بوجھو تو جانیں ۔۔امر جلیل

کوئی کچھ بھی کر ڈالے ، میں کسی قیمت پر پاکستان کے اس علاقے کانام آپ کو کبھی نہیں بتاوں گا جس کے ہوش ربا قصے کہانیاں آپ آج کی کتھا میں پڑھیں گے۔ آپ میری کنپٹی پربندوق کی نالی رکھ دیں، پھر بھی پاکستان کے اس خطے کانام ظاہر ہونے نہیں دوں گا۔ ویسے بھی آپ کاکام ہے آم کھانا۔پیڑ گننا اور پیڑوں پر لگے ہوئے آم گننا آپ کا کام نہیں ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ خطہ پاکستان کے دور افتادہ حصے میں ہے جو موبائل فون کے سگنلز کی طرح قانون کی رسائی سے باہر ہے۔ اس خطے میں ہر وہ چیز موجود ہے جو آپ کے علاقے میں موجود ہے۔ موبائل فون کے سگنلز ہیں، بجلی ہے، گیس ہے، پانی ہے، روڈ راستے ہیں، پولیس ہے، رینجرز ہیں، تھانے ہیں، جیل ہے، چھوٹی بڑی عدالتیں ہیں۔ مگریہاں پر کچھ ایسا انوکھا، غیرمعمولی، بےلگام ڈھنگ مروج ہے جس سے مشابہت رکھنے والا ڈھنگ اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آزاد قبائل میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے اس حصہ میں روزانہ عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ کتنی؟ بتانا مشکل ہے۔ کسی کے پاس اعدادوشمار نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان کے اس حصے میں خیبرپختون خوا کے لوگوں کی طرح گورے چٹے لوگ رہتے ہوں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر گہرے گندمی رنگ کے ہوتے ہیں۔ قتل کی جانے والی عورتوں پرتہمت لگتی ہے کہ وہ کالی ہوتی ہیں۔ قتل ہونے والی عورتوں کو دیکھ کر آپ کو تعجب ہوگا۔ وہ رنگ کی کالی نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار مرد پر کالا ہونے کا الزام لگا کر اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ وہ بھی دیکھنے میں کالا نہیں ہوتا۔ سانولا ہوتا ہے۔ اس خطے کی ایک روایت کے مطابق مرد اور عورت کے درمیاں میل جول میں رکھوالوں کو جب جب عیب دکھائی دیتا ہے، تب معاشرے کی پاکدامنی کو بے داغ رکھنے کےلئے عورت اور مرد پر کالا کالی کی تہمت لگاکر دونوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب ایک مرد اور ایک عورت ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور شادی کرلیتےہیں تب اس خطے کے رکھوالے حرکت میں آجاتے ہیں۔ جرگا لگاتے ہیں۔ معتبر رکھوالا جرگے میں انصاف کی مسند پربراجمان ہوتا ہے۔ جرگے میں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے معتبر رکھوالا انصاف کی مسند سے اپنا فیصلہ سناتا ہے ’’چونکہ ان دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے ان دونوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دونوں کے سر میں گولیاں مارمار کرمار دیا جائے‘‘۔

جرگے میں منصب کی مسند پر براجمان رکھوالا ایل ایل بی نہیں ہوتا۔ ایل ایل ایم نہیں ہوتا۔بیرسٹر نہیں ہوتا، مگر وہ جرگوں میں منصف بن بیٹھتا ہے۔ جرگوں میں فیصلہ سنانے والے رکھوالے کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ بہتر ہوگا کہ ہم لفظ رکھوالا لکھنے کی بجائے سردار لکھیں۔ سردار پورے پاکستان میں اپنے اپنے قبیلوں کے سربراہ ہوتے ہیں۔ آپ کو میں پکی خبر سناتا ہوں۔ تاریخی دستاویز کے بارے میں ہے۔ لندن میں ایک بہت بڑی لائبریری ہے۔ اس لائبریری کا نام ہے برٹش لائبریری۔ لائبریری کے مختلف سیکشنز ہیں۔ ایک سیکشن بہت بڑا ہے اور دیگر شعبوں پر بھاری ہے۔ اس سیکشن کا نام ہے، انڈیا لائبریری۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ چارسو برس پرانی دستاویز ہیں۔ روزِ اول سے جب انگریز خود کو بیوپاری بتاکر شاہجہان کےدور میں ہندوستان میں آئے تھے، تاحال برصغیر سے انگریزوں کے باہمی عمل کی دستاویز موجود ہیں۔ علم اور آگاہی کا سمندر رہے۔ تاریخی دستاویز میں ہندوستان کے اس حصے کی دستاویز بھی موجود ہیں جن پر 1947میں پاکستان بنا تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے تک انگریز نے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ ہندوستان کے جس حصے پر پاکستان بنا ہوا ہے، اس حصے پر بھی انگریز حکومت کرتے تھے۔ آج پاکستان کے جس حیران اور پریشان کردینے والے خطے کی میں آپ سے بات کررہا ہوں، اس خطے پر بھی انگریزکی حکومت تھی۔ انگریز نے لڑاکو اور ڈاکے ڈالنے والی قوموں کو جاگیریں، دے کر جیت لیا تھا۔ پاکستان بھر کی جاگیروں کی دستاویز لندن کی انڈیا لائبریری میں موجود ہیں۔ پاکستان کے جس خطے کی حیران کن اور ناقابلِ یقین قصے کہانیاں میں آپ کو سنارہا ہوں، اس خطے کے جاگیرداروں کی دستاویز بھی انڈیا لائبریری میں موجود ہیں۔ سمجھوتے پر انگریز حاکموں کے دستخط اور جاگیر وصول کرنے والے سرداروں کے انگوٹھے لگے ہوئے ہیں۔ صدیوں پرانی روایت آج تک چلی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرگے کےمنصفوں کے بارے میں، میں نے لکھا ہے کہ وہ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ جہالت اور گمراہی کو فروغ دینے کےلئے وہ اپنے اپنے خطے میں درسگاہیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کھولنے نہیں دیتے۔ ان کے اثر ورسوخ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سردار اکثر ایوان اقتدار کے مضبوط کوریڈورز میں مٹر گشت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے اس خطے کے مرد عام طور پر بڑے غیرت مند ہوتے ہیں۔ آئے دن ان کو اپنی بیوی، بہن، بھابھی، چچا زاد اور ماموں زاد بہنیں کالی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ لوگ غیرت میں آکر ان کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ واردات کے بعد وہ روپوش نہیں ہوتے۔ وہ آلہ قتل کے ساتھ جرگے میں پہنچ جاتے ہیں۔ جرگے کے منصف اپنے فیصلے میں فرماتے ہیں، کہ غیرت میں آکر قتل کرنا جائز ہے اور قابلِ ستائش ہے۔جرگوں میں کئی بار سرکاری افسران کو موجو دپایا گیا ہے۔ اب آپ بوجھتے رہیں کہ اس خطے کا نام کیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply