سفرِ عشق جاری ہے۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

مظلوم کی عظمت کے چرچے ہیں، دنیا بھر سے عشاق کے قافلے سوئے کربلا رواں دواں ہیں، وہ جسے دس محرم کو بے یار و مددگار سمجھ کر شہید کر دیا گیا تھا، جس کے قافلے کو لوٹ لیا گیا تھا، جس کے خاندان کو اسیر کر لیا گیا تھا، جس کے لاشے کو بے گوروکفن چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے سر مبارک کو تن سے جدا کر لیا گیا تھا، کربلا کی ریت جس کا کفن ٹھہری تھی، جس کی لاش پر خاندان پیغمبر کو رونے سے روکا گیا تھا، آج مشرق و مغرب سے قافلے سوئے کربلا روانہ ہیں، عشق کی آگ ہے جو دلوں میں لگی ہے، جو کربلائے جا رہے ہیں، وہ منزل وصال کو پہنچیں گے، کروڑوں انسان ہیں جو اپنے گھروں میں ہیں، جب کربلا کے مناظر کو دیکھتے ہیں تو عشق کی گرمی کو محسوس کرتے ہیں، خود کو اسی ہجوم میں پاتے ہیں۔ کربلا عشاق کا کعبہ ہے، ظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے، ظالموں کے لئے پیغام موت ہے۔ کربلا الٰہی پیغام کی بقا کی ضامن ہے، کربلا قرآن کی عظمتوں کا نشاں ہے، کربلا کا سردار وہ عاشق قرآن تھا کہ سر کٹ گیا تھا مگر نیزے کی نوک پر بھی تلاوت جاری تھی۔ دنیا بھر میں بھی جب جہاں بھی مظلوم ظالم کے خلاف قیام  کرتا ہے، اس سے اپنے حقوق چھینے کی بات کرتا ہے تو کربلا اس  کے لئے مشعل راہ ہے اور نشان منزل کی حیثیت رکھتی ہے۔

کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے شہید ہو جانے کی تحریک ہے، کربلا انسانی اقدار کی سربلندی کی تحریک ہے، کربلا صرف روایت نہیں، روایتیں ختم ہو جاتی ہیں، کربلا وہ وعدہ الٰہی ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔ حسینؑ نے کربلا کی تپتی ریت پر زخموں سے چور چور بدن کے ساتھ اپنا سر خالق کائنات کی بارگاہ میں جھکا کر کہا تھا “سبحان ربی الاعلیٰ” اب پروردگار اپنا وعدہ پوا فرما رہا ہے، حسینیتؑ کا عروج اس اعلان کا نتیجہ ہے، جو سیدہ زینب ؑ نے یزید کے دربار میں کیا تھا کہ اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد تو ہمارا ذکر ختم نہ کرسکے گا، وہ آواز جس نے یزید کے دربار کو ہلا دیا تھا، علیؑ کی شیر دل بیٹی کربلا کی شیر دل خاتون کی یہ آواز آج پورے عالم میں گونج رہی ہے۔ کربلا روایت نہیں ہے، کربلا تو انقلاب کی تحریک ہے، یہ کسی خاص طبقے کی تحریک نہیں، اس میں سیاہ فام غلام بھی ہیں، حبیب ابن مظاہر جیسے بزرگ صحابی بھی ہیں، اس میں حر جیسے توبہ کرنے والے بھی ہیں، عباسؑ و علی اکبرؑ جیسے جوان بھی ہیں۔ اس میں علی اصغر ؑ سے شیر خوار بھی ہیں اور کوئی بھی تحریک خواتین کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتی ہے، جس طرح ام المؤمنین ؑ حضرت خدیجہؑ ناصرۃ اسلام تھیں، اسی طرح ان کی نواسی سیدہ زینب ؑ ناصرہ حسینؑ و حسینت ہیں، بقائے اسلام کی اس تحریک کی محافظ ہیں، دس محرم کی شام کو شروع ہونے والی کربلا کی سالار ہیں۔ بقول علامہ اقبال
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حُسينؑ رقم کرد و دیگرے زينبؑ

یزیدیت کو میدان کارزار میں شکست حسینؑ نے دی اور اس شکست کا اعلان کبھی کوفہ کے بازاروں اور کبھی شام کے درباروں سیدۃ زینبؑ نے کیا۔ ان کے خطبات کو پڑھ کر مؤرخ ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے کہ اس طرح تو آقا اپنے غلاموں سے بات کرتا ہے، اس طرح تو فاتح مفتوح سے بات کرتا ہے، جس طرح حضرت امیر کے لہجے میں حضرت زینب ؑ نے خطاب کیا۔ کربلا پاکیزہ رشتوں کی امین ہے، یہاں اسلام نے رشتوں کو جو عظمت عطا کی ہے، وہ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ بہن اور بھائی کی محبت دیکھنی ہو تو امام حسینؑ اور سیدہ زینب ؑ کی محبت دیکھیں، بھائی بھائی کی محبت کو ملاحظہ کرنا ہو تو علمدار وفا سے سالار قافلہ عشق کی محبت دیکھیں، ہمشکل پیغمبر علی اکبرؑ اور عبادت گزاروں کے سید و سردار کی محبت کو ملاحظہ کریں۔ باپ بیٹی کی محبت دیکھنا ہو تو سوئے کربلا سیدہ سکینہؑ اور سیدنا امام حسینؑ کی محبت دیکھیں۔ اگر غلام اور آقا کا تعلق دیکھنا ہو تو کربلا کے جون اور  سردار کربلا کو دیکھیں۔ اگر صحابہ اور مولا کے تعلق کو دیکھنا ہو تو کربلا آو ایسے ساتھی کائیات میں کہیں نہیں ملیں گے۔ دشمن کے نرغے میں میں گھرا ہوا مولا چراغ بجھا دے، جنت کی ضمانت دے اور کہے چلے جاو، یہ میری جان کے دشمن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھی ایسے ہوں کہ تلوار گردن پر رکھ کر کہیں نواسہ پیغمبر حکم دیں، یہ تلواریں گردنوں پر چل جائیں اور کوئی کہے یہ تو ایک زندگی ہے اور اگر خدا ایک ہزار زندگیاں دے اور ہر بار آپ کی محبت میں قتل کیا جاوں، میری لاش کو جلایا جائے، جلی راکھ ہوا میں اڑا دی جائے، اس کے بعد بھی میں آپ پر ہی جان قربان کروں گا۔ انسانی رشتوں کی معراج کا نام کربلا ہے، کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے شہید ہونے کا نام ہے، کربلا انسانیت کی عظیم درسگاہ کا نام ہے، کربلا دائمی بقا کے لئے حکم مولا پر فنا ہونے کا نام ہے، کربلا خاندان پیغمبر کی عظمتوں کی امین ہے، کربلا عشاق کی منزل ہے، کربلا اسلام حقیقی کی ابدی بقا کی مسلسل تحریک ہے، کربلا عقیدتوں کا مرکز ہے، کربلا اہل محبت کا مرکز ہے، کربلا وہ چشمہ فیض ہے جس سے ہر انسان فیضیاب ہوتا ہے۔ آج بھی عشاق کے قافلوں کا رخ اسی سمت ہے، خوش نصیب ہیں وہ جو آج وہاں ہوں گے، برہنہ سر، برہنہ پا، سیاہ پوش لبیک یاحسینؑ، لبیک یاحسینؑ کی صدائیں دیتے ہوئے ان شاء اللہ ہم جیسے سیاہ کار بھی ایک دن پاکیزہ جذبات، پاکیزہ خیالات کے لوگوں کے ساتھ یہی صدا لگاتے ہوئے سوئے کربلا رواں دواں ہوں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply