بچت کا طریقہ۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

دس روپے میں سے اگر آپ کا ایک روپیہ ادھر ادھر ہو جائے یعنی ڈھونڈے سے نہ ملے تو آپ بخوبی دس روپے کی جگہ 9 روپے میں کام چلا لیں گے۔ اس لئے اگر آپ دیکھیں تو دس فی صد بچت بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔

دوسرا اس سے بھی کامیاب طریقہ ایک محنتی، ایماندار و غریب حوالدار سے سیکھا جن کے دس بچے الحمدللہ حیات ہیں جن میں سے سات یا آٹھ بیٹیاں ہیں۔ حوالدار مرحوم تنخواہ ملتے ہی جو شائد اس دور میں پندرہ سو یا پچیس سو روپے ماہانہ ہوتی تھی، اس میں سے دس فی صد روپے گن کر الگ کر کے اللہ کی راہ میں کسی مستحق گھرانے کو دے دیتے۔ کسی غریب کی مدد کر دیتے۔ میں نے بڑی حیرانگی سے ان سے پوچھا جناب آپ کا گزارا کیسے ہوتا ہے؟

حوالدار صاحب (جو مجھے ولیِ کامل لگتے تھے)، نے کمال شفقت سے جواب دیا، “میرے بچے اگر میرا سو روپے میں گزارا ہو سکتا ہے تو 90 روپے میں بھی ہو جائے گا۔ اور گزارے سب کے رب ہی کراتا ہے اور میں اپنے رب ساتھ تجارت کر کے کبھی گھاٹے میں نہیں رہا۔۔۔” ہمارے علم میں ہے کہ ان کے گھر میں بچے کاغذ کے لفافے بنا کر بھی دکانوں پر فروخت کرتے اور پڑھتے بھی ۔۔۔ اور بہت سے کام کئے اس خاندان نے مل جل کر ما شاء اللہ آج ان کی ایک بیٹی 17th گریڈ میں جاب کر رہی یے اور ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور کسی لیبارٹری میں جاب کرتی ہیں۔ ایک بیٹا فوج میں اور ایک اٹامک انرجی میں ۔۔۔۔ باقی تفصیلات نہیں پتا لیکن رب کے ساتھ کی تجارت کا پھل ان حوالدار صاحب مرحوم کو اس دنیا میں بھی مل گیا اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ مل جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس نوشت:
حوالدار صاحب کو فوج نے بعدازاں صوبیدار بنا دیا تھا۔
حوالدار صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بہت محنت سے اپنا کاروبار اور اللہ کریم سے تجارت کرتے رہے اور الحمدللہ اپنی حیاتی میں دو ذاتی مکان بنا کر بچوں کے لئے چھوڑ گے۔
اللہ کریم انہیں اور ان کی ولی صفت زوجہ مرحومہ کو غریق رحمت فرمائے اور ان دونوں کی کامل مغفرت فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی ترین مقام عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply