تنازہ ڈیم۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

دریائے سواں، پانچ دریاؤں کے بعد پنجاب کا چھٹا بڑا اور پوٹھوہار کا اہم ترین دریا ہے۔ یہ مری کی پہاڑیوں سے شروع ہو کر اسلام آباد، راولپنڈی، چکوال اٹک اور میانوالی کے اضلاع سے ہوتا ہوا کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ گرنے سے پہلے بہت سی ندیاں اور نالے خود کو اس کے سپرد کر دیتے ہیں ،جو پوٹھوہار کے علاقے کی خوبصورتی اور اہمیت میں اضافے کا باعث ہیں۔

پوٹھوہار کے علاقوں خصوصاً اٹک اور چکوال کے اضلاع میں بہت سے بڑے نالوں اور معاون دریاؤں پر بند باندھے گئے ہیں۔ جن سے حاصل شدہ پانی پینے اور محدود پیمانے پر زراعت کے لیے  کام میں لایا جاتا ہے۔ ان بندوں کے آبی ذخیروں کو ڈیم کہا جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کے سیاحتی ادارے ٹی ڈی سی پی
Tourism Development Corporation Punjab
نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ان ڈیموں اور جھیلوں پر چھوٹے چھوٹے ریزوٹ بنا کر یہاں کشتی رانی اور دیگر واٹر سپورٹس کی سہولیات مہیا کرنا شروع کر دی ہیں، جس سے ان علاقوں کی سیاحت میں نہ صرف قابل ِ قدر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔

تنازہ ڈیم ایسا ہی ایک بند ہے جو اٹک کی تحصیل فتح جنگ کے جنوب میں رتوال کے پاس واقع ہے۔ یہ ضلع اٹک کے نالے سِل کی ایک معاون ندی پر بنایا گیا ہے، جو آگے جا کر  دریائے سواں میں مل جاتا ہے ۔
2016 میں جب اس جگہ کا سفر کیا تو مرکزی سڑک پر ”تنازع  ڈیم” کا بورڈ لگا دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں کون سا تنازع  ہوا تھا جس کی یاد میں یہ ڈیم تعمیر کیا گیا ہے؟، یہ بھید بعد میں کھلا۔
شہر کے شور شرابے سے دور یہ بند سطح مرتفع پوٹھوہار کی پہاڑیوں میں گِھرا ہوا ہے۔ اس کے پاس واقع مختلف اشکال کی چٹانیں اسے اور دلکش و خوبصورت بناتی ہیں ۔

ڈیم کے کنارے لگے کتبے کے مطابق اس بند کا افتتاح اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان، ”جناب ملک امیر محمد خان” نے نومبر 1964 کو کیا۔ اوپر زرعی ترقیاتی کارپوریشن مغربی پاکستان کا نشان یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ بند زراعت کے لیئے بنایا گیا ہے۔

اس کتبے پر ڈیم کا نام تنازا لکھا ہوا ہے۔ اس بات کی حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ کتبے پر نام ”تنازا” لکھا ہونے کے باوجود اس علاقے میں جگہ جگہ اسے ”تنازع ” لکھا گیا ہے۔ کیا ہم لوگ اردو سے اتنے نابلد ہیں ؟ کیا ہمارے حکومتی اداروں اور نیشنل ہائی وے والوں کو تنازع  کا مطلب بھی نہیں پتا؟

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال چھوٹا بند ہونے کے باوجود آس پاس کے علاقوں کے لیے یہ جگہ ایک بہترین پکنک سپاٹ ہے۔ خصوصاً اسلام آباد و پنڈی کے لوگ اتوار کے روز یہاں سیر و تفریح کے لیے آ سکتے ہیں اور آتے بھی ہیں۔ یہ جگہ پنڈی سے کوئی سوا گھنٹے کے فاصلے پر ہے جبکہ لاہور سے جانے والے چکری انٹر چینج سے یہاں جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply