• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امریکہ میں کمسنی کی شادی کیخلاف آواز اٹھانے والی پاکستانی نائلہ امین۔۔منصور ندیم

امریکہ میں کمسنی کی شادی کیخلاف آواز اٹھانے والی پاکستانی نائلہ امین۔۔منصور ندیم

امریکا کی ریاست نیو یارک New York Estate میں کم سنی میں لڑکیوں کی شادی Child Bride کے خلاف قانون بن گیا ہے، سنہء ۲۰۱۷ میں پیش کئے جانے والی قرارداد کو بالآخر نیویارک کے گورنر  نے بحیثیت قانون اسی ہفتے منظور کیا ہے، جس کے بعد اب نیو یارک اسٹیٹ میں شادی کی کم سے کم عمر ۱۸ سال کردی گئی ہے، اس قانون کا نام “Naila’s Law” ہے، جو آنے والے ہفتے کے دن سے پوری اسٹیٹ میں قابل نفاذ ہوگا۔   اس قانون کی وجہ بننی والی اکتیس سالہ خاتون نائلہ امین کا تعلق پاکستان سے ہے، جو امریکا میں چائلڈ میرج کے خلاف کام کررہی ہیں۔ یہ پاکستان کے لئے بہرحال ایک اعزاز ہے۔

اور حقیقت تو یہ ہے کہ جب زندگی میں دکھوں کے پہاڑ آتے ہیں تو کچھ لوگ اپنے دکھوں کے پہاڑ کا بوجھ تو اٹھا ہی لیتے ہیں ، مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان دکھوں کے پہاڑوں کے وزن کی تکلیف کے احساس کو جان کر دوسروں کے لئے ان دکھوں کے پہاڑوں کا وزن کم کرنے کا عزم کرتے ہیں، نائلہ امین بھی ایسے ہی ایک کرب سے گزری تھیں، اسی احساس نے انہیں اس تحریک کا مرکزی کردار بنا دیا کہ آج ان کی بہترین کاوشوں کی وجہ سے امریکا کی نیویارک اسٹیٹ میں یہ بل منظور ہوا۔ اور ان کی کئی برسوں کی محنت نے کامیابی کے قدم چومے ہیں۔

نائلہ امین کا اس جدوجہد کے واقعے کا آغاز ان کی اپنی تلخ زندگی سے ہے جب وہ آج سے قریب ۱۸ برس پہلے امریکا سے اپنے والدین کے ساتھ اپنی ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں اپنے آبائی وطن پاکستان آئی تھیں اور اس وقت ان کی عمر صرف ۱۳ سال تھی، اور پاکستان پہنچ کر نائلہ امین کو بتایا گیا کہ جب وہ آٹھ سال کی تھی تو اس کے والدین نے اس کا رشتہ اس کے ایک کزن سے کردیا تھا۔ اور پھر نائلہ امین کی شادی پاکستان میں ان کے ۲۱ سالہ کزن سے کردی گئی جب نائلہ کی عمر ۱۳ سال تھی اور یہ شادی مقامی سطح پر صرف مقامی افراد نے کروائی تھی، اسی لئے اس شادی کا کوئی سرکاری نکاح نامہ بھی موجود نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی بھی جگہ اس کا اندراج کروایا گیا تھا, یہ کم عمری کی شادی جہاں نائلہ امین کے لئے کئی دوسرے مصائب کا سبب بنی وہیں شادی کے شدید ڈیپریشن اور خوف   کی علامت  بن گئی، کیونکہ شادی کے بعد نائلہ امین کا شوہر ان سے مار پیٹ کرتا تھا۔ یہ سلسلہ دو سال ایسے ہی رہا پھر نائلہ امین نے اپنے ایک رشتے دار کی مدد سے امریکی سفارتخانے کی مدد حاصل کی اور نیویارک واپس آئیں اور اور قانونی طریقے سے علیحدگی حاصل کی۔

نائلہ امین نے علیحدگی کے بعد اپنے ساتھ بیتنے والی زندگی کے مسائل کو مدنظر رکھ کر امریکہ میں ہی کم عمری میں ہونے والی شادیوں Child Marriages کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی، آج نائلہ امین امریکہ میں ’نائلہ امین فاؤنڈیشن‘ Naila Amin Foundation کے نام سے ایک ادارہ چلارہی ہیں جو ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جن کی شادی کم عمری میں ہوئی ہو اور وہ مصائب کا شکار ہیں۔ باوجود ایک اسٹیٹ میں یہ انتہائی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اس وقت بھی امریکا میں چوالیس ریاستیں ایسی ہیں جہاں ۱۸ سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو شادی کی اجازت حاصل ہے۔ اور نائلہ امین پُر امید ہیں کہ نیویارک صرف ایک شروعات تھی اب ان کا مقصد امریکہ کی تمام ریاستوں میں کم عمری کی شادیوں پر پابندی لگوانا ہے۔

صرف لاطینی امریکا اور کیریبین Latin America and Caribbean میں ہر چار میں سے ایک خاتون کی شادی ۱۸ برس سے کم عمر میں ہوتی ہے، اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادی کی شرح کے ممالک میں افریقی ممالک شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادی کی شرح میں افریقی ملک نائجیریا کا پہلا نمبر ہے، سنہء ۲۰۲۰ تک میں صرف برصغیر ایشیاء میں اندازاً ۲۸۵ ملین لڑکیاں جو شادی شدہ ہیں ان کی عمریں ۱۸ برس سے کم ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ تعداد ۵۹٪ کی تعداد بنگلہ دیش سے ہے، ۲۷٪ کی تعداد انڈیا اور ۱۹٪ کی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔

یونیسف UNICEF اور Women’s Refuge Commission کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی ان کے گھر والوں کے خیال کے مطابق معاشی اور سماجی اخلاقیات اور تحفظ کی ضمانت سمجھیں جاتی ہے۔ ایک بین الاقوامی گروپ “سی سی آر” (CCR) کی گذشتہ سال ستمبر میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق “پاکستان دنیا کا چھٹا ایسا ملک ہے جہاں کم عمر بچیوں کی شادیوں کا رواج ہے۔ پاکستان میں ۲۱ فیصد بچیوں کی شادیاں ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: انگریزی جرائد کے حوالہ جات سے لکھا گیا مضمون۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply