مونو پلیجک سی پی (Monoplegic Cerebral Palsy)۔۔خطیب احمد

حیدر علی (سپیشل پرسن) میرے شہر گوجرانولہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انہوں نے پیرا اولمپکس سٹینڈنگ ڈسکس تھرو ایونٹ میں 55 اعشاریہ 26 میٹرز کے فاصلے پر تھرو کر کے سونے کا تمغہ جیت لیا۔ پوری قوم آج اس کامیابی کا جشن منا رہی ہے۔ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ حیدر علی پیرا اولمپکس چھایا ہوا ہے۔
میری فیلڈ سپیشل ایجوکیشن ہے۔ اور میرے لیے تو آج گویا عید کا دن ہے۔ اب شدت سے انتظار ہے۔ کہ جلدی سے حیدر واپس گوجرانولہ آئے اور میں ملنے جاؤں۔
حیدر علی ایک فزیکل ڈس ایبلٹی سیری برل پالسی کی قسم مونو پلیجیا کے ساتھ ہیں۔ بی بی سی اور انٹر نیشنل میڈیا حیدر علی کو پولیو افیکٹڈ بتا رہا بس اپنے اندر کی جلن اور کوڑھ باہر نکال رہا ہے۔ کہ پولیو آج بھی نائجیریا، افغانستان اور پاکستان میں موجود ہے۔ جب کہ حقیقت میں وہ مونو پلیجیا سی پی ہیں۔ ان کی معذوری پولیو کے بہت قریب ہے تو عالمی میڈیا کو موقع مل گیا پاکستان کی اس تاریخی جیت کو پولیو سے جوڑ کر ڈی ویلیو کر سکیں۔ لعنت ہے ان کی اس گھٹیا رپورٹنگ پر۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں لوگوں کو خود اپنی ڈس ابیلیٹی کا پتا نہیں ہوتا۔ حیدر کے سادہ لوح والدین کو بھی یہی لگتا تھا کہ وہ پولیو افیکٹڈ ہیں مگر وہ مونو پلیجیک سی پی ہیں۔ اور انہیں پیرا اولمپکس کی ایف 37 کیٹگری میں کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ جس میں سیری برل پالسی کے تمام پیرا ایتھلیٹ کھیلتے ہیں۔ وہ ایف 37 سے ہی کھیل کر کامیاب ہوئے ہیں۔
سی پی کی اس قسم میں متاثرہ فرد کے جسم کا ایک بازو یا ایک ٹانگ یا تو چھوٹی رہ جاتی یا ٹھیک سے حرکت نہیں کرتی۔ یا ایک سائیڈ کی ٹانگ اور بازو دونوں ہی دوسری سائیڈ سے کمزور ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ متاثرہ عضو میں نہیں بلکہ دماغ سے آنے والے سگنلز میں ہوتا ہے۔ وہ ٹھیک سے نہیں پہنچ پاتے اور متاثرہ حصے کی حرکات و سکنات ٹھیک سے نہیں ہو پاتیں۔ حیدر علی کے کیس میں ایک ٹانگ متاثر ہے۔ بازو الحمدللہ دونوں ٹھیک ہیں۔ باقی سارا جسم بھی ٹھیک ہے۔
میرا ماسٹرز فزیکل ڈس ایبلٹیز میں تھا۔ اور ایم فل ڈیویلپمنٹل ڈس ایبلٹیز میں۔ پانچ سالہ یونیورسٹی دور میں بھی میری پسندیدہ ڈس ابیلیٹی سی پی رہی۔ اور دس سال سے پڑھا بھی انہی بچوں کو رہا ہوں۔ ان کی بحالی میں جو ہمیں سب سے مشکل کام پیش آتا ہے۔ وہ یہ ہے والدین سچ کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے ہوتے۔ وہ کسی طرح اپنے بچے کو سو فیصد ٹھیک کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جو ہر بچے کے کیس میں کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا۔ جب تک وہ سچ کو مانتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی۔
ایک ڈاکٹر سے دوسرے کے پاس، ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہوتے۔ سی پی کی بحالی ایک انتہائی سست عمل ہے جو ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ وہ بس چند دنوں یا چند ماہ میں بچے کو بلکل ٹھیک کرنے کی بات کرتے ہیں۔
حیدر علی کے والد بابا جی صادق خود بھی کبڈی کے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ اور حیدر کے دادا ایک جانے مانے پہلوان تھے۔ تو انہوں نے بچے کی معذوری کو پتا چلتے ہی قبول کر لیا تھا۔ اور اس کے علاج کی بجائے اس کی بحالی پر اپنا سارا فوکس کر لیا تھا۔ انہیں کسی نے کہا تھا کہ آپ متاثرہ ٹانگ پر سارا گوجرانولہ شہر بیچ کر بھی لگا دیں تو یہ سو فیصد ٹھیک نہیں ہوپائے گی۔ آپ اس بچے کی صلاحیتوں کو پہنچانیں اور ان کو نکھارنے کی کوشش کریں۔
بابا جی صادق کی عقل میں بات آگئی۔ کہ جو ہونا تھا ہو چکا اب یہاں سے آگے بڑھنا ہے۔ یہیں بیٹھ کر روتے نہیں رہنا نہ لوگوں کے ترس و ہمدردیوں کا شکار اس بچے کو کر دینا ہے۔ بچے کو تین سال کی عمر میں ہی دیسی طریقہ پہلوانی کے تحت ورزشیں شروع کروا دی گئیں۔ پہلے پہل حیدر کو سکول جانے کے ساتھ لانگ جمپ کی ٹریننگ دی گئی۔ جس میں وہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ماہرانہ رائے لے کر بہت اچھا فیصلہ ہوا اور ان کو ڈسکس تھرو میں ڈال دیا گیا۔ اور دس سال کی کڑی محنت کے بعد وہ اس کھیل کے ماشاءاللہ ماہر ہوگئے۔ پاکستان واپڈا کی طرف سے وہ قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں کھیلتے تھے۔
یوں تو ان کا بین الاقوامی کیرئیر 2006 سے شروع ہو گیا تھا۔ مگر پیرا اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنا ایک انتہائی غیر معمولی کامیابی ہے۔ جو ان کو ان کے سپورٹس کیرئیر میں بچپن سے شروع کی گئی 22 سالہ لگاتار جان مارنے والی جد وجہد کے بعد جمعہ کے روز تین ستمبر 2021 کو ملی۔
میری سی پی اور دیگر بھی تمام سپیشل بچوں کے والدین کے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے۔ کہ بچے کے علاج کے ساتھ اسکی بحالی پر بھی اتنی ہی توانائی لگایا کریں جتنی آپ علاج پر لگاتے ہیں۔ اور کچھ ڈس ابیلیٹیز کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ سی پی ان میں سے ہی ایک ہے۔ ہاں ہم سالوں کی سٹرچکرڈ محنت کے بعد بچے کی روز مرہ زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
خدا را بچوں کو مختلف ہی قبول کریں۔ اور ان کو انڈر ایسٹی میٹ نہ کریں۔ یہ مختلف طریقوں سے ہم سے زیادہ قابل ہیں۔ جس دن آپ نے یہ بات قبول کر لی اس دن اسی وقت سے آپ کے بچے کی کامیابی کا سفر شروع ہوگا۔ جتنا لیٹ کریں گے اتنا ہی بچے کا نقصان کریں گے۔ میں آپ کے بچے سے آپ سے لاکھوں گنا زیادہ محبت رکھتا ہوں۔ بس اپنا دل آپکو چیر نہیں دکھا سکتا۔ آپ جذباتی ہو کر بچے کی بحالی میں صرف علاج دم درود مالشیں کرنے و رونے دھونے کے چکروں میں مسلسل تاخیر کر رہے ہوتے۔ میں علاج کے خلاف نہیں ہوں۔ عرض بس اتنی سی ہے کہ سی پی سو فیصد ریکور ایبل ڈس ابیلیٹی نہیں ہے۔ جتنی جلدی ممکن ہو بحالی کے لیے ارلی انٹر وینشن دیں۔ یہ کوئی بخار نہیں ہے جو دوا لینے سے اتر جائے گا۔ بچہ اب اس کنڈیشن کے ساتھ کی باقی عمر جئیے گا۔
بچے کی معذوری کو ذہن سے نکال کر اس کی باقی ماندہ صلاحیتوں کو پہچان کر ان پر حیدر کے والد بابا صادق کی طرح محنت کریں۔ کلینکل سائیکالوجسٹ اور سپیشل ایجوکیشنسٹ آپ کو اس ضمن میں بہترین مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنا دھیان ڈاکٹروں سے ہٹا لیں۔
ان شاءاللہ آپکا بچہ اور بچی بھی آپ کا ملک و قوم کا نام روشن کرے گا۔ ان بچوں کو تعلیم کے ساتھ سپورٹس میں ڈالنا پوری دنیا میں ریکمنڈ کیا جاتا ہے۔ ورزش کی ورزش اور بظاہر بیکار سی زندگی کو ایک بڑا مقصد مل جاتا ہے۔
میری اہلیہ نے سرگودھا یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ بچپن سے لے کر یونیورسٹی لائف تک بیڈ منٹن کھیلتی رہی ہیں۔ میری کوشش ہے انہیں اپنے ساتھ ملا کر چھوٹی عمر کے ایک دو سپیشل بچے منتخب کروں۔ اور ان پر ہم دونوں میاں بیوی اپنی ساری زندگی لگا دیں۔ میں انکی تعلیم پر مسلسل کام کروں اور اہلیہ ان کی منفرد صلاحیتوں کے مطابق ان کی سپورٹس کوچنگ کریں۔ جو ان شاءاللہ وہ کر لیں گی۔ ان میں یہ گٹس موجود ہیں۔
حیدر کی کامیابی کے پیچھے ان کے والد کی ساری زندگی کی محنت ہے۔ کوئی خاص حکومتی مالی سپورٹ حیدر کے ساتھ نہیں رہی۔ نہ انٹر نیشنل لیول کی ٹریننگ وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی۔ مگر ماں کے لال نے ان چیزوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹوکیو کی گراؤنڈ میں آج پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا۔ اور آج وزیر اعظم سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ دیگر کھلاڑی سیاستدان ان کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ ان پر فخر کر رہے ہیں۔
اس گھٹن سے بھرے ہوئے تنقیدی دور میں تازہ ہوا کے جھونکے جیسی اس خبر نے میرے تو دل کا موسم بدل دیا۔ حیدر علی آپ واقعی خاص ہیں قوم کے لیے وطن کے لیے اپنے جیسے ملک میں بسنے والے دوسرے سپیشل پرسنز کے لیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply