سر وکٹر فرینکل چھبیس مارچ 1905ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ایک یہودی خاندان کے ہاں پیدا ہوئے، تعلیم و ادب اور تہذیب و تمدن اس خاندان کی پہچان تھی، اوائل عمر سے ہی فرینکل کا پسندیدہ مضمون طب و نفسیات رہا، اپنے لڑکیپن اور سکول و کالج کے زمانے میں وہ طب اور بالخصوص نفسیات کے متعلق سیمینارز میں حصہ لیا کرتے، تب بابائے نفسیات فرائیڈ کے نظریات کا چرچا زبان زدِ خاص و عام تھا، انہی نظریات کے ساتھ فرینکل پروان چڑھے، انہوں نے میڈیکل کی تعلیم کے بعد اپنے لئے نیورولاجی کے مضمون کا انتخاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ انسانی کے اعصابی نظام بالخصوص دماغ کی طبی گرہیں کھولے بغیر فرد کی نفسیات و لاشعور میں چھپے گورکھ دھندوں تک رسائی ممکن نہیں، انہوں نے ویانا ہی کے مرکزی ہسپتال میں بطور نیورو فزیشن اپنے کیریئر کا آغاز کیا، تب نفسیات دانوں کی تعداد بطور معالج چونکہ معدوم تھی، اسی لئے فرینکل نیورو سائیکالوجسٹ کے کردار میں سامنے آئے، وقت کے ساتھ ان کی دلچسپی ایسے مریضوں کی طرف بڑھتی گئی جو خودکشی کا رجحان رکھتے تھے، انہوں نے اپنی ریسرچ کو اسی مرکزی سوال پہ فوکس کیا کہ آخر فرد کس بنا پہ خودکشی کی خواہش پالتا ہے۔ 1935 ء سے 1939 ء تک فرینکل نے تین ہزار سے زیادہ افراد کو خودکشی سے بچانے میں مدد کی، ان مریضوں کا ریکارڈ آج بھی ویانا میں موجود ہے۔
یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء ہوچکی تھی، یہ جنگ پھیلتے ہوئے جب آسٹریا تک پہنچی تو مقامی یہودیوں نے براعظم امریکہ کی طرف ہجرت شروع کر دی کہ یہی بقا کی ضمانت تھی، اس وقت فرینکل نیورولاجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے عہدے پر فائز تھے، دوست اور کولیگ انہیں بھی امریکہ ہجرت کرنے کی ترغیب دیتے، وہ خود بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس بات کے خواہاں تھے لیکن ان کے والدین اور زوجہ آمادہ نہ ہوئے، نازیوں کے بڑھتے تسلط کی زد میں آخر ایک دن اس لسٹ میں فرینکل کا نام بھی آگیا جنہیں فی الفور گرفتار کیا جانا تھا، لیکن مقامی سارجنٹ نے اس لسٹ سے ان کا نام اس وجہ سے ہٹا دیا کہ وہ بطور ڈاکٹر اس سارجنٹ کے بوڑھے والدین کا متعدد دفعہ علاج کر چکے تھے ، مگر ساتھ ہی سارجنٹ نے خبردار کیا کہ وہ ہر دفعہ انہیں نہ بچا سکیں گے، ان کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا ساز وسامان باندھیں اور یہاں سے نکلنے کی کریں، اس دوران فرینکل نے امریکی ایمبیسی میں ویزے کیلئے اپلائی کیا، لیکن چند ہی روز بعد انہیں ان کے پورے خاندان سمیت گرفتار کر لیا گیا، انہیں ویانا ہی کے قریب نازیوں کے جیل خانے میں رکھا گیا، یہ 1942ء کا واقعہ ہے۔ فرینکل بتاتے ہیں کہ ان دنوں وہ لوگو تھراپی پر ایک کتاب لکھ رہے تھے، گرفتاری کے وقت ان کے کوٹ کی اندرونی جیب میں اس کتاب کے نوٹس موجود تھے جو ان سے چھین لئے گئے، یہ جیل قدرے نرم اور مقامی آفیسرز کی وجہ سے فرینکل کیلئے زیادہ تکلیف دہ نہ تھی، لیکن یہ آسائش زیادہ وقت میسر نہ رہی، انہیں وہاں سے شہر کے باہر دوسری جیل میں منتقل کیا گیا۔
یہ جیل بدنامِ زمانہ ہولوکاسٹ کی کاروائیوں کیلئے کیمپ کی صورت میں تھی جہاں قیدیوں پر بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا، اس جیل میں روزانہ کی بنیاد پر اموات ہوتیں جو عموما بھوک، تشدد، مختلف وباؤں یا پھر خودکشی کی صورت پیش آتیں، فرینکل لوگوں کی اس حالت پر بہت پریشان رہتے، انہوں نے بطور نفسیات دان لوگوں کی مدد کا فیصلہ کیا اور وہ انہیں زندگی کی طرف لوٹنے اور امید کا سہارا لینے پر آمادہ کرتے۔
فرینکل بتاتے ہیں کہ دو نوجوان جیل میں خودکشی کا ارادہ کئے بیٹھے تھے، انہوں نے جب ان دونوں سے الگ الگ یہ پوچھا کہ وہ کیوں خودکشی کرنا چاہتے ہیں تو دونوں کا ایک ہی جواب تھا کہ
انہیں اب اس زندگی سے کوئی امید نہیں رہی۔
فرنیکل نے جواب میں کہا کہ
آپ لوگوں کو زندگی سے امید نہیں رہی، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ زندگی آپ سے کچھ امیدیں لگائے بیٹھی ہو ؟
ان کے اس جملے نے ان دونوں نوجوانوں کو خودکشی کے ادارے سے واپس زندگی کی طرف موڑا اور یہ دونوں جنگ کے اختتام پر رہائی کے بعد اپنے اپنے شعبے میں بہترین خدمات انجام دیتے رہے۔
فرینکل لکھتے ہیں کہ جب ان پر جانوروں کی طرح ظلم کیا جاتا، ہفتوں بھوکا رکھا جاتا، صبح منہ اندھیرے جب ٹھڈے مار کر انہیں ننگے پیر برف پر چلتے ہوئے کام کی طرف ہانکا جاتا تو اذیت اور کرب سے بھرے ان لمحات میں ان کیلئے خود پہ قابو رکھنا مشکل ہوجاتا اور ان کا ذہن کسی انتہائی قدم اٹھانے پر انہیں اکساتا تو وہ اپنے تصور میں ایک تصویر لاتے کہ ان کے کام کا میدان ایک بہت بڑا ہال ہے جہاں دنیا کے بڑے بڑے نفسیات دان موجود ہیں اور پروفیسر وکٹر فرینکل انہیں نفسیات کی پیچیدگیوں پر لیکچر دینے جا رہے ہیں، فرینکل لکھتے ہیں کہ اس تصور کے بعد وہ پر اعتماد قدموں اور پر فخر سر کے ساتھ کام کیلئے جاتے، اور وقت نے ان کے اس تصور کو سچ کر دکھایا جب رہائی کے بعد متعدد کتابیں لکھنے پر انہوں نے شہرت حاصل کی اور امریکی یونیورسٹی میں نفسیات دانوں کو نفسیات پر لیکچر دینے پہنچے بعینہ جیسا وہ جیل کے دنوں میں تصور کیا کرتے۔
جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے انسانی نفسیات کی باریکیوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا، اس موضوع پر انہوں نے کتاب لکھنے کا سوچا لیکن کاغذ قلم کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ کتاب انہیں اپنے ذہن کے صفحوں پر محفوظ کرنا پڑی ، اپنے روزمرہ کے مشاہدات اور تجزیات وہ روزانہ رات کو دہراتے رہتے، جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے نو دن کے اندر اس کتاب کو صفحۂ قرطاس پر اتارا اور اس کتاب کا نام، جیل خانے کا نفسیات دان، رکھا ۔
“بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے” یہ مشہورِ زمانہ جملہ ہمارے ہاں ادب و سماجی علوم میں استعمال ہوتا ہے، یہ جملہ درحقیقت ایڈلر کا ہے، ان کا کہنا تھا کہ فرد کا تشخص، اس کی تعلیم ، شعور اور اخلاقیات تب تک ہیں جب تک فرد کو روٹی میسر ہے، بھوک کی وجہ سے قریب المرگ تمام افراد کا رویہ بالکل ایک جیسا ہوگا، ایسے میں تعلیم، اخلاق یا شعور کسی کام نہیں آتے، لیکن فرینکل نے ایڈلر کے اس نطریے کو رد کیا ، کیونکہ وہ روزانہ بھوک کی وجہ سے مرنے والوں کا مشاہدہ کرتے اور یہ بتایا کہ انتہائی حالت میں بھی انسان اپنی اپنی شعوری سطح کے مطابق ہی رد عمل دیتا ہے۔
1945 ء میں جنگ کے اختتام پر فرینکل ان چند افراد میں سے ایک تھے جو جیل کی سختیوں کے باوجود زندہ بچے اور رہائی پائی، رہائی کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والدین اور زوجہ جیل میں زندگی کی بازی ہار چکے، یہ دھچکا ان کیلئے جیل کے کرب سے کہیں زیادہ تلخ تھا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور ہمیشہ آگے کی طرف دیکھا، انہوں نے دوبارہ بطور نفسیات دان پریکٹیس شروع کی اور کتابیں لکھنے کا سلسلہ چلایا، انہیں لگتا تھا کہ انسان کی حقیقت کو جاننے کیلئے نفسیات کے ساتھ ساتھ فلسفے کا کردار بھی اہم ترین ہے، اس مقصد کو لے کر انہوں نے 1949ء میں فلسفے کے میدان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، انسانی نفسیات پر مشاہدات کو لے کر اب انہوں نے جو کتابیں لکھنا شروع کیں تو مشرق و مغرب میں ان کو سراہا گیا، ان کی سب سے معروف کتاب، فرد مقصد کی تلاش میں، کا جب انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو تب اس کی دس ملینز کاپیاں بِکیں جو اس وقت کے لحاظ سے ایک غیر معمولی تعداد تھی۔
وکٹر فرینکل کا سب سے عظیم کارنامہ اس وقت کے معروف نظریات کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے، اس وقت فرائیڈ کا نظریہ نفسیات کی دنیا میں معروف تھا کہ فرد کے تمام اعمال کا حقیقی محرک جنس ہے، یعنی کہ فرر جنسی تسکین کیلئے ہی سب کچھ کرتا ہے، اس کے برعکس ایڈلر کا نظریہ یہ تھا کہ فرد چونکہ بے بس پیدا ہوتا ہے اس لیےاحساسِ کمتری فرد کی شخصیت کا جزوِ لازم قرار پاتا ہے اور احساسِ کمتری کی وجہ سے فرد پوری زندگی اختیارات کی وسعت کیلئے تگ و دوو کرتا ہے، یعنی کہ فرد کے تمام اعمال کا محرک اقتدار کی خواہش ہے۔
لیکن فرینکل نے کہا کہ ان دونوں نفسیات دانوں نے فرد کے تشخص کو انتہائی سطحی ترازو میں تولنے کی کوشش کی ہے، جنس اور اقتدار کی خواہش فرد کے کسی ایک پہلو کی جزویات تو ہو سکتی ہیں لیکن اس کی کُل فعالیت کے حقیقی محرک نہیں ہو سکتے، فرینکل کے مطابق فرد کے اعمال کا حقیقی محرک مقصدیت ہے، مقصدیت ہی فرد کو عظیم انسان بناتی ہے، اس کے بغیر سب کچھ بیکار ہے، انسانی شعور کی راہ میں جتنی بھی مشعلیں جلتی آئی ہیں وہ مقصدیت کی مشعلیں ہیں ،نہ کہ جنس یا خواہشِ اقتدار کی، ان کے اسی نظریے کو نفسیات کی زبان میں لوگو تھراپی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بابائے نفسیات فرائیڈ کے مداحوں کو فرینکل کے اس نظریے سے سخت اختلاف تھا، اس کی بنیادی وجہ شخصیت پرستی تھی کہ لوگ فرائیڈ کے اس قدر مداح تھے کہ ان کیلئے یہ تصور ہی محال تھا کہ کوئی ان کے پیرومرشد کو چیلنج کرنے کا سوچے بھی، تب نقادوں کا رخ فرینکل کی طرف مڑا اور انہوں نے فرائیڈ کو بچانے کیلئے فرینکل کے ہر نظریئے کو بغیر دلیل کے رد کرنا شروع کیا اور ان کی علمی و ذاتی تنقید میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، سب سے گھٹیا جملہ جو اس وقت نقادوں نے فرینکل کیلئے بولا وہ یہ تھا کہ،
“کیا ایک بونا کسی دراز قد سے زیادہ دُور بھی دیکھ سکتا ہے ؟”
اس جملے میں جو زہر بھرا ہے اس کی شدت آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے، نقادوں کے اس جملے پر فرینکل نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ
“جی ہاں، بونا اگر دراز قد آدمی کے کندھوں پر بیٹھا ہوتو وہ اس دراز قد سے زیادہ دُور دیکھ سکتا ہے ”
فرینکل کے اس ایک جملے میں پوری قیامت مضمر ہے، یہاں فرائیڈ کی بلند قامتی کا عتراف بھی کیا جا رہا ہے، بطور طالب علم اپنی عاجزی بھی پیش کی جا رہی ہے، لیکن ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ علم کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، بزرگوں کی کاوشیں اپنی جگہ لیکن علمی ارتقاء کا سفر جاری رہنا چاہئے۔
فرینکل پُر تشدد اذہان کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی منزل کے حصول کیلئے ہر راستے کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن ان کا یہ رویہ بہت بڑی غلطی ہے، حقیقی انسان کو کسی بھی منزل کے حصول کیلئے ہر حال میں صرف جائز راستے ہی کا انتخاب کرنا چاہیے۔
زندگی کے آخری ایام تک فرینکل نیویارک انتظامیہ سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ جہاں شہر کے ایک کونے پر مجسمۂ آزادی نصب ہے ، وہیں شہر کے دوسرے کونے پر مجسمۂ ذمہ داری لگایا جانا چاہئے کہ توازن برقرار رہے، وگرنہ صرف آزادی کا یہ تصور فرد کو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھنے دے گا ایسے میں دوسروں کے حقوق و جذبات کے تلف ہونے کا اندیشہ شدید تر ہے جب تک ذمہ داری کا احساس شانہ بشانہ نہ رہے، افسوس کہ فرینکل کی اس نصیحت پر کان نہ دھرے گئے، آج مادر پدر آزادی کا جو تصور انسانوں میں پنپ رہا ہے اس کے تانے بانے اسی مجسمۂ آزادی سے جا ملتے ہیں جو ذمہ داری کے احساس سے عاری ہے۔
فرینکل نے اپنی زندگی میں انتالیس کتابیں لکھیں اور ان کے چار سو سے زائد تحقیقی مضامین شائع ہوئے، انہوں نے اپنے ہسپتال کی ایک نرس سے دوسری شادی بھی کی تھی جو عمر کے آخر تک ان کی رفیقِ حیات رہیں۔
فرینکل دو مارچ 1997ء کو اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے، انہی ایام میں لیڈی ڈیانا ایک کار حادثے میں جان بحق ہوئیں، چونکہ لیڈی ڈیانا عوامی حلقوں میں زیادہ مقبول تھیں، اس لیے فرینکل کی موت میڈیا میں دوسرے صفحے پر چلی گئی، لیکن علم کی دنیا میں ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ شاید آسانی سے نہ بھر پائے گا۔
دعا ہے کہ خدائے یکتا ان کی روح کو شانتی و امن میں رکھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں