سی پیک کا ایک غیر متوقع فائدہ

سرد جنگ کے خاتمے کو تین دہائیاں گزرنے کو ہیں اور دنیا پر تنہا حکمرانی کے امریکی خواب کو ایک بار پھر مشرق سے چین پریشان کررہا ہے۔ چین کی معیشت جس تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2035 تک چینی جی ڈی پی (پرچیزنگ پاور پیرٹی) 43.7 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی جبکہ اسی برس امریکی جی ڈی پی 26.7 اور یورپی یونین کی جی ڈی پی 27.8 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔ گویا اکیلے چین کی جی ڈی پی امریکا اور یورپ کی مجموعی پیداوار کے قریباً برابر ہونے کی توقع ہے۔

اس بڑی بلکہ بہت بڑی معیشت کے لیے چین کو جس قدر ایندھن درکار ہے، اس کی مقدار ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ممالک کے لیے ہوش ربا ہے۔ فی الوقت چین کو درکار قدرتی ایندھن کی بڑی مقدار مشرق وسطیٰ اور افریقا سےدرآمد کی جارہی اور یہ سب ایندھن یعنی تیل اور گیس ٹینکرز کے ذریعے بحری راستے سے چین پہنچتا ہے۔ امریکی وزارت توانائی کے ذیلی ادارے "انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن" کی رپورٹ کے مطابق چین روزانہ 6.6 ملین بیرل تیل درآمد کرتا ہے جو اس کی ضروریات کے تقریباً 60 فیصد کے برابر ہے۔ 2035 تک یہ درآمدات 62 فیصد اضافے کے ساتھ 9.7 ملین بیرل روزانہ ہوجائیں گی۔ اسی طرح گزشتہ برس تک چین 1.4 ٹریلین کیوبک فیٹ قدرتی گیس درآمد کر رہا تھا جو 2035 تک 6 ٹریلین کیوبک فیٹ ہو جائے گی۔ یہ ایندھن بحر ہند اورجنوبی بحیرہ چین کے راستے سے گزر کر چین پہنچتا ہے اور اس راستے میں امریکی مداخلت کا خطرہ ہر آن موجود ہے۔

دنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے امریکا نے اپنی بحری قوت کو جس قدر ترقی اور وسعت دی ہے، اس کے مقابلے کے لیے چین کو ابھی کئی دہائیاں درکار ہوں گی لیکن کنفیوشس کی دانش کے وارثوں نے اس مسئلے کا ایک بہترین حل سوچا اور اسے "ون بیلٹ، ون روڈ" کا نام دیا۔ سی پیک بھی اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے جس کے تحت چین پاکستان میں 52 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے سڑکیں ، ریلوے لائنیں، بندرگاہیں اور دیگر سہولیات تعمیر کرے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چین جن ممالک سے یہ تیل اور گیس درآمد کرتا ہے، ان کی اکثریت امریکی کیمپ سے وابستہ ہے۔ ایک طرف جہاں چین ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے اپنی درآمدات اور برآمدات کے راستے محفوظ بنا رہا ہے، وہیں وہ قدرتی ایندھن کے کے لیے متبادل ذرائع پر انحصار بڑھانے کے لیے مصروف ہے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی کیمپ سے وابستہ عرب ممالک میں ایندھن کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے ہیں جبکہ دو ایسے ممالک ہیں جو امریکی کیمپ میں شامل بھی نہیں اور ان کے ذخائر کا بڑا حصہ بھی ہنوز محفوظ ہے۔ یہ دو ممالک ہیں، روس اور ایران۔ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے اندازے کے مطابق روس میں 80 بلین بیرل تیل اور 1688 ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں اور چین کے ساتھ 4000 کلومیٹر مشترکہ سرحد کے باعث روس پائپ لائنز کے ذریعے یہ ایندھن بآسانی چین کو برآمد کر سکتا ہے اور وہ بھی کسی ممکنہ امریکی مداخلت کے بغیر۔ تاہم روس یورپ کو ایندھن کی سپلائی بھی جاری رکھے گا اور اس باعث چین مکمل طور پر روسی ایندھن پر انحصار نہیں کر سکتا۔

ماہرین کے مطابق چین بھی انگریزی مقولے کے مطابق تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کا قائل نہیں۔ اس لیے اس نے ایران کے ساتھ روابط کو فروغ دیا ہے اور جوابی طور پر ایران نے بھی چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چین کو درکار ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایران میں تیل کے چوتھے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مقدار کا اندازہ 158 بلین بیرل لگایا گیا ہے۔ اسی طرح ایران قدرتی گیس رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے(پہلے نمبر پر روس ہے)۔ ایران میں قدرتی گیس کے ذخائر کا اندازہ 1201 ٹریلین کیوبک فیٹ ہے۔ ایران سے براستہ پاکستان چین کو تیل و گیس کی فراہمی کے لیے پائپ لائنز کی تعمیر کا منصوبہ بھی زیر غور ہے تاہم اسے عملی صورت دینے میں شاید ایک یا دو دہائیاں لگ جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تمام صورتحال میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ چین، روس، پاکستان اور ایران کوایک بلاک میں جمع ہونا ہوگا۔ چین کے لیے درآمدات و برآمدات کا ایک ایسا راستہ جو امریکی فوجی خطرے سے پاک ہو، سوائے پاکستان کے اور کوئی نہیں اور اس راستے میں پریشانی پیدا کرنے کے تمام ممکنہ ذرائع بھی کسی کی نظر سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جس طرح پاکستان چینی اورروسی کیمپ کی جانب بڑھ رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بھارت امریکی کیمپ میں داخل ہو چکا ہے۔ امریکا اور بھارت، پاکستان اور افغانستان کو پر امن رکھنے کی ہر راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور ڈالتے رہیں گے خواہ اس کے لیے انہیں افغانستان میں داعش کو اتارنا پڑے یا پاکستان میں نام نہاد قوم پرستوں کو استعمال کرنا پڑے، جیسا کہ اب کیا بھی جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں مسلکی تنازعات کو ہوا دے کر پاکستان اور ایران تعلقات میں رخنہ اندازی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تاہم سی پیک کے معاشی فوائد کے علاوہ ایک غیر متوقع فائدہ یہ ہوگا کہ ایک جانب مسلکی سیاست اور اس کے نام پر قتل و غارت سے ملک پاک ہوگا تو دوسری جانب نام نہاد قوم پرستی کے تابوت میں بھی آخری کیل ٹھونک دی جائے گی۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سی پیک کا ایک غیر متوقع فائدہ

Leave a Reply