ہی نہیں زمین و آسماں مسحور ہو گئے۔ آج مجھے یہ معلوم ہوا کہ ہم سب جو ہجوم اندر ہجوم شاعر ہیں ان میں اصل شاعر کون ہے!۔۔ میں سمجھ گیا کہ اقبال کیا ہے کیوں سب سے بلند ہے۔”
تقسیم ہند بریڈلا ہال کے لیے کچھ بھلی ثابت نہ ہوئی اور انقلابی سرگرمیوں کا یہ مرکز پہلے کچھ لوگوں کی پناہ گاہ بنا اور بعد ازاں یہاں لوہے کا گودام بن گیا۔ کچھ عرصہ بعد یہ جگہ محکمہ خوراک کو مل گئی۔ محکمہ خوراک یہاں سے گیا تو یہ وسیع ہال “ملی تکنیکی ادارہ” کو سپرد ہوا۔ ملی تکنیکی ادارے نے یہاں سے نوے کی دہائی میں کوچ کیا اور اس جگہ کو کرائے پر دے دیا۔ یہاں گورنمنٹ اسکول بھی رہا۔ اس دوران قبضہ مافیا نے اس ہال کی بہت سی جگہ پر قبضہ بھی کرلیا۔ اس کی حالت زار کے حوالے سے عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ “بریڈلا ہال کی عمارت تو بلاشبہ آج بھی موجود ہےاور نام بھی اس کا وہی ہے۔ لیکن وہ سیاسی جلسے اور جلوس، وہ انقلابی محفلیں اور جوش و خروش کے ہنگامے جو اس عمارت سے وابستہ ہیں ماضی میں دفن ہو چکے ہیں اور صرف ان کی یاد گنتی کے چند لوگوں کے ذہن میں باقی رہ گئی ہے۔” آجکل بھی یہ ہال بند ہی رہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہاں بھگت سنگھ کے حوالے سے کتاب کی تقریب رونمائی اور “لاہور بینالے” کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ مگر مجموعی طور پر یہ ہال اب بد حال ہو چکا ہے۔ بقول شاہد صدیقی صاحب “دروازوں پر زنگ آلود قفل ہیں, دیواروں کا رنگ و روغن ختم ہو گیا ہے۔ فرشوں کا پلستر اکھڑ گیا ہے۔ نصف صدی تک برطانوی استعمار کے خلاف سینہ سپر رہنے والی عمارت کسمپرسی کے عالم میں ہے۔” ۲۰۰٧ء میں نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر چمن لال صاحب نے بھارتی وزیراعظم سے گزارش کی تھی کہ بریڈلا ہال لاہور کی مرمت کے لیے حکومت ہند پاکستان سے تعاون کرے۔ مگر کچھ نہ ہوا بلکہ چندھی گڑھ میں بھی لاہور کی طرز پر بریڈلا سے منسوب ایک ہال بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ نصف صدی گزر گئی وہ عمارت بھی اب تک نہ بن سکی۔ حکومت سے کیا گزارش کی جائے کہ وہ اس ہال کو مرمت کرے۔ یہاں کوئی کتب خانہ یا تعلیمی ادارہ یا میوزیم بنائے کیونکہ عوام کو کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ہماری عوام اس قدر مصروف ہے کہ وہ ایسی جگہوں پہ جا کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ جب میں بریڈلا ہال پہنچا تو اس وسیع و عریض عمارت کو یوں تباہ حال دیکھ کر دُکھ تو ہوا مگر شدید شرمندگی بھی ہوئی۔ حکومت کو کیا رونا ہماری ذمہ دار قوم نے اس ہال کو کچرہ گھر بنا رکھا ہے۔ ایک جانب تو کُوڑے کا ڈھیر ہال کے دروازے کے برابر ہے۔ خیر پھر بھی احباب سے گزارش ہے کہ کبھی آپ کو فرصت مل جائے تو ایمپوریم میں سیر کی بجائے بچوں کو بریڈلا ہال بھی دکھا لائیں۔ ان کو اس کی تاریخ بھی بتائیں, مولانا محمد علی جوہر, مولانا شوکت علی و مولانا ظفر علی خان کے ساتھ ساتھ بھگت سنگھ اور لالہ رجپت رائے سے بھی واقف کروائیں۔ حکومت سے بھی التجاء ہے کہ وہ اس ہال کو اس قابل بنائیں کہ یہاں کوئی آ کر چند لمحہ گزار سکے۔ انوشے رحمان صاحبہ بریڈلا ہال کی تعمیری خصوصیات پر مقالہ بھی لکھ چکی ہیں۔ نیز شان مصطفی صاحب نے اس ہال کو استعمال کرنے کے حوالے سے باقعدہ منصوبہ بنایا ہے۔ ان کے مقالے کا موضوع ہی یہ تھا کہ اس ہال کو کیسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کاش کہ حکومت ان کی تجاویز پر غور کرے اور ان کا مقالہ فقط لائبریری کی زینت نہ بنے بلکہ ان کے پیش کردہ منصوبے پر عمل کیا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply