ہسپتال ہے،کلب نہیں ۔۔۔ڈاکٹر عزیر سرویہ

بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے ایم ایس کی جانب سے حکم نامہ جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ ہسپتال میں کام کرنے والی خواتین مندرجہ ذیل لباس ہسپتال میں استعمال نہیں کر سکتیں:

جینز/ٹائٹس (سوائے اس کے کہ گھٹنوں تک شرٹ کے ساتھ ہو)، کیپری جو ٹخنوں سے اوپر تک پہنچی ہو، چُست ملبوسات، آر پار نظر آنے والے ملبوسات، بھاری/ضرورت سے زیادہ مزیّن چوڑیاں اور انگوٹھیاں، سلیو لیس اور ہاف سلیوز، بھاری میک اپ (خصوصاً بہت تیز لپ اسٹک)، لمبے کھلے بال، ہائی ہِیلز (جن سے چلنے پر آواز پیدا ہوتی ہو)، حد سے بڑھے ہوئے ہیئر اسٹائل (خصوصاً ہائی بَنز)، نیچی نیک لائن (سامنے یا پشت سے)، لمبے ناخن اور ان پر پالش، سلپرز، پازیب۔”

اس حکم نامے پر نیٹ فلکس و بالی ووڈ و ٹی وی ڈراموں اور اداکاراوں کے طفیل چڑھے فیمن ازم کے بخار میں مبتلا خواتین بلبلا اٹھیں۔ سب سے قوی اعتراض جو سننے کو ملا وہ یہ تھا: یہ سب تھانیداری عورت ہی پر کیوں؟ مردوں کو پینٹ ممنوع کر کے دھوتی یا شلوار کا کیوں نہیں کہتے؟

سب سے پہلے تو عرض ہے کہ مردوں میں یہ “چُلّ” ہوتی ہی نہیں کہ خواہ مخواہ غیر ضروری طور پر اپنے جسمانی اعضاء (خصوصاً جنسی کشش کے ساتھ متعلقہ) کی نمائش یا زینت کا بندوبست کریں۔

جن جینز یا ٹائٹس کی بات ادھر ہو رہی ہے ان کے بارے ہر کوئی جانتا ہے کہ مردوں میں وہ رائج نہیں ہیں۔ مردوں میں ہسپتال سی تھرُو شرٹ یا پچھواڑے و چھاتی وغیرہ پر چپکے ہوئے پینٹ و شرٹ پہن کر جانے کا بھی رواج نہیں ہے۔ بالفرض اگر یہ سب مردوں میں کیا جانے لگے تو اکثریت ڈریس کوڈ کو سپورٹ کرے گی تاکہ اپنے ہم جنسوں میں سے ذہنی بیماروں کی مرمت ممکن ہو سکے۔

اس کے بعد آتے ہیں حکم نامے کی جزئیات پر۔ میں اسے مذہبی طور پر ہرگز ڈسکس نہیں کرنا چاہتا۔ اتنا کہنا ہے کہ اس میں ہاف سلیوز اور بَنز والی بات کے علاوہ باقی ہر پابندی پیشہ ورانہ لحاظ سے عین منطقی ہے۔

ٹائٹس اور چست جینز موومنٹ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ مریض کے بیڈ پر چڑھ کے بالفرض اس کا سی پی آر (چیسٹ کمپریشن) کرنا پڑے اور ڈاکٹر صاحبہ کے ٹائٹس وسط میں سے پھٹ جائیں تو مریضوں کے لواحقین اور عملہ مریض کی دھڑکن چلنے کی فکر کریں گے یا اپنی دھڑکن رکنے کی؟ ٹخنوں سے اوپر تک پہنچی پنڈلیاں دکھاتی کیپری، آر پار نظر آنے والے و شدید چُست اَپر، سلیو لیس ، تیز لِپ اسٹک، لو نیک وغیرہ یہ تمام چیزیں بغیر کسی شک و شبے کے مردوں کی توجہ لینے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ پہننے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیوں پہنی جا رہی ہیں، دیکھنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ گھسی پٹی دلیل جو بہت زور و شور سے پچھلے دنوں دہرائی گئی کہ “خواتین بھلے ننگی پھریں کسی کو ان سے زبردستی کا حق نہیں” پر ٹاکی لگا کے ادھر اپلائی کر دینا کہ “خواتین جیسے چاہے لباس پہنیں مرد خود کو کنٹرول کریں” سب سے بڑی بونگی ہے۔

اوّل تو یہ کہ جب مقصد ہی توجہ حاصل کرنا ہے، اور فطرت کا قانون ہے کہ مخالف جنس نے توجہ دینی ہے جب زنانہ اوصاف کو ابھار کر پیش کیا جائے، تو ایسے میں معاملہ اگر ہسپتال اور دوسروں کی صحت کا ہو تو عورت کی آزادی والے لبرل ممالک بھی فطرت کے سامنے اپنی آزادی کے بت کو توڑتے ہوئے انسانی جانوں کے معاملے میں کسی غلطی یا بے دھیانی نہ ہونے کو یقینی بناتے ہیں۔ آپ کو کسی مغربی میڈیکل شو (سوائے پورن کے) میں نرسز یا لیڈی ڈاکٹرز جنسی طور پے پُرکشش لباسوں میں اسی لیے کبھی نظر نہیں آتیں۔

ہائی ہِیلز پہن کر تیزی سے چلنا دشوار ہوتا ہے جس کا امکان ہمیشہ ہوتا ہے کہ ڈیوٹی پہ  ایمرجنسی بن سکتی ہے۔ لمبے ناخن، اور انگوٹھیاں ایک مریض سے دوسرے کو انفیکشن ٹرانسفر کا سبب بن سکتے ہیں، حفاظتی دستانے پہننے میں بھی دقت ہوتی ہے ان سے۔ چوڑیاں اور لمبے کھلے بال بھی معائنے اور دیگر پروسیجرز (سیمپلنگ، بی پی، سٹچنگ وغیرہ) میں واضح رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔

اگر آزادی “مقدس” ہے تو انسانی جان اس سے زیادہ مقدس ہے۔ مرضی کا لباس پہنیں، مردوں کو کنٹرول سکھائیں (نیچر جائے تیل لینے)، لیکن یہ سب تماشے بازاروں وغیرہ میں کریں، وہاں نہیں جدھر انسانی جان کا معاملہ ہو۔ وہاں گورے بھی آزادی کو بریک لگا لیتے ہیں۔ ان کو اچھے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو آزادی کی پٹی پڑھا کے برائے فروخت جانور کی طرح ہمہ وقت جسمانی نمائش پر لگا دینے کے بعد مردوں کے نظریں کنٹرول والا مطالبہ صریحاً غیر فطری ہے۔ لیکن چونکہ عورت کو آبجیکٹیفائی کر کے پراڈکٹس بھی بیچنی ہوتی ہیں سو وہ کہتے ہیں کہ یہاں تک آزادی کا منجن خوب بکنے دیا جائے، جبکہ ہسپتالوں میں انسانی جانوں کی بات آ جاتی ہے تو ادھر ذرا ہتھ ہولا کر کے فطرت کے تحت بی ہیو کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے یہاں کی فیمنسٹوں کو اپنے گورے پاپا جانیوں سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہیے، اگر یہ مشکل لگتا ہے تو گُوگل پہ  جا کر “dress code for hospital staff” لکھیں، پہلے صفحے پر گوروں کے ہسپتالوں کے ڈریس کوڈ (جو وکٹوریہ ہسپتال والے مولوی سے بھی سخت اور مفصل ہیں) مل جائیں گے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نہ کہ اِک تے کوجی اُتوں بدتمیز، ہماری دیسی فیمنسٹیں ذہنی طور پہ  تو مفلس ہیں ہی جو گوروں کے نظریاتی ٹکڑوں پر پلتی ہیں، پیشہ ورانہ اعتبار سے بھی حالت نہایت پتلی ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کو ان خواتین کے لائسنس پر نظر ثانی کرنی چاہیے جن کو انگوٹھیاں، لمبے کھلے بال اور ناخن رکھنے کی آزادی کی ڈُگڈُگی بجاتے وقت یہ تک نہیں پتا کہ یہ سب انفیکشن پھیلاؤ  کا سبب بن سکتے ہیں، اور ہسپتال خواہ مخواہ چَھمّک چَھلّو بن کے جانے سے مریضوں کی جان خطرے میں پڑنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply