شہر تمنا(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

اس دن آفتاب کا بہت بزی شیڈول تھا لہذا وہ صبح سویرے ہی ہسپتال کے لیے نکل گئے تھے، بچے بھی سکول جا چکے تھے، میرا ڈاکٹر سے وقت طے تھا سو میں جلدی جلدی گھر کا بکھروا سمیٹ رہی تھی۔ بکرے کا سالن ککر میں چڑھا دیا تھا تاکہ کلینک سے واپسی پر بھون لوں اور کھانا وقت پر تیار ہو جائے ۔ میں چولہا بند کر کے اپنا پرس اٹھا ہی رہی تھی کہ میرے نظریں ٹی وی اسکرین پر جم گئیں  اور لگا کہ قیامت آ گئی ہے۔ جو کچھ اسکرین پر نظر آ رہا تھا اس نے میرے حواس کو معطل کر دیا تھا۔ ہوائی جہازوں کا ٹوین ٹاور(twin tower) سے ٹکرانا، فضا میں ٹوٹ کر اڑتے ہوئے شیشے ، ریت کے محل کی طرح زمین بوس ہوتی ہوئی فلک بوس عمارت اور آسمان تک اٹھتا سیاہ دھواں اور اس کے ساتھ ہی گرد و غبار کا طوفان۔ پہلا خیال آفتاب کا آیا، جلدی سے ان کو کال ملائی مگر کال میسج پر چلی گئی۔ اسکول فون کیا وہاں سے بھی جواب ندارد۔ میرے ہاتھوں اور پیروں میں سنسناہٹ تھی۔ میرے حواس میرا ساتھ چھوڑ رہے تھے، اب ہر طرف سے سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مجھے جب ہوش آیا تو فون بج رہا تھا ۔ پاکستان سے فون تھا۔ میں امی کی آواز سنتے ہی بےساختہ رو پڑی۔ مجھے اپنے بچوں کی اور آفتاب کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس لمحے زندگی معلق تھی، انتہائی غیر یقینی ۔ نہ آفتاب سے رابطہ ہو رہا تھا اور نہ ہی اسکول میں کوئی فون اٹھا رہا تھا۔ بےبسی سی بےبسی تھی۔ ایسی بےکسی جس میں صرف اللہ یاد آتا ہے اور صرف اسی زات واحد کا آسرا ہوتا ہے، سو میں نے بھی اسی کا در پکڑ لیا۔ کتنی نمازیں پڑھیں، کتنی آہ و زاریاں کیں  کچھ ہوش نہیں جب بچے شام کے سات بجے شکستہ حال گھر پہنچے تو دل نے قرار پکڑا۔ دونوں بچے بہت دہشت زدہ تھے، انہوں نے وہ کچھ دیکھ لیا تھا جس کو ان کا ذہن قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ دس بجے کے قریب آفتاب کا فون آیا اور میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے بہت مختصر بات کی۔ کہا کہ وہ کب گھر آ سکیں گے پتہ نہیں، ایمرجنسی ڈیکلیر ہو گئی  ہے۔ تاکید یہ تھی کہ گھر سے باہر کسی بھی حال میں نہیں نکلنا ہے۔ تین دن بعد آفتاب گھر آئے بری طرح ٹوٹے بکھرے ہوئے۔ نڈھال اور وحشت ذدہ۔ شاید ان کی چھٹی حس نے ان کو آنے والے وقتوں کی ستم گری کا ادراک کرا دیا تھا۔ پھر وقت بہت بدل گیا۔ مگر جتنا برا ہونے والا تھا میری سوچ کی رسائی بھی وہاں تک نہیں تھی۔ زندگی کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات کتنے ہی ناقابل برداشت کیوں نہ ہوں جینے کی امنگ قائم رہتی ہے۔

9/11 کے بعد بچے صرف دو ہی دن اسکول گئے۔ دنیا بدل چکی تھی اور مسلمانوں کے لئے تو انتہائی تنگ  ہو گئی  تھی۔ ماحول اور لوگوں کے روئیے میں واضح فرق تھا۔ ان حالات میں دونوں بچے اسکول جانے سے انکاری ہوگئے۔ شام میں کھیلنے کے لئے باہر گراؤنڈ میں بھی نہیں جاتے۔ باہر کی دنیا اب بہت غیر محفوظ تھی۔ میں سوچتی تھی ہم لوگ لیگل تھے تو اس قدر خوفزدہ تھے، جو غیر قانونی طور پر رہ رہے تھے ان کی دہشت اور بےپناہی کا کیا عالم ہو گا؟ پولیس غیر قانونی باشندوں کے لئے جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی، کتوں کی طرح ال لیگل باشندوں کی بو سونگتی پھر رہی تھی۔ ان غریبوں کے لئے زمین سخت اور آسمان دور تھا ۔ کہیں پناہ نہیں تھی وہ اپنے سائے سے بھی ہراساں تھے۔ بڑا کڑا وقت تھا۔ آفتاب بھی ہمہ وقت گمبھیر سوچوں میں ڈوبے رہتے۔

دو اکتوبر کو میرا الٹرا ساؤنڈ تھا۔ میں سب وے سے نیویارک ہسپتال روانہ ہوئی۔ باہر ایک بالکل اجنبی اور کٹھور دنیا تھی۔ لوگوں کی وہ روایتی خوش اخلاقی مفقود تھی۔ حد یہ کہ  ہسپتال کی استقبالیہ نرس نے بھی مجھے دیکھ کر تیوری چڑھا لی۔ میرا الٹرا ساؤنڈ ہوا، میرا بچہ بالکل صحت مند تھا، بیٹا تھا۔ میں خوشی خوشی رپورٹ لیکر گھر واپس جا رہی تھی کہ سنٹرل اسٹیشن کی سیڑھیوں پر کسی نے پیچھے سے زور سے میرا اسکارف کھینچا اور
Leave my country you bitch
کہتا ہوا مجھے دھکا دے دیا۔ میں ریلنگ کا سہارا لینے کے باوجود گرتی چلی گئی اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھی اور آفتاب میرا ہاتھ پکڑے بیٹھے تھے۔ میں ڈیڑھ دن بعد ہوش میں آئی تھی۔ میں تومرتے مرتے بچ گئی  پر اپنا بچہ کھو چکی تھی۔ بائیں پاؤں میں فریکچر اور تین عدد ٹوٹی پسلیوں کے ساتھ اس معصوم کا غم منانے کے لیے زندہ رہ گئی جو اس اندھی نفرت کے بھینٹ چڑھ گیا تھا ۔ میں   تو اس سفاک سے یکسر نا آشنا تھی جس نے میرے گلشن ِ حیات کا نوشگفتہ گل خزاں رسیدہ کر دیا تھا۔ میرا جسم زخمی اور دل پارہ پارہ تھا۔ میرے دونوں بچے شمس بھائی کے گھر تھے۔ اور مجھے کم از کم ایک مہینہ ہسپتال میں رہنا تھا انہیں نفرتوں اور تیوریوں کے درمیان۔ مجھ سے ہسپتال میں ملنے میرے ڈرے سہمے بچے اور ماسی دلجیت بھی آئیں۔ آفتاب تو لگتا تھا ہنسنا بولنا بھول گئے ہیں۔ اس مختصر عرصے میں ان کا آدھا سر سفید ہو گیا تھا۔

وہ مڈ نومبر تھا اور مجھے گھر آئے پانچواں دن جب یہ دلخراش خبر ملی کہ ماسی دلجیت کے داماد لکی کو مسلمان سمجھ کر بیس بال کے بیٹ سے مار مار کر ختم کر دیا گیا  ہے۔ وہ ہنستا کھیلتا گھبرو جوان جو ماہیے کی  بڑی  سریلے تان لگاتا تھا۔ اب ہمیشہ کے لئے خاموش کر  دیا گیا تھا۔
میں اپنی حالت کے پیش نظر افسوس کے لیے ان گھر بھی نہ جاسکی، بس ماسی سے فون پر بات ہوئی۔ مجھ میں تو اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ کلونت کور سے فون پر ہی تعزیت کر لیتی۔ میرے پاس تسلی کے الفاظ ہی نہیں تھے۔ جس کا دل اور دنیا دونوں اجڑ چکے ہوں اس کے لئے تسلی کے بول کوئی معنی نہیں رکھتے۔ دل جوئی کے بہترین  لفظ بھی اس کے غم کا مداوا نہیں کر سکتے ۔ اس کے رستے زخموں کا مرہم شاید گزرتے وقت کے پاس ہو تو ہو ورنہ دنیا کی کوئی دوا اس کے لئے شافی نہیں ہو سکتی۔ اس وقت ہر غیر امریکی ایک سراسیمگی اور دہشت کا شکار تھا۔ مسلمان تو بدترین حالات سے دوچار تھے۔
ہم لوگ گو مگو کی کیفیت میں تھے۔ اس وقت کا اہم ترین سوال تھا کہ کیا کیا جائے؟ کیسے اس صورت حال سے نمٹا جائے؟ شمس بھائی کا خیال تھا کہ بالکل لو کی( low key) رہ کر اس طوفان کے گزر جانے کا انتظار کیا جائے۔ پاکستان سے امی ابا کا اصرار تھا کہ واپس آ جاؤ۔ عجیب غیر یقینی صورتحال تھی۔ ہم لوگ تذبذب میں تھے کہ قدرت نے خود ہی فیصلہ کر دیا۔ آفتاب ہسپتال میں تھے اور روٹین کی مصروفیت تھی۔ وہ ایک مریض کے چیک اپ میں مشغول تھے کہ اس نے ان کے منہ پر یہ کہتے ہوئے تھوک دیا کہ
Go back to your country paky
بس سمجھیے کہ یہ واقعہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور آفتاب نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی  جلدی گھر بِکنا ممکن نہیں تھا۔ سب کچھ بند کر کے شمس بھائی کے حوالے کیا اور ٹوٹے دل اور مضروب جان کے ساتھ پاکستان آ گئے۔
دل میں خیال شہر تمنا تھا جس جگہ
واں اب ملال ایک سفر ِ رائیگاں کا ہے۔

پاکستان میں زندگی کی ازسرنو شروعات کرنی تھی۔ ایک ہفتے کے آرام کے بعد آفتاب نے سب سے پہلے ناظم آباد بلاک آئی میں گھر خریدا گو ابا کا اصرار یہی تھا کہ انہیں کے ساتھ رہا جائے مگر آفتاب نہ مانے۔ آفتاب اب پہلے والے آفتاب نہیں رہے تھے، مزاج میں ایک سرد مہری اور سختی آ گئی تھی۔ غصہ بھی زیادہ کرنے لگے تھے۔ پاکستان واپسی کا سب سے خوشگوار اثر بچوں پر پڑا تھا۔ وہ اپنوں میں بہل گئے۔ اسکول جانے سے ان کی روٹین لائف شروع ہو گئی تھی اور مجھے صحیح معنوں میں اب فرصت ملی تھی اپنا غم منانے کی۔ اپنے نقصان پر رونے کی۔ زندگی میں اتنی افراتفری رہی تھی کہ میں تو اپنے سے زبردستی جدا کر دئیے گئے بچے کا غم بھی نہیں منا سکی تھی۔ میرے دل کا ایک کونہ ہمیشہ کے لئے ویران ہو گیا تھا۔ اب میرے دل میں میرے پیاروں کے پیار کے ساتھ ساتھ ایک منی سی قبر بھی تھی۔

آفتاب کو اپنے وسیع تجربے کی بنا پر ہسپتال میں بہت اچھا پیکج ملا ۔ ہم لوگوں کی زندگی تقریباً نارمل ہو چکی تھی۔ وقت کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ حالات جیسے بھی ہو وہ مست گزرتا رہتا ہے۔
بہت سارا پانی پل کے نیچے سے بہہ گیا۔ بسمہ انجنیئر بن گئی  اور باسط نے میڈسن پڑھی۔ باسط نے آفتاب ہی کے ہسپتال میں کام شروع کر دیا ہے۔
اب اس کہانی کو تو رہنے ہی دیجیے کہ آفتاب کو اپنے ہسپتال کو بنانے اور اس کو اسٹبلیش کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ جائز کام کو کروانے کے لیے کس کس کی خوشامد کرنی پڑی۔ کہاں کہاں لوگوں کا منہ بھرنا پڑا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس لینڈ آف پیور ( land of pure) میں بدعنوانی اور لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے اس نے قدم قدم پر “کافر ملک امریکہ” کے شفاف اور مربوط نظام کی کمی بہت محسوس کروائی۔ کئی  دفعہ آفتاب ہمت ہارے، لیکن جس حد تک بھی ان حالات میں آفتاب سے ممکن تھا جائز طریقے سے کام کیا اور اپنا ہسپتال اسٹیبلش کر لیا مگر اب عمر اور حالات کی سختی سہتے سہتے تھک چلے ہیں۔ اس لئے اب باسط کا ہسپتال جوائن کرنا دل کو ڈھارس دے گیا۔ دعا یہی ہے کہ یہ نیا خون پاکستان کو نئی  حرارت دے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دونوں اب پہلے جیسے نہیں امریکا کے مختصر مگر رولر کوسٹر قیام نے ہمارا اندرون بہت بدل دیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بحیثیت انسان اب ہم دونوں نسبتاً بہتر درجے کے انسان ہیں۔
شاید غم کی خوبی و محبوبی یہی ہے کہ وہ دل کو گداز عطا کرتا ہے اور یہ غم کا نم ہی تو ہے جو دل کو “دل زندہ” بنا دیتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply