• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • صدر جو بائیڈن نے شکست تسلیم کی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب

صدر جو بائیڈن نے شکست تسلیم کی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب

(مکالمہ نامہ نگار):سینئر دفاعی تجزئیہ کار راور سابق جنرل امجد شعیب نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں شکست تسلیم کر لی۔ تفصیلات کے مطابق سینئر تجزیہ کار امجد شعیب مکالمہ کے خصوصی نامہ نگار سے گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا افغانستان میں جو کچھ ہوا،امریکہ کی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا،صدر جو بائیڈن نے سابق صداشرف غنی پر اعتماد کیا تھا کہ وہ ملک کے حالات کو سنھبالیں گے،لیکن سب کچھ اس کے توقعات کے خلاف ہوا،ان کے خیال میں افغان فوج کو طالبان کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا لیکن وہ ان کے سامنے ریت کی دیوار بن گئے۔صدر بائیڈن کو جب یہ معلوم ہوا کہ طالبان مسلسل تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور صوبوں پر قبضہ کر رہے ہیں، تو انہوں نے موقع پا کر فوج کو امریکہ واپس طلب کرلیا۔سینئر دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے سی آئی اے کے سربراہ کو افغانستان بھیجا تھا تا کہ وہ ملا عبد الٖغنی برادر کو اس بات پر قائل کر سکے کہ فوج نکالنے کی تاریخ کو آگے بڑھا یا جائے، لیکن سی آئی اے کے سربراہ کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ملا عبد الغنی برادر نے دو ٹوک الفاظ میں سی آئی اے کے سربراہ کو خبردار کیا کہ اگر مقررہ تاریخ اکتیس اگست تک فوج افغانستان سے نہ نکلی تو نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔سی آئی اے کے سربراہ نے صدر جوبائیڈن کو ملا عبدالغنی کے موقف اور پرزور باتوں سے آگاہ کیا۔ سینئر تجزئیہ کار کامزید کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کو اس وقت امریکہ میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب انہوں نے افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کے انخلا ء کا اعلان کیا،امریکی شہریوں اور اپوزیشن اراکین نے صدر بائیڈن کو آڑھے ہاتھوں لے لیا اور کہاکہ اگر وہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتے تھے، تو پھر وہاں پر کھربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی، ان کھربوں ڈالروں کو امریکہ میں فلاح وبہبود کے کاموں میں بھی خرچ کئے جاسکتے تھے۔سینئر دفاعی تجزیہ کار کامزید کہنا تھا کہ امریکہ کی بین القوامی شہرت یافتہ اخبارات کی یہ سرخیاں بن گئی کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کیا ہے۔نامہ نگار نے جب دفاعی تجزیہ کار سے یہ سوا ل کیاکہ امریکی صدر نے نائن الیون حملوں سے متعلق ٖفیڈرل بیورو آف انسوسٹی گیشن کو یہ ہدایات جاری کردی ہے کہ نائن الیون کے فائلوں کو کھولا جائے اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جائے کہ آیا سعودی حکومت کے اافسران نے حملے والے دن دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھے، اس پر دفاعی تجزیہ کار کاکہنا تھا کہ ہاں صدر بائیڈن نے بالکل فائلزکھولنے کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ ان حملوں میں جو لوگ ہلاک ہوئے تھے، ان کے لواحقین اور رشتہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ حملوں میں کون لوگ ملوث تھے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات اس وقت بہت پیچیدہ بن سکتی ہے کہ اگر ایف بی آئی کے تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات منظر عام پر آجاتی ہے کہ ہاں واقعی سعودی حکومت کے افسران نے اس دن دہشت گردوں کے ساتھ رابطہ کیا تھا تو پھر سعودی حکومت کو ان مرے ہوئے لوگوں کے رشتہ داروں کو ہرجانہ دینا پڑے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے جو نہی انتظامی امور سبنھالی تو سب سے پہلے انہوں نے سعودی حکومت کو اسلحے کی ترسیل پر پابندی عائد کردی، کیونکہ صدر جو بائیڈن نے خیال میں سعودی حکومت اس اسلحے کو یمن میں استعمال کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کی پالیسی کبھی نہیں بدلتی، بس کرسیاں بدلتی ہیں۔ داعش کے متعلق سینئر دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ خراساں کے باب سے متعلق ہے، اور یہ گروہ عراق اور شام میں معصوم انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرتے تھے، ان کی جڑیں افغانستان میں ہندوستان نے مضبوط کردی، امجد شعیب صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان داعش کو بھاری رقم دیتے تھے اور اسے اپنے مقاصد کیلئے افغانستان میں تربیت دے کر پاکستان بھیجتے تھے اور پھر یہ گروہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کرتے تھے، لاہور کے داتا دربار اور کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اس گروہ نے حملہ کیا تھا، ان دونوں حملوں میں کم از کم چھ سو افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ دفاعی تجزیہ کار نے مکالمہ کے نامہ نگار کو بتایا کہ ہندوستان اور کچھ نہیں کرسکتا صرف پروپیگنڈا ہی کر سکتا ہے۔جب نامہ نگار نے دفاعی تجزیہ کار سے یہ سوال کیا کہ صدر بائیڈن نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کیوں افغان بحران میں نظر انداز کیا، تو اس پر تجزیہ کا ر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پتے کھیلنے کیلئے کچھ نہیں۔امراللہ صالح اور سابق صدر اشرف غنی کے بارے میں دفاعی تجزیہ کار نے نامہ نگار کو بتایاکہ ان دونوں نے کابل کے صدارتی محل میں سوشل میڈیا سیل قائم کیا تھا اورہندوستان کے کہنے پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے، لیکن دونوں گیدڑ کی طرح رات کی تاریکی میں ملک سے فرار ہو گئے۔ جب نامہ نگار نے دفاعی تجزیہ کار سے یہ پوچھا کہ آیا طالبان حکومت افغان عوام کے توقعات پر پورا اترسکے گی، تو امجد شعیب صاحب نے نامہ نگار کو بتایاپہلے ان کو حکومت تو بنانے دو، یہ دور کی باتیں ہیں۔ہاں طالبان بالکل بدل چکے ہیں، ماضی کی غلطیوں سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے، ان کے ترجمان سہیل شاہین اور ذبیح اللہ مجاہد یہ کہتے ہیں، کہ ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ وستانہ تعلقات چاہتے ہیں، تو میری ذاتی رائے یہ ہے، کہ وہ بالکل بدل چکے ہیں۔نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل حمید چشتی کے بارے میں کہا کہ وہ کابل کے دورے پرہیں، کیونکہ جرمنی، فرانس،اٹلی نے حکومت پاکستان اور آئی ایس آئی کو درخواست کی تھی کہ ان کے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں ان کی مدد کریں، امجد شعیب صاحب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے انسانی ہمدری کی بنیادپر پاکستان انٹرنیشل ایئر لائن کی خصوصی پروازیں شروع کردی ہیں،کیونکہ طالبان نے تو کابل ایئر پورٹ کو بند کیا تھا۔جب نامہ نگار نے جنرل صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الزامات کا کھیل شروع ہوا ہے، امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان، تو اس پر امجد شعیب صاحب کا کہنا تھا کہ ہاں بالکل الزامات لگانے کا کھیل اس وقت شروع ہوا،جب صدر بائیڈن نے پانچ ہزار امریکی فوجییوں کو کابل ایئر پورٹ سے روانہ ہونے کا حکم جاری کیا، اور اتحادیوں کو نظر اندار کیا۔اس کے بعد امریکہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ برطانیہ نے اپنے شہریوں کیلئے کابل ایئر پورٹ کے ابی گیٹ کھولاتھا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ ٓیا ملا عبدالغنی برادر میں حکومت چلانے کی صلاحیت ہے، تو اس جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ اب وہ،وہ طالبان نہیں رہے، سب کچھ بدل چکا ہے، ان کے ساتھ چین ہے، روس اس کے حق میں ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply