• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • گائے کا بھلا ہوگا تبھی دیش کا بھلا ہوگا،مسلمان کی ضمانت مسترد: بھارتی ہائیکورٹ کی منطق

گائے کا بھلا ہوگا تبھی دیش کا بھلا ہوگا،مسلمان کی ضمانت مسترد: بھارتی ہائیکورٹ کی منطق

نئی دہلی: بھارت کی ہائی کورٹ نے انسداد گاؤ کشی قانون کے تحت گرفتار مسلمان کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ گائے بھارتی کلچر کا حصہ ہے لہذا اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔

بھارت کے مؤقر اخبار اور نشریاتی اداروں دی ٹائمز آف انڈیا، این ڈی ٹی وی، ڈی ڈبلیو اورانڈیا ٹوڈے کی رپورٹس کے مطابق فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ نے دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے گاؤ کشی کے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت کرنے والی مرکز کی مودی حکومت سے کہا کہ گائے کے تحفظ کا قانون پارلیمان میں لائے جس میں گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرار دیا جائے۔

رپورٹس کے مطابق جسٹس شیکھر کمار یادو نے 12 صفحات پر مشتمل اپنے حکمنامے میں کہا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرارد یا جائے کیونکہ جب ملک کے کلچر اور آستھا کوچوٹ پہنچتی ہے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے۔ انہوں نے عجیب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب گائے کا بھلا ہوگا تبھی دیش کا بھلا ہوگا۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے گائے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت بھی بیان کی۔ انہوں ںے اپنے فیصلے میں لکھا کہ گائے کے دودھ، دہی، مکھن، پیشاب اور گوبر پانچ چیزوں سے تیار ہونے والی پنچ کا ویم کئی بیماریوں کے علاج میں مفید ہے۔

انہوں ں نے اپنے فیصلے میں مؤقف اختیار کیا کہ ہندو دھرم کے مطابق گائے میں 33 دیوی اور دیوتاؤں کا واس (قیام) ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوے کی تائید میں ہندووں کی مقدس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گائے کا ذکر وید میں بھی ہے جو کہ ہزاروں برس پرانی ہے۔

جسٹس یادو نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے تاہم اس حوالے سے انہوں ںے کوئی سائنسی بنیاد نہیں بتائی اور نہ ہی کوئی ثبوت فراہم کیا۔

ہائی کورٹ کے جج جسٹس یادو نے کہا کہ صرف ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی بھارتی کلچر میں گائے کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور بابر، اکبر اور ہمایوں جیسے بادشاہوں نے تہواروں کے موقع پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

جسٹس یادو نے اپنے فیصلے میں نصیحت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ گائے کا گوشت کھانا کبھی بھی بنیادی حق نہیں رہا ہے۔ انہوں ںے کہا کہ بنیادی حق صرف ان کے لیے خصوصی مراعات نہیں ہے جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ ان کے لیے بھی ہے جن کی آمدنی کا ذریعہ گائے ہے اور جو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔

جسٹس یادو نے کہا کہ بھارت کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ لوگ کس طرح بھارتی کلچر اور گائے کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ گائے کا تحفظ بھارتی کلچر کے مترادف ہے اور یہ کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذاہب سے بالا تر ہوکر گائے کی حفاظت کرنی چاہیے۔

جسٹس یادو نے گائے کے تحفظ کے معاملے کو طالبان سے بھی جوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم نے اپنے کلچر کو بھلایا تو غیر ملکیوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہمیں غلام بنالیا۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج بھی ہم چوکنا نہیں ہوئے تو طالبان کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہمیں اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

جسٹس یادو جس کیس کی سماعت کررہے تھے اس کا تعلق اترپردیش میں جاوید نامی ایک شخص سے ہے۔ جاوید پراترپردیش ذبیحہ گاؤ قانون کے تحت کیس دائر کیا گیا تھا۔ وہ گزشتہ آٹھ مارچ سے جیل میں بند ہیں۔

اس ضمن میں جاوید کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف پولیس کی ملی بھگت سے جھوٹا کیس دائر کیا گیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ وہ اس جگہ موجود بھی نہیں تھے جہاں مبینہ طورپر گائے ذبح کی گئی تھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے جاوید کے دلائل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں وہ قصور وار نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جسٹس شیکھر کمار یادو   سے کہا کہ اگر اسے ضمانت پر رہا کردیا گیا تووہ پھر یہی جرم کرے گا اور سماج میں کشیدگی پیدا ہوگی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply