جماعت اسلامی نے سید علی گیلانی کو دھوکا دیا

(رپورٹ -ابو احمد)جوں ہی سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کی خبر سنی تو آنکھوں کے سامنے بہت سے واقعات فلم کی طرح گردش کرنے لگے، مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا تو نانی اماں اکثر جماعت کے اجتماعات میں ساتھ لے جاتی، وہاں اور مقررین کے علاوہ شعلہ بیان مقرر سید علی شاہ گیلانی بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نےمیرے دل میں بچپن سے ہی گیلانی صاحب کی عقیدت پیدا کر دی تھی۔

1987 الیکشن میں جب دھاندلی کی گئی اور کارکنان میں مایوسی پیدا ہوگئی تو میری نانی اماں نے محلہ کے کچھ لوگوں سے کہا ہم خواتین کو جلوس کی صورت میں گیلانی صاحب کے گھر مبارکباد کے لئے جانا چاہئے، مجھے اچھے سے یاد ہے وہ نعرہ لگا رہے تھے، “سب پر بھاری گیلانی، سو کے بدلے گیلانی”، بچپن کے یہ واقعات ابھی تک ذہن پر نقش ہیں، جب شعور کی آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو گیلانی صاحب کے تقریروں کا پرستار پایا۔ جب وہ بارہمولہ آتے تو میں قبل از وقت ہی پہلی صف میں بیٹھ جایا کرتا، ان کی تقریر کی فصاحت اور بلاغت کا کوئی مقابلہ نہیں۔

میں نے تقریر میں ایسی روانی کسی کے ہاں نہیں دیکھی اور سب سے اہم بات وہ جب تقریر کرتے تو جہاں شعلہ بیانی ہوتی وہاں استدلال بھی ہوتا۔ وہ اپنا توازن کبھی بھی نہ کھوتے، وہ مقابل کا نام بھی ادب و احترام سے لیتے، مجھے یاد ہے جب وہ شیح عبداللہ کا نام لیتے تو مرحوم شیخ عبداللہ کہتے، جب اندرا گاندھی کا نام لیتے تو شریمتی اندرا جی کہتے، وہ قرآن پاک کے عالم تھے،وہ اپنی تقریر میں قرآن پاک جس انداز سے پڑھتے تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے، قرآن پاک سے آپ کو عشق تھا، وہ اپنی تقریر میں قرآن پاک کی اتنی زیادہ آیات پڑھتے میں حیران ہو جاتا کہ اس عمر میں بھی ان کو اتنا قرآن یاد ہے، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا بیشتر حصہ ان کو حفظ تھا ، میں دور دراز مقامات پر بھی ان کی تقریریں سننے کے لئے جاتا،وہ کشمیری اور اردو زبان میں تقریر کرتے، اگر کسی جگہ انٹرنیشنل میڈیا ہوتا تو وہ انگریزی میں بھی اپنی بات کہتے، لیکن ان کی اردو زبان کی تقریر سب سے اچھی ہوتی۔

وہ اردو اور فارسی کے استاد تھے لیکن اردو میں ان جیسی تقریر میں نے آج تک کسی سے نہیں سنی، ایک زمانے میں ان کی تقریروں کی cd’s میں خریدلیتا اور دوستوں میں تقسیم کرتا اور خود ایک ایک تقریر کئی بار سنتا ،ان کی اقتدا میں کئی بار نماز پڑھی۔نماز میں ان پر رقت طاری ہوتی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اللہ سے کلام کر رہے ہیں، لمبی قرأت، لمبے سجود، لمبے رکوع ، ان نمازوں کی حالت ہی الگ تھی، شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو مجھ پر رقت طاری نہ ہوئی ہو۔

انہوں نے مزاحمتی ادب میں بھی اپنا حصہ ادا کیا، ان کی کئی کتابیں ان کی جیل ڈائری ہیں، ساتھ ہی ان کی خودنوشت ولر کنارے (تین جلد) نا صرف مزاحمتی ادب میں اہم کتاب مانی جاتی ہے بلکہ کشمیر کے واقعات، سیاست، معاشرت بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔

اقبالیات کے وہ امام تھے۔ انہوں نے اقبال کی شاعری کی تفہیم کے سلسلے میں کئی کتابیں لکھیں، وہ جب اقبال کا شعر پڑھتے تو اقبال کی شاعری کی عصری معنویت کا پتا چلتا ، وہ چونکہ انقلابی تھے لہذا انہیں سید مودودی، علامہ اقبال، قائد اعظم، سید قطب سے محبت تھی۔

مجھے یاد ہے جب ولر کنارے شائع ہونے والی تھی تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کی شائع کردہ کتابیں بہت ہی خوبصورت چھپی ہیں، اگر مجھے پہلے سے پتہ ہوتا تو ولر کنارے بھی آپ کے ہاں سے شائع کرتے۔ لیکن اب وہ اشاعت کے لئے چلی گئی ہے، میں نے انہیں کہا کہ آپ کے ناشر افضل بھائی انتہائی قابل انسان ہیں وہ کتاب کو خوبصورتی سے شائع کریں گے، اور واقعی ایسا ہوا، گیلانی صاحب نفاست پسند تھے، وہ جو کپڑے پہنتے صاف شفاف پہنتے، کراکلی ٹوپی اور اچکن میں وہ بہت ہی خوبصورت لگتے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو ایک بار تنقیداً کہا گیا کہ آپ مہنگے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کا جواب ان کے اندر حس مزاح کا بھی پتا دیتا ہے، جواب تھا “سستاروئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار”، لمبا قد، اور گہری آنکھوں نے ان کی پر وجیہ شخصیت میں چار چاند لگائے تھے، ہر پہلو میں وقار تھا۔

کھانے پینے کے معاملے میں بھی وہ نفاست پسند تھے، مطالعہ کا شوق و ذوق بہت تھا، اخبارات و رسائل کے علاوہ وہ مستقل کتابیں پڑھتے، میں جب بھی ان سے ملا کسی نہ کسی کتاب کو سرہانے پایا، گیلانی صاحب کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے عیش کئے ، حتٰی کہ کشمیر کے ہند نواز سیاستدانوں نے بھی ہندوستان کو ان کے نام سے خوب بلیک میل کیا ، لیکن خود سادگی کی زندگی گزاری۔ ان پر ایک بھی کرپشن کا الزام کسی نے عائد نہ کیا ۔

ان کی سرینگر رہائش پر کئی  بار ان کے پاس حاضری دی کبھی اکیلے، کبھی دوستوں کے ہمراہ ، کبھی ہندوستان سے آئے ہوئے مہمانوں کے سنگ ، ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ تھے ہی با اخلاق، حلیم اور ڈاون ٹو ارتھ۔ ان کے ساتھ ملاقات میں کبھی محسوس نہ ہوا کہ ہٹو بچو والی پوزیشن ہے انکی، وہ ایسا ماحول پیدا کرتے مجھ جیسا لا علم بھی بات کرنے سے نہیں ہچکچاتا، وہ سننے کے عادی تھے۔ ایک بار ہم چند احباب ان سے ملاقات کے لئے گئے، ہم میں کچھ ڈاکٹر تھے کچھ انجینئر اور کچھ دیگر سرکاری پیشوں سے وابستہ۔ اکثر سرکاری ملازم ۔ وہاں ایک بزرگ نے جب ہم سب کا تعارف کرایا تو گیلانی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا یہ تو سب کے سب “سرکاری” ہیں، اس وقت ہم جوان تھے سب کو گیلانی صاحب کی بات بری لگی لیکن کچھ عرصہ بعد جب بحیثیت سرکاری ملازم وہ سب کچھ کرنا پڑا جو سرکار چاہتی ہے، گیلانی صاحب کے اس طنزیہ جملے کا احساس جیسے شدید ہو گیا ۔ آج یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش نوکری کے بجائے کوئی اور کام کیا ہوتا ۔

مجھے ایک ملاقات یاد ہے، ان دنوں پی ڈی پی، بی جے پی سرکار تھی ان کے جلسوں پر پابندی لگائی گئی تھی، کہا جاتا تھا کہ گیلانی صاحب نے درپردہ پی ڈی پی کی مدد کی ہے۔ گیلانی صاحب انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے میں نے ازراہِ مذاق کہا کہ سرکار نے آپ کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ….. اس کے بعد میں چپ رہا، گیلانی صاحب نے بات کا موضوع بدل ڈالا اور کہا کیا میری کتاب ولر کنارے تیسری جلد کا مطالعہ کیا۔ میں نے کہا کہ قبلہ آپ نے اس میں بہت سی شخصیات کے چہروں سے “پردہ” ہٹانا مناسب نہیں سمجھا ہے، کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کچھ تو آنکھوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ میں نے کہا لیکن لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے،لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کس کس نے کیا کیا، جس طرح آپ نے دوسری تنظیموں اور افراد کا پوسٹ مارٹم کیا ایسا ہی “اپنوں” کا بھی ہونا چاہئے تھا، 1996 کا اجتماعی سرنڈر .کیاانہوں نے عملاً تحریک سے منہ نہیں موڑا۔ ان کا جواب تھا اگر میں لکھتا تو کیا ہوتا۔ میرا جواب تھا کہ جماعت کی موجودہ قیادت نہیں آتی۔ ان کا جواب تھا “گوبرا ای چھو آل ہوند سوری پھل ایتھوی” بیٹا یہ سب کے سب ایک جیسے ہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گیلانی صاحب کو تحریکی حلقہ نے سب سے زیادہ ساتھ دیا لیکن تنظیم نے سب سے زیادہ دھوکہ دیا ، اخیر وقت اپنے اجتماعات میں نہ بلایا، ان کے سب ساتھیوں بشمول اشرف صحرائی کی رکنیت معطل کردی، ابھی جب جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے جو کورٹ میں اپنی طرف سے جواب پیش کیا ہے اس میں لکھا گیا ہے ہم نے گیلانی اور صحرائی کو اس وجہ سے تنظیم سے نکالا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں جبکہ جماعت کا اس کے برعکس موقف ہے، گیلانی صاحب کا قد اس قدر اونچا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر قابض ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ۔ وہ خود ہی اس کارواں سے علٰیحدہ ہوگئے۔ وہ اس کارواں کو بکھیرنا نہیں چاہتے تھے، سچ تو یہ ہے کہ جماعت نے انہیں الگ تھلگ کیا۔ انہوں نے اگرچہ تحریک حریت کو قائم کیا لیکن چونکہ وہ بھروسہ صرف ایک خاص حلقہ پر کرتے لہذا تحریک حریت اپنا وہ مقام نہ بنا سکی جو وہ بنا سکتی تھی، وہ مسرت عالم جیسے سرفروش کو بھی اپنا نہ سکی، 2017 میں جب NIA نے کشمیر میں کارروائی شروع کی ان ہی دنوں میں ایک بار ان کے گھر گیا، وہاں لوگ بالکل نہ تھے، خوف کا ماحول تھا ۔

شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان کو گھیرا گیا تھا۔ میں نے اس پر گیلانی صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں کو احتجاج کرنا چاہئے، نعیم اور شبیر شاہ کی بہت ساری غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن اگر آپ نے اس وقت لوگوں کو موبالائز نہ کیا تو ایجنسیوں کا سلسلہ نہ رکے گا، جس کا مجھے ڈر تھا آخر وہی ہوا۔

گیلانی صاحب کو اللہ نے انتہا درجہ کی ACCOMMODATION عطا کی تھی انہوں نے 17 سالہ میر واعظ کو حریت چیرمین تسلیم کیا البتہ وہ اپنے موقف میں کبھی کمپرومائز نہیں کرتے ۔

جنرل پرویز مشرف نے جب چار پوائنٹ فارمولا پیش کیا تو حریت کی ساری قیادت نے تسلیم کیا لیکن گیلانی صاحب اس وقت بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے،بلکہ پاکستان کے صدر کے ہندوستانی دورے پر اپنے موقف کا برملا اظہار کیا، پاکستان سے ان کو بہت محبت تھی لیکن ان کا ماننا تھا کہ لوگ اگر آزادی ہی پر متفق ہیں تو وہ اس کی تائید کریں گے،20 سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارا، 2008 میں گھر میں ہی نظر بند تھے، آپ تصور کیجئے پیرانہ سالی ایک طرف اور دوسری طرف مختلف امراض میں مبتلا اور پھر نظر بندی کے ایام، کس طرح کی ابتلا تھی یہ، لیکن ان کے موقف میں کبھی بھی تبدیلی نہ آئی، بہرحال ‘نہ جھکنے والا نہ بکنے والا “کا خاتمہ خیر پر ہوا، ان کے انتقال کے ساتھ ہی کشمیر میں انٹرنیٹ حتٰی کہ فون بھی بند کئے گئے، سڑکوں پر ناکے لگادئے گئے ۔

جنازہ بھی پولس کی نگرانی میں ادا کیا گیا اور صرف چند افراد ہی کو جنازہ ادا کرنے کی اجازت ملی۔ حسن البنا شہید کے جنازہ کی یاد تازہ ہوئی، گیلانی صاحب کے انتقال سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ تحریک کشمیر یتیم ہوگئی لیکن اللہ رب العزت مالک ہے وہ انشاء اللہ نعم البدل عطا کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ آواز

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply