ہیں تو بڑے نیک بخت۔۔آصف محمود

برطانوی وزارت دفاع کے جونیئر وزیر جیمز ہیپی نے کہا :کابل ائر پورٹ پر حملہ ہو سکتا ہے، اگلے ہی روز کابل ایئر پورٹ پر حملہ ہو گیا۔ جب انہوں نے حملے کی بات کی تو سکائی نیوز کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ حملہ اگلے چند روز میں ہو گا؟ ان کا جواب تھا کہ جی ہاں یہ اگلے چند دنوں میں متوقع ہے۔ سوال یہ ہے کہ جیمز ہیپی اور جو بائیڈن کو کیسے پتا چل گیا کہ اگلے چند دنوں میں کابل میں حملہ ہونے والا ہے؟ یہ یقین اور یہ اعتماد ؟ یہ محض اتفاق ہے یا اسے حسن اتفاق کہا جائے؟ یہی بات چند دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن بھی کہہ چکے ہیں۔ حیرت ہے کہ افغانستان میں پتا بھی گرتا ہے تو الزام پاکستان پر آتا ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ داعش کے ساتھ امریکہ کے تعلق کی نوعیت کیا ہے اور افغانستان میں گیم کھیلی جا رہی ہے یا ڈبل گیم؟ کابل میں دھماکہ چونکہ حامد کرزئی انٹر نیشنل ائر پورٹ پر ہوا ہے تو سب سے پہلے حامد کرزئی صاحب ہی کا موقف جان لیتے ہیں ۔حامد کرزئی ایک سے زیادہ مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں داعش امریکی سرپرستی میں کام کر رہی ہے ، اسے لانے والا اور اس کی معاونت کرنے والا امریکہ ہے۔حامد کرزئی کا موقف اس معاملے میںکسی وعدہ معاف گواہ کا بیان نہ بھی ہو تو سارے معاملے سے آگہی رکھنے والے ایک واقف حال کا بیان ضرور ہے۔ 2017 میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حامد کرزئی کہتے ہیں: ’’ میرے نزدیک امریکہ اور داعش میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امریکہ داعش کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘‘۔ اسی سال الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا : ’’ امریکی حکومت نے داعش کو افغانستان میں آنے ، قدم جمانے اور پھلنے پھولنے کی آزادی دے رکھی ہے‘‘۔ سکائی نیو ز کو جولائی 2021 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں حامد کرزئی نے کہا کہ امریکی فوج کی موجودگی کی وجہ سے افغانستان میں داعش اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ وائس آف امریکہ اور الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویوز آج بھی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور سکائی نیوز کو دیاگیا انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے اور اسے 58 ہزار سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ دوسری گواہی بھارت سے آئی ہے۔دی اکنامک ٹائمز بھارت کا پڑھا جانے والا اخبار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لاس اینجلس ٹائمز کے بعد یہ دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا انگریزی اخبار ہے۔اس میں 22 اپریل 2019 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ امریکی افواج نے مبینہ طور پر داعش کو شام اور عراق سے افغانستان آنے کی آزادی اور اجازت دے رکھی ہے‘‘۔ اکنامک ٹائمز کے مطابق الزامات یہ ہیں کہ شام اور عراق سے داعش نہ صرف خود افغانستان آ رہی ہے بلکہ اسلحہ سمیت آ رہی ہے اور یہ اسلحہ چوری چوری کسی خفیہ راستے سے نہیں، بلکہ آزادنہ طور پر ہیلی کاپٹرز میں لایا جاتا ہے اور افغانستان کی فضائوں پر نیٹو اور امریکہ کی حکمرانی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نہیں روکا جاتا ۔جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج اس سارے عمل میں خود شریک ہیں اور یہ ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ آگے چلیے ، ذرا روس کا موقف بھی جان لیجیے۔روس کا یہ کہنا ہے کہ داعش افغانستان میں منظم ہو رہی ہے اور اس کے ہزاروں مسلح جنگجو یہاں موجود ہیں اور امریکہ اور نیٹو ان سے کوئی تعرض نہیں کر رہا۔ امریکہ نے اگر چہ روس کے اس موقف کی تردید کی لیکن زمینی حقائق بہر حال تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر بضد ہیں۔داعش کا یہی خطرہ تھا جو روس کو طالبان کے قریب لایا۔ اسی خطرے نے ایران کو مجبور کیا کہ وہ طالبان سے قربت اختیار کرے۔طالبان کے رویے میں فقہی اختلاف کے حوالے سے اگر کافی تبدیلی نظر آ رہی ہے اور دیگر گروہوں کے لیے اس دفعہ گنجائش محسوس ہو رہی ہے تو اس کی ایک وجہ ایران اور طالبان کی قربت بھی ہے۔ اس قربت کی شان نزول داعش اور امریکہ کو قرار دیا جا رہا ہے۔تیئس سال پہلے تو یہ عالم تھا کہ مزار شریف میں ایرانی سفارتکار مارے گئے تو ایران نے طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور آج یہ عالم ہے کہ کہا جا رہا ہے ایران نے اپنے میڈیا سے کہا ہے طالبان کے بارے میں ذرا ’’ ہاتھ ہولا ‘‘ رکھا جائے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ چین بھی داعش سے پریشان ہے اور اس کے مقابلے میں طالبان کو بہتر آپشن سمجھتا ہے۔ اس خطے میں داعش کی موجودگی سے خطے کا کوئی بھی ملک خوش نہیں ۔وال سٹریٹ جرنل کے مطابق روس ایران اور چین تینوں کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان ہی استحکام لا سکتے ہیں اور داعش کے چیلنج سے نبٹ سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ داعش کے مدد گار اور سہولت کار کے طور پر سب کی انگلیاں بھی ایک ہی ملک کی طرف اٹھ رہی ہیں۔اور وہ امریکہ ہے۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی کی انگلی بھی مسلسل امریکہ کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ حیران کن طور پر پورے کابل میں داعش کو کارروائی کے لیے ایئر پورٹ ہی ملتا ہے جہاں ابھی تک امریکی عملداری جزوی طور پر قائم ہے۔ اور پھر اس کارروائی کا مغربی عمائدین کو وقت سے پہلے علم بھی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک لڑکی گھر سے بھاگ گئی تو اس کے اہل خانہ کہنے لگے بھاگ تو گئی ہے پر تھی بڑی نیک بخت ، پہنچی ہوئی بزرگ ۔کل رات ہی کہہ رہی تھی کہ صبح گھر کا ایک بندہ کم ہو گا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ جو بائڈن صاحب اور جیمز ہیپی صاحب افغانستان سے نکل تو گئے ہیں لیکن ہیں یہ بھی بڑے نیک بخت اور پہنچے ہوئے بزرگ ، انہیں پہلے ہی پتا تھا کابل ایئر پورٹ پر حملہ ہونے والا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply