گھریلو تشدد اور خوتین۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

فائنل ائیر کا آخری کلاس ٹور تھا، ہم شاران سے واپس آ رہے تھے، چکری قیام و طعام پر ہم کھانے کے لیے رکے، ابھی ہم دوبارہ اپنی کوسٹر پر بیٹھنے ہی لگے تھے، میں نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑنے لگے (بھائی محسوس ہوتے تھے)،پھر جس کو مار پڑ رہی تھی، اس نے لڑائی ختم ہونے کے بعد سب کے سامنے اپنی ہی بیوی کو مارنا شروع کر دیا، یہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا، میری یہ حالت میرا دوست اسداللہ بھانپ گیا، اس نے مجھے حوصلہ دیا۔ ہمارے گھر میں جو کام کرتی تھی، اسکا شوہر بھی اسے تشدد کا نشانہ بناتا تھا/ہے۔

میں ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہوں کہ فلاں شوہر نے اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا، سوشل میڈیا پر بھی ایسے واقعات کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ابھی مجھے کل ہی ایک ایسے نئے واقعہ کا پتا چلا تو میں چکرا کر رہ گیا۔

میری زاتی رائے میں جو لوگ اپنی بیویوں پر تشدد کرتے ہیں وہ زیادہ تر احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اپنے برے دن، آفس کا غصہ، باس سے پڑی ڈانٹ کا سارا زور اپنی بیوی پر نکالتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ گھروں میں ساسیں اپنی بہوؤں کے خلاف اپنے بیٹوں کے کان بھرتی ہیں، انہیں انکے خلاف  بُرے سلوک پر اُکساتی   ہیں (بےشک آپکو برا لگے لیکن ایسا ہوتا ہے)، یہاں سے تشدد کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

ماضی قریب کا ایک   واقعہ ہے، میں فیصل آباد کے ایک مشہور سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت کو دو عورتیں پکڑ کر لا رہی ہیں، اس عورت سے چلا بھی بڑی مشکل سے جا رہا تھا، پوچھنے پر پتا چلا کہ کہ شوہر اکثر تشدد کا نشانہ بناتا ہے، آج بھی بہت مارا ہے، میں نے جلدی دوائی لکھ کر دی، نرس کو کہا کہ اسے جلدی انجکشن لگائیں، اور ساتھ ہی اسے پولیس کاؤنٹر کی راہ دکھائی ۔ اسکے ساتھ آئی عورت بولی”ہم آج یہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہت ہو گیا، اب ہم نے پولیس کو رپورٹ درج کروانی ہی ہے، میں نے انکے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی۔

ایک دو دفعہ ایسی متاثرہ عورتوں سے میں نے پوچھا کہ آپ کیوں مار سہتی رہتی ہیں؟؟ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں، آگے سے بولیں کہ “ڈاکٹر صاحب! گھر والے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے رشتے میں اونچ نیچ ہو ہی جاتی ہے، برداشت کرنا عورت کی ذمہ داری ہے، تو ہم کس طرح انکے پاس رہ لیں”؟؟ یہی وہ سوچ ہے جو اس عمل کو بڑھاوا دے رہی ہیں ۔

ایک غلط بات جو ہمارے درمیان رچ بس گئی ہے کہ کمپرومائز کرنا عورت کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگر میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، تو اگر ایک پہیہ خراب ہے تو بجائے اس خراب پہیے کو ٹھیک کرنے کے، ہم صیح پہیے کو ہی کیوں خراب کرنے پر تلے ہیں؟؟ کمپرومائز ہمیشہ عورت ہی کیوں کرے؟؟ ایک تو اس پر ظلم ہو رہا، اور ساتھ ہی ہم اسے “کمپرومائز ” اور “گھر بچانے ” کے نام پر یہ ظلم برداشت کرنے کا درس بھی دے  رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنے مردوں کو کمپرومائز کا نہیں کہہ سکتے ۔؟

ہر حکومت یہی لالی پاپ دیتی ہے کہ خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں، نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد کروانا کس کی ذمہ داری ہے؟؟ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا کے اس دور میں بھی ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی ۔ اگر اس ظلم کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی احتجاج کرے تو ہم ان پر “لبرل” اور امریکی فنڈنگ کا الزام لگا دیتے ہیں، اور یہ کہتے  ہیں کہ یہ لوگ ہمارے گھریلو نظام کو تباہ کر رہے ہیں، کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ ہمارا گھریلو نظام تو تباہ و برباد ہو چکا ہے، اب بس دفنانا باقی ہے ۔

گھریلو تشدد   صرف جسمانی تشدد کا نام نہیں، اس میں ذہنی تشدد بھی شامل ہے۔ اپنی بیوی کو گالیاں دینا، اسکو اپنی نوکرانی سمجھنا، اس پر اپنی مردانگی دکھانا بھی گھریلو تشدد میں ہی شامل ہے، اگر ذہنی تشدد کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ لیکن اس اندھیر نگری میں جسمانی تشدد کے مجرموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ذہنی تشدد کو کون پوچھے گا؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار  اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے، گھریلو تشدد مقدمات کے لیے علیحدہ کورٹس تشکیل دی جانی چاہیے تاکہ ایسے مقدمات کا جلدی فیصلہ ہو اور ملزموں کو فوری سزا دی جائے تو تبھی اس طرح کے واقعات میں کمی آ سکتی ہے۔ ساتھ ہی متاثرہ خواتین کے لیے رییلیٹیشن سینٹر کھولے جائیں جہاں ان کی کونسلنگ کی جائے اور کارآمد شہری بنایا جائے ۔ ایسی خواتین کو ہنر بھی سکھائیں جائیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو سکیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں والدین سے گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں کو ایسے وحشی درندوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ہرگز نہ کہیں، انہیں “رشتے بچانے کے نام پر ” تشدد سہنے کی ترغیب مت دیں۔ آپ کی زندہ بیٹی، تشدد سے مری بیٹی سے بہتر ہے۔ انہیں   بتائیے کہ ہم نے ایک انسان کیساتھ تمہاری شادی کی تھی، اگر وہ جانور نکل آئے تو اس کے ساتھ رہنے کی غلطی مت کرنا، واپس اپنے گھر لوٹ آنا، تمہارے والدین کے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے  ہیں ۔ اپنی بیٹیوں کو صحیح معنی میں تحفظ دیجیے، کل کو یہی آپکا سہارا بنیں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply