کپاس (43) ۔ غلامی کے بعد/وہاراامباکر

جنگ بندی ہو چکی تھی۔ امریکہ سے غلامی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایک وقت میں چالیس لاکھ تک غلام تھے، آزاد ہو چکے تھے۔ آزادی کے اس جشن کے ساتھ سوال یہ تھا کہ اب کیا ہو گا۔ 1865 کے آخر تک جنگ کے دوران ضبط کردہ زمینیں واپس مالکان کے پاس جا چکی تھیں۔
جاگیرداروں کو لیبر کی ضرورت تھی۔
آزاد کردہ غلاموں کو گزارے کے لئے آمدن کی۔
حکومت کو معیشت کا پہیہ چلانے کی۔
یہ سب اس وقت ہو سکتا تھا جب فصلیں اگائی جائیں، ان پر کام کیا جائے۔ صرف معاہدوں کو دوبارہ کئے جانا تھا۔
زمینوں، جاگیروں، عدالتوں، دارالحکومتوں میں نئے نظام کو شکل پانے میں چند برس لگے۔ زندگی پھر رواں ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں 1866 کی ابتدا میں کیا گیا معاہدہ ریکارڈ میں ملتا ہے جو نارتھ کیرولینا کے زمیندار نے 27 آزاد کردہ لوگوں سے کیا۔ اس میں سورج نکلنے سے ڈھلنے تک کام کرنا تھا۔ کوئی چھٹی نہیں تھی۔ مہینے کے دس ڈالر ملنے تھے، پندرہ پاونڈ گوشت اور ایک وقت کا کھانا۔
سابق غلاموں کو اجرت پر رکھنے کے ایسے معاہدے بہت سی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ جاگیردار اس کو یکطرفہ رکھنا چاہتے تھے۔ ایک سال کا معاہدہ کرنا ہوتا تھا اور اس کو توڑنے کے نتائج تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

سابقہ غلاموں کو 1866 میں شہریت کا حق ملا جبکہ 1867 میں ووٹ کا۔ اس قدم نے ان کی حالت بہتر بنانے میں مدد کی۔ بہتر اجرت اور غلامی کے مقابلے میں کام کرنے کے کم گھنٹے۔
اگرچہ ان کے پاس زمین نہیں تھی لیکن اپنی زندگی میں اپنی مرضی کا حق ملنے لگا۔ رفتہ رفتہ سماجی سمجھوتہ ابھرنے لگا۔ جاگیردار انہیں زمین کا قطعہ دے دیتے جس میں یہ مرضی سے رہتے اور فصل اگاتے۔ زمیندار کی طرف سے سپلائی مل جاتی۔ فصل کا حصہ انہیں مل جاتا۔ فصل بانٹنے کے معاہدہ جلد پھیلنے لگے۔ 1900 تک تین چوتھائی سیاہ فام کاشتکار اس طریقے پر کام کرتے تھے۔
ان کی زندگی غلامی کی گینگ لیبر کے مقابلے میں بہت بہتر ہو گئی تھی لیکن یہ آسان نہیں تھی۔ یہ غربت اور بدحالی کی زندگی تھی جس میں محدود حقوق اور سیاسی آواز تھی۔
نہ صرف سیاہ فام کسان بلکہ سفید فام کسان بھی کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ ملک میں ریلوے کا جال پھیل جانے کی وجہ سے کپاس اگانا اور بیچنا 1870 کی دہائی میں آسان ہو گیا تھا۔ 1880 تک سفید فام کسانوں کی طرف سے اگائی گئی کپاس کا حصہ 44 فیصد تک پہنچ چکا تھا اور اس سال امریکہ کی کپاس کی برآمد خانہ جنگی سے پہلے برسوں کے برابر ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں کپاس کی کاشت میں سب سے تیز رفتار ترقی ہندوستان میں ہوئی۔ یہ یورپ، چین اور جاپان بھیجی جاتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہندوستان میں صنعت کاری بھی شروع ہو گئی تھی، جس میں تیز رفتار اضافہ تھا۔ 1894 تک نصف کپاس ہندوستانی صنعت کے لئے تھی۔ اور ہندوستان کی اپنی پیداوار کا دو تہائی اب کارخانوں میں بنتا تھا۔
اس دوران میں مصر اور برازیل نے بھی پیداوار میں اضافہ کیا تھا اور یہ سب پیداوار اب غلامی کے ادارے کے بغیر ہو رہی تھی۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی پہلی تصویر 1920 میں لوزیانا سے لی گئی ہے۔ یہاں پر یہ کسان مزارعہ نظام میں زمین پر کام کر رہے ہیں۔
دوسری تصویر اوکلوہوما میں چھ سالہ کسان کی۔ غلامی کے خاتمے کے بعد سفید فام کسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply