تاریخ عالم میں مذہبی نقطہ نظر سے نبیﷺ اور صحابہ کے جہاد کی معنویت کو جتنی بصیرت سے یہودی مورخہ پیٹریشیا کرون نے بیان کیا ہے، شاید کسی مسلم مورخ نے بھی نہ کیا ہو۔ اپنے یہودی پس منظر کی وجہ سے وہ اسلام کو یہودی مذہب سے پھوٹنے والا ایک فرقہ سمجھتی ہے اور اس کے اس نقطہ نظر پر کافی تنقید ہوچکی ہے، تاہم اپنے یہودی پس منظر ہی کی وجہ سے وہ اس حقیقت کا ادراک کر لینے میں کامیاب ہے کہ یہودی عقیدے یعنی توحید کو دنیا کی ایک تہذیبی طاقت بننے کے لیے جس سیاسی قوت کی ضرورت تھی، وہ عربوں نے بہم پہنچائی اور وہ نتیجہ پیدا کر دکھایا جو سیاسی طاقت سے محروم ہونے کی وجہ سے یہودی عقیدہ نہیں کر سکتا تھا۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ بے شک خدا نے یہ دنیا آزمائش کے اصول پر اور کفر وایمان کی آزادی دیتے ہوئے بنائی ہے اور انسان کو متوجہ کرنے کے لیے اصل راستہ دعوت ہی ہے، لیکن کسی بھی دعوت کے موثر ہونے بلکہ انسانوں کے لیے قابل توجہ ہونے میں بہت سے نفسیاتی ومادی عوامل کا کردار ہوتا ہے۔ اگر ایک عقیدے کو سیاسی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو اور دوسرا صرف انفرادی دعوت پر انحصار کر رہا ہو تو یہ خود آزمائش کے پہلو سے ایک غیر متوازن صورت حال ہے۔ بنی اسرائیل کے انتخاب کے تاریخی مرحلے پر دنیا کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں شرک کی مختلف شکلوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل تھی اور توحید کو دعوت کی سطح پر ایک قابل اعتنا ء اور قابل ِ توجہ عقیدہ کی حیثیت دلوانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے بھی سیاسی طاقت کی تائید فراہم کی جائے۔ ایک تہذیبی فکر کا مقابلہ دوسری تہذیبی فکر سے ہی ممکن ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی طاقت کا حصول ناگزیر ہے۔
آج اگر دنیا میں اربوں لوگ توحید کو ایک عقیدے کے طور پر ماننا ممکن پاتے ہیں تو اس کے تاریخی اسباب میں اس سیاسی طاقت کا کردار بنیادی ہے جو رسول اللہﷺ اور صحابہ کے جہاد نے فراہم کی۔ دنیا کی جو تہذیبیں شرک کی پشت پناہی کرتی تھیں، تاریخ میں ان کی سیاسی قوت ختم ہو جانے سے شرک کی وہ مخصوص شکلیں بھی ناپید ہو چکی ہیں۔ جو شکل آج بھی موجود ہے، وہ وہی ہے جس کو ہندوستان میں سیاسی طاقت حاصل ہے۔ الحاد دور جدید سے پہلے انفرادی سطح کے شاذ رجحان کی حیثیت رکھتا تھا، آج سیاسی طاقت کی پشت پناہی سے ایک تہذیبی قوت اور ایک مستقل عقیدہ بن چکا ہے۔ ان تینوں عقیدوں یعنی شرک، توحید اور الحاد کی مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی فکر کو سیاسی قوت حاصل ہو جانا فی نفسہ اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی، لیکن مجموعی انسانی نفسیات کے لیے قابل توجہ اور حامل اہمیت ہونے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔ ہمارے مائل بہ الحاد دانش ور اور جہاد پر معذرت خواہانہ رجحان رکھنے والے طبقات اس زاویے سے قرآن اور سیرت نبوی وسیرت صحابہ میں جہاد کی مرکزی اہمیت پر غور کریں گے تو ان شاء اللہ بہت سے سطحی سوالات واعتراضات سے افاقہ محسوس کریں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں