اٹھارہ بیس سال قبل کی بات ہے، کراچی میں ہمارے گھر سے تین چار گلیوں کے فاصلے پر جب فاطمہ جناح ڈینٹل کالج کورنگی کریک کی بلڈنگ بن رہی تھی تو اس وقت عمارتی سامان کی حفاظت کے لئے ایک بوڑھا افغانی چوکیدار وہاں موجود رہتا تھا۔ سن رسیدہ بھاری بھر کم، کندھا ایک طرف جھکائے، واسکٹ اور پشاوری ٹوپی پہنے وہ نامکمل عمارت کے جنگلے نما دروازے کے اندرونی جانب چارپائی پر بیٹھا رہتا تھا۔
ہم سکول سے گھر پہنچتے تو اسی وقت یا کچھ دیر بعد دروازہ بجتا اور وہ “اماں” کے لفظ کے ساتھ کچھ صدا لگاتا۔ الفاظ سمجھ تو نہیں آتے تھے لیکن ہم سب اس وقت نقل خوب اتار لیتے تھے۔
اس صدا کا مطلب یہ تھا کہ اسے ایک روٹی چاہیے۔ لیکن اس بوڑھے چوکیدار کی یہ عادت عجیب تھی وہ صرف ایک صدا لگاتا، تھوڑا انتظار کرتا، صرف ایک روٹی لیتا اور واپس چلا جاتا۔ نہ دروازہ کھٹکھٹاتا اور نہ کبھی دوبارہ آواز دیتا۔ اگر ذرا سی بھی دیر ہوتی تو واپس چلا جاتا۔ اگر کبھی روٹی پکنے میں ٹائم ہوتا یا چاول پکے ہوتے تو بھی چلا جاتا۔ اس کا انحصار تو ایک روٹی پر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کو روٹی کی فراہمی ہماری روٹین بن گئی۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور کب تک جاری رہا۔ جس دن وہ نہ آتا تو دوپہر کو کھانے پر اس کی نقل اتار کر کہتے روٹی والا بابا نہیں آیا۔ وہ گھر کا فرد ایسا بنا کہ بازار سے روٹی یا نان منگواتے تب بھی اس کا ایک حصہ ہوتا۔ تندور سے روٹی لگوانے کے لئے پیڑے لے کے جاتے تب بھی ایک اس کا لازمی ہوتا۔
ہمیں یہ لگتا تھا کہ وہ کئی گھروں سے روٹیاں لے لیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ لیکن ایک بار ذرا سی دیر ہوئی تو وہ چلا گیا۔ جب امی نے جلدی سے پہلی روٹی ہی دے کر اس کی طرف دوڑایا تو سڑک پر اسے آواز دیتا بھاگا۔ لیکن وہ شاید اونچا سنتا تھا۔ ایک ہاتھ میں خالی پلیٹ لٹکائے وہ شکستہ پا دھیرے دھیرے چلا جا رہا تھا۔ اس دن معلوم ہوا کہ اس نے بھی صرف ہمارے گھر کا انتخاب کیا ہوا تھا۔ ہسپتال کی عمارت کے قریب پہنچ کر کہا کہ بابا ڈوڈے۔ یہی ایک لفظ معلوم تھا کہ روٹی کو کہتے ہیں۔ جب اپنی پلیٹ سے اس کی پلیٹ میں روٹی ڈالی تو اس باریش بزرگ کی موتیا اتری آنکھوں میں پیدا ہوئی چمک اس کی بھوک کی شدت کا بتا گئی۔ شاید یہی ایک روٹی اس کے دن کی غذا تھی۔
یہ واقعہ ذہن کے کسی کونے میں اسی طرح محفوظ ہے۔ لیکن آج بھی سبق دیتا ہے کہ رازق تو خدا کی ذات ہے۔ اگر وسیلہ بنایا ہے تو اس کی مہربانی اور انعام ہے اور انسان کو کھانے اور دنیا کی طلب مجبوراً ہی سہی لیکن صرف یہی ہونی چاہیے کہ مل گیا تو ٹھیک ورنہ صبر سے واپس ہو لئے۔
لذیذ و شہیہ طعام پیٹ بھرنے کے ساتھ نیکی کی لذت کا احساس ختم کر دیتے ہیں۔ ایک مجبور بزرگ کی خاموش صداؤں پر رازق خدا کئی سال اسے کھانا کھلاتا رہا۔ بچپن میں تو ہم اس غریب کو مفت روٹی دینے کے لئے خود کو خوش قسمت اور امیر سمجھتے رہے لیکن ہوش میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ غریب تو پارس تھا جو دوسروں کو دل کا امیر بنانا چاہتا تھا۔
اب معلوم ہوا کہ معمولی آسائش کے لئے بھی دن رات محنت اور نیند قربان کرنی پڑتی ہے اور اس ایک وقت کی ایک روٹی کو جوڑنے کے لئے کیا کیا بیل جوتنے پڑتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ اس بزرگ کی ایک وقت کی ایک روٹی کا اس کو ایسے میسر آنا اس کی کتنی دعاؤں کا ثمر ہوگا اور نہ ملنا اس کا امتحان اور اس ایک بشر کی ایسی خدمت کے لئے پوری دنیا میں سے ہمارا انتخاب خدائے ذوالمنن کا ہم پر احسان۔
پھر ہسپتال کی عمارت مکمل ہو گئی اور چوکیدار کے بدلے سکیورٹی گارڈز آ گئے۔ اور ہمیں زندگی کے اسباق پڑھانے کے بعد خدا کسی اور کی آزمائش کے لئے اس بوڑھے چوکیدار کو کہیں اور لے گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں