سردار حسین بابک سے خصوصی انٹرویو

ضلع بونیر کے مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سردار حسین بابک اپنی حسین شخصیت، سیاسی کردار او ر مقبولیت کی بناء پر تیسری بار مسلسل خیبر پختونخوا  اسمبلی کے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ کے پی کے سابق وزیر تعلیم ہیں۔ اے این پی کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور موجودہ پختون خوا اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ پشتون سماج میں ان کی سیاسی سوچ، تجربے اور منطقی اپروچ کی بناء پر ان کے بیانات اور تقاریر  کو کافی کی اہمیت حاصل ہے۔ صوبائی، قومی اور عالمی امور پر واضح اور دو ٹوک مؤقف رکھتے ہیں۔ موجودہ افغان صورت کے تناظر میں مکالمہ کے لیے رشید یوسفزئی نے انکا اہم انٹریو کیا ہے۔

1- اس وقت افغانستان میں طالبان کی آمد اہم واقعہ ہے۔ کیا طالبان کا اس سرعت سے تمام افغانستان پہ قابض ہو جانا  آپ کے لیے حیرت کا باعث بنا؟ آپ کے خیال میں اسکی وجوہات کیا رہیں۔؟

افغانستان میں جو گیم کھیلی گئی،اس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جنگجو کس کی حمایت سے بیٹھے تھے اور کس کے مالی تعاون سے یہ سب کچھ کررہے تھے۔یہ باتیں سب پر واضح ہوچکی ہیں،لیکن اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں تھی،وجوہات اس کی یہ ہیں کہ امریکہ،پاکستان اور افغانستان سب ایک پیج پر ہیں،ایران،چین اور باقی تینوں پڑوسی ممالک کو ہم دیکھتے ہیں،افغانستان کی سیاست کو پچھلے اٹھارہ،بیس سال سے صرف کابل تک محدود رکھا ہوا تھا،اس کی وجوہات پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں،لیکن ایک ریاست پر قبضہ کرنے کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ہر ریاست کے عوام کا اپنی ریاست کیساتھ ایک عقیدت کا رشتہ ہوتا ہے جو کہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔اب افغانستان پر تو قبضہ ہوگیا لیکن طالبان کے لیے افغانستان کے عوام کے دل جیتنا ناممکن ہے۔کیونکہ   افغانستان کے عوام کی ریاست کیساتھ وابستگی دائمی ہے،اسے بندوق کے زور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔

2- طالبان اپنی سابقہ حکومت کے برعکس اس بار اپنا بہت سافٹ امیج پیش کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اس پہ یقین کر لینا چاہیے؟

اس دفعہ تو سارا فغانستان ان کے حوالے کردیا گیا ہے،انہیں انجینئرچاہیے،جج،بیوروکریٹ چاہیے،فورس چاہیے،ریاست چلانے کے لیے ایک مکمل نظام انہیں چاہیے،لیکن انہیں یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اتنا بڑا نظام انتظامی لوگوں کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا۔اس لیے دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ بار بار لوگوں سے درخواست کررہے ہیں کہ اس نظام کو چلانے میں اُن کے مددگار بنیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو یہ یقین کیسے دلائیں گے کہ اب یہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں،بلکہ بدل چکے ہیں۔اب بال انہی کی کورٹ میں ہے،اب دیکھنا ہوگا کہ یہ تعلیمی ادارے،صحافت اورآئین کیساتھ کیا کرتے ہیں،آئینی اداروں کیساتھ ان کا کیا طریقہ کار ہوگا،عوام نے آج تک انہیں جس روپ میں دیکھا ہے،اُن کے خیال میں یہ آج بھی وہی ہیں،لیکن اب یہ اقتدار میں ہیں،اور چاہیں تو خود کو تبدیل کرسکتے ہیں،انہیں دنیا کے نقشے میں رہنے کے لیے اپنا اخلاص اپنے عمل سے عوام پر ثابت کرنا ہوگا۔اور اس تبدیلی کا تاثر یہ عوام کو دے بھی رہے ہیں۔

3- کیا موجودہ صورتحال میں آپکو لگتا ہے کہ طالبان حکومت کو کامیابی سے چلا بھی پائیں گے؟

ہمارے یہاں پشتو کہاوت ہے کہ ہر شخص کو اُس کی صلاحیت کے مطابق کام سونپا جاتا ہے،اور یہ تو اب طالبان پر منحصر ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو وہ کس طرح اعتماد میں لیتے ہیں۔

4- طالبان پاکستان کے خلاف اے این پی کی بہت قربانیاں رہی ہیں۔ ورکر سے لے کر لیڈر تک شہید ہوئے۔ ایسے میں افغانستان میں طالبان کی آمد کو اے این پی کس نظر سے دیکھتی ہے؟

عوامی نیشنل پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور ہم نے مہذب،پارلیمانی اور سیاسی طریقے سے اقتدار میں آنے کا راستہ اپنایا ہے،اور یہ ہمارے بیانیے کا حصہ بھی ہے۔ ہم ہرریاست کے لیے عوام کی حکمرانی تجویز کرتے ہیں کیونکہ یہی پارلیمان طریقہ ہوتا ہے۔ ہرایک ریاست کو دنیا کی مختلف ریاستوں کو خودمختار بنانے میں اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ افغانستان کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا ہے،اس حوالے سے پڑوسی ممالک کے تاثرات انتہائی خطرناک ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی خطے میں اُس کی ریاست پر حملہ کرنا اُس کی خودمختاری پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ اگر خطے میں ایک ریاست پر حملہ ہوا ہے تو پڑوسی ریاستیں اس سے محفوظ رہیں گی۔یہ نظریات کی جنگ ہے،ہم یہ سمجھے ہیں کہ بندوق کی نوک پر یا دہشت یا وحشت کے ذریعے کسی ملک و قوم پر اپنا نظریہ مسلط کرنا انسانی اُصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

5- اے این پی نے ہمیشہ سرحد کے آر پار پشتونوں کی بات کی ہے۔ تو پھر مذہبی پشتون اے این پی کو قبول کیوں نہیں؟

ہم ابہام کی بات کرتے ہیں۔ آپ ہندوستان میں پنجاب صوبے  کی مثال لے لیں، جو لوگ وہاں پنجاب میں رہتے ہیں وہاں اُن کی برادری ہے،خون کا رشتہ ہے،تجارت ہے،آنا جانا ہے،آمدورفت کے راستے کھلے ہیں،ہمارا مطالبہ بہت سادہ سا ہے کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے،وہاں پختون اکثریت ہے،ہم صرف یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ جیسے ہم سب برابر ہیں،پختون ہیں،مسلمان ہیں،تو ہمارا آنا جانا ہو،تجارت کے راستے کھلے ہوں۔
اور مذہبی لوگوں کو اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اُن سے جہاد اور قتال کا کام لیاجائے۔ حالانکہ ان مذہبی لوگوں کو وضاحت کرنی چاہیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اگر ایک پڑوسی کے گھر میں آگ لگے تو دوسرے پڑوسی کو کیا کرنا چاہیے،اگر ایک پڑوسی کے گھر پر قبضہ ہوتو دوسرے پڑوسی کو کیا کرنا چاہیے،لیکن یہ سمجھانے والا کردار تو یہ لوگ ادا ہی نہیں کررہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب طالبان کو افغانستان میں اقتدار نہیں دیا گیا تھا تو افغانستان پر حملہ کرنا جہاد تصور ہوتا تھا اور ابھی صرف پندرہ بیس دن بعد ہی اب آپ افغانستان کے خلاف بات کریں تو وہ اسلام کے خلاف بات تصور ہوتی ہے۔ تو یہ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے،بلکہ یہ لوگ بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے پر چلنے والے لوگ ہیں۔

6- افغانستان اور باہر پشتون حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت طالبان کی مگر پشت پر پاکستان ہے۔ کیا آپ کو بھی یہی لگتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پاکستان کے لیے  اسکے نتائج کیا ہوں گے؟

یہ جو گڈ اور بیڈ طالبان کی بات ہوتی ہے،یہ طالبان آج بھی اسلام آباد،کوئٹہ اور پشاور میں کھلے عام پھر رہے ہیں۔یہاں ان کی رہائشیں ہیں،ننگرہار اور قندھار میں بڑی پوسٹوں پر لوگوں کو دیکھیں کہ یہ کہاں کے ہیں،ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کہاں کے ہیں،تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ طالبان کی پشت پر کون ہے، اور یہ بات ویسے بھی چھپنے والی نہیں ہے۔افغانستان میں ان کے ہاتھ وہ کچھ آیا ہے جو یہ لوگ پہلے ہی چاہ رہے تھے،لہذااس بات کو چھپایا نہیں جاسکتا کہ کون کس کے پیچھے تھا اور کون نہیں تھا۔

7- کیا طالبان اس بار بھی پاکستان کے اختیار یا کہنے میں ہوں گے؟ کیا ڈیورنڈ لائن جیسے مسئلے  پہ کوئی حل نکلے گا اور کیا اے این پی اسے قبول کرے گی؟

ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ طالبان ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر اپنا کیا موقف رکھتے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کا یہ اصولی اور تاریخی بیانیہ ہے کہ ڈیویرنڈ لائن کا مسئلہ افغانستان اور پاکستان کی ریاستوں کا ایک مسئلہ ہے،43سال سے جاری خونریزی بھی اس مسئلے کی ایک وجہ ہے،جو مجاہد حق کی حکومت پر ہیں،وہ تو خود کہہ رہے تھے،اشرف غنی جو نقاط خود بتارہے تھے

8- اے این پی کی لیڈرشپ کا موقف ماضی کی مانند شدید اور گونج دار نہیں ہے۔ کیا اے این پی قیادت ایسے حالات کے  لیے  تیار نہیں تھی یا پھر مصلحت سے کام لے رہی ہے؟

ہم اپنے بیانیے پر قائم ہیں،ہم بندوق والے نہیں ہیں کہ بندوق اٹھائیں،ہم نے ہمیشہ سے ایک مہذب راستہ اختیار کیا ہوا ہے،عوامی نیشنل پارٹی نے اس عمل کو غیر جمہوری اور غیر انسانی قرار دے دیا ہے،اور بندوق اٹھانا دنیا کے کسی کونے میں بھی مہذب اور جمہوری لوگ پسند نہیں کرتے۔ عوامی نیشنل پارٹی بندوق کے زور پر اقتدار چھیننے کو کسی طور درست اور جمہوری عمل نہیں کہہ سکتی۔یہ ریاستی اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ خوف کے مارے وہاں سے نکل رہے ہیں،اور جہازوں کے ساتھ لٹک رہے ہیں کہ کسی طرح وہ وہاں سے نکل سکیں۔وہاں کے ایجوکیٹڈ لوگ روزانہ ٹویٹس کرتے ہیں کہ طالبان اُن کے گھروں میں داخل ہوکر تلاشی لیتے ہیں اور اُن کے بچے بچیوں کو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات اگر کسی شہر یا ملک کے کسی کونے میں ہوں تووہاں کی عوام لازمی اضطراب اور تشویش کا شکار ہوں گے۔

9- پشتون سیاست اور قومی سیاست کے حوالے سے اے این پی کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہے؟

ہماری تو سو سالہ تاریخ ہے،ہمارا عدم تشدد کا سو سالہ بیانیہ ہے،ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں،ریاستی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں،دنیا کے تمام اور خصوصاً پڑوسی ممالک کیساتھ بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔پارلیمان کو بالا دست سمجھتے ہیں،ملکی مسائل پارلیمان میں بننے چاہئیں،ہم اس پر یقین رکھتے ہیں،اور یہی ہماری سیاست ہے،اور ہماری سیاست کا ماضی،حال اور مستقبل بھی یہی ہے۔

10- افغانستان اور پھر اسکے ساتھ پاکستان پچھلے چالیس برس سے گریٹ گیمز کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس خطے کو امن نصیب ہو گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

افغانستان کے تمام لیڈرز طالبان ہوں یا مختلف سیاسی لیڈر،یا عوام ہوں،تو اگر وہ سب فیصلہ کر،لیں کہ ہم نے امن سے رہنا ہے،کسی کے ہاتھ میں نہیں کھیلیں گے،کسی کے لیے کام نہیں کریں گے،اپنی مٹی کو دوسرے کیخلاف استعمال نہیں کریں گے،تشدد کے عمل کو ترک کریں گے۔اسی طرح افغانستان کے پڑوسی ممالک کو بھی اس مسئلے کو حقیقی نظر سے دیکھنا چاہیے،انہیں بدامنی روکنے میں ریاستِ افغانستان کا ساتھ دینا چاہیے،تو لازم ہے کہ یہ جنگ ختم ہوجائے گی،کیونکہ یہ کوئی خداکی جانب سے جنگ نہیں ہے،بلکہ یہ تو شرپسندوں کی طرف سے مسلط کردہ جنگ ہے،اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ختم ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply