سانحہ مینارِ پاکستان(1)۔۔محمد وقاص رشید

خدا خالقِ کائنات ہے۔ اس نے آسمان پر جنت بنائی پھر اپنا نائب اشرف المخلوقات انسان تخلیق کیا اور جنت کو جنابِ آدم کی رہائش قرار دے دیا۔ ایک حکم عدولی کی وجہ سے آدم کو جنت سے زمین پر بھیجا تو واپس جنت میں آنے کے لیے ہر آدمی کے لیے جنت کا ایک میرٹ مقرر کر دیا ۔جاؤ اور اس جنت کو پانے کے لیے پہلے زمین پر اس طرز کی جنت بنا کر آؤ۔ پھر جنابِ آدم سے لے کر محمد رسول اللہﷺ   تک ایک سلیبس مکمل کیا۔۔جسکی اخروی کتابی شکل قرآن مجید ہے جو کہ خود خدا ہی کی حفاظت میں ہے۔ اس سلیبس پر مبنی ضابطہ حیات کا نام ” سلامتی” ہے ۔ یعنی خدا نے اپنے پہلے نبی سے لے کر آخری پیغمبر ﷺ تک انسانوں کو انسانوں کے ذریعے انسانوں کے درمیان پیدا کیا اور انہیں یہ سمجھایا کہ تمہاری سرشت میں کچھ جبلتیں ہیں،ان جبلتوں کے شرور سے دوسروں کی سلامتی کو یقینی بنانا اسلام ہے،یعنی انسان کی انسانیت کا نام اسلام ہے اور اسکا متضاد انسان کی حیوانیت کفر ہے،یعنی جب ہم کوئی اختیار ملنے پر خدا کو بھلا دیں اپنی من مرضی کو اسکی رضا پر حاوی کر کے اپنی جبلتوں کو اتنا منہ زور ہونے دیں کہ وہ دوسروں کی سلامتی کو زک پہنچائیں تو یہ سلامتی یعنی اسلام کی نفی ہے جو کہ جنابِ آدم سے لے کر رسول اللہ ﷺ  تک خدا کے نزدیک واحد دین ہے ۔

خدا نے اس دوران مبینہ طور پر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جو کہ انسانوں کو اسلام یعنی سلامتی یعنی انسانیت کا پیغام دیتے رہے  اور یہ یاددہانی اور تجدیدِ عہد کا سلسلہ آکر خاتم النبیینﷺ  پر رحمت للعالمین کی حیثیت میں اختتام پذیر ہوا جب خدا نے ان پر ایک اچھائی اور برائی کا تاقیامت فرق کرتی کتاب نازل فرمائی اور انکی سنت کو نمونہ قرار دے کر سلامتی کے دین کی حجت تمام کر دی۔

خدا کے آخری نبی ﷺ نے سالہا سال اپنی عظیم ترین اخلاقی شخصیت سے خدا کے دین کو اپنے اک ایک عمل سے سلامتی کا دین ثابت کیا اور خود کو رحمت للعالمین اور یوں وہ دلوں کے فاتح ٹھہرتے ہوئے جغرافیائی حکمران بنے ۔سلامتی کی پہلی ریاست کے حکمران،بحیثیت حکمران انکی سنت سے چند واقعات لیتے ہیں جو کہ اس مضمون سے متعلقہ ہیں اور قرآن پاک میں بیان کردہ اسلامی فکر میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

جنس انسان کی فطرت میں موجود ایک جبلت ہے اور ظاہر ہے اوپر بیان کردہ دینی تفہیم کے مطابق اس جبلت کو ہمیں سلامتی کے دین کی حدود و قیود میں رکھنے کا طریقہ خدا نے بتا رکھا ہے جسے ہم نکاح کہتے ہیں اسکے علاوہ انسانیت کے لیے ہدایات نامہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حیا ایمانی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ شرم گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مرد و زن پہ لازم ہے اور یہ کہ مرد و زن جب باہم کہیں موجود ہوں تو نگاہیں نیچی رکھی جائیں اور یہ کہ کسی کی عزت و آبرو کی حرمت مسلمان پر لازم ہے ،یہ سلامتی کے دین کا شرم و حیا سے متعلق بنیادی فلسفہ ہے جسے خدا نے قرآن میں بیان کر دیا۔

اب قرآن کے عملی پیکر یعنی اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ  شرم و حیا کا ایک مکمل نمونہ تھے ۔اعلیٰ  ترین اخلاقیات کا عالم یہ تھا کہ کسی مشرک کی بیٹی کے سر پر چادر اوڑھاتے ہوئے جب لوگوں نے استفسار کیا کہ یہ تو مشرک کی بیٹی ہے تو محسنِ انسانیت نے فرمایا “بیٹی تو ہے ناں” ورفعنا لک ذکرک کی سند یونہی نہیں ملا کرتی ۔

اور زمین پر اسے جنت بنانے کی مشق کر کے خود کو خدا کی جنت کے لیے میرٹ پر ثابت کرنے والا انسان یہاں سلامتی کے دین کی نفی یعنی خدا سے بالکل بے بہرہ ہوکر اس زمین کو دوزخ بنانے کے در پے ہو اور کسی کی عزت و آبرو کی حرمت کا پاس نہ رکھے تو بحیثیت حاکم نظمِ اجتماعی قائم کرنے کا طریقہ بھی خدا کے حکم سے انسانیت کو سکھایا ۔

فجر کے وقت ایک خاتون نماز پڑھنے مسجدِ نبوی ﷺ  کی طرف آ رہی تھیں کہ راستے میں کسی اوباش نے ان سے زیادتی کر دی ۔ معاملہ سلامتی کے مذہب کی طریقت کے بانی اور خدا کے حکم کے مطابق انسانیت کے لیے نمونہ اور مثال “اسوہ حسنہ” کے حامل پیغمبرِ اسلام تک پہنچا تو انہوں نے مجرم کو عبرت ناک سزا دیتے ہوئے ایک مثال قائم کی۔

وقت زمین کی گردش کے سنگ رینگتے رینگتے لگ بھگ ساڑھے چودہ صدیاں پیچھے چھوڑ آیا۔ سلامتی کا دین انکی امت کے ہاتھوں میں تغیرات، تفہیمات ، مفادات اور حادثات و سانحات سے گزرتا برصغیر میں ہمارے اجداد تک پہنچا  ،مینارِ پاکستان پر اکٹھے ہوئے ہاتھوں میں ایک قرارداد تھامے ہوئے تھے ۔ ۔کہ ہمیں خدا نے جو جنت بنانے کے لیے زمین پر بھیجا تھا وہ انگریزوں اور ہندؤوں کے ساتھ رہ کر نہیں بن سکتی اس لیے ہم یہ جنت ایک علیحدہ ملک میں بنائیں گے۔۔جس میں ہم اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ تمام تر آزادی کے ساتھ سلامتی کے دین کی تعلیمات پر عمل کر سکیں گے۔۔
ہمارے اجداد کے خون اور پسینے سے بنیادی اینٹیں سیراب کر کے ریاست معرضِ وجود میں تو آگئی لیکن 74 برس اس ریاست نے انسانوں کے اس ہجوم کو ایک قوم بنانے اور انکی آماج گاہ کو ایک سماج بنانے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اختیار نہ کی۔شخصی و ذاتی حرص و ہوس، قومی مفادات پر حاوی ہوتی رہی اور اب عالم یہ ہے کہ یہاں پون صدی سے جاری غیر علمی، غیرقانونی ،غیر اخلاقی اور غیر نظریاتی مشق نے یہاں بستے انسانوں کو صرف ایک درس دیا ہے۔۔۔وہ ہے منافقت۔ یہاں بستی اکثریت کا آئیڈیل رویہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر جبلتوں کو محض اختیار اور رسائی ملنے تک ہم مسلمان ہیں۔۔۔یہاں بد قسمتی سے 74 سال قومی نفسیات سازی کے تمام عوامل اور اس پر اثر انداز ہونے والے تمام عناصر نے موقع پرستی کو گویا آئینِ پاکستان کا درجہ دے دیا ۔سلامتی کا وہ مذہب جو تھا ہی جبلت کے لیے اشتہا پر خدا کی رضا کا بند باندھنے کا نام وہ مسلمانوں کے لیے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ٹھہرا۔

جشنِ آزادی ایک تجدید عہد کا دن ہونا چاہیے ہجوم سے قوم اور جنگل سے سماج بننے کا اعادہ کرتا ایک تہوار  مگر افسوس کہ چوہتر برس سے جاری معکوس سفر کے باعث یہ دن مینارِ پاکستان پر مادر پدر آزادی کا دن ثابت ہوا ۔مشرک کی بیٹی کے سر پر چادر ڈالنے والے پیغمبر  ﷺ  کے امتی ایک عورت کو بے لباس کر رہے تھے ۔جنہوں نے خود حیا کرنی تھی وہ اس پر بے حیائی کا الزام لگا کر اسے ہواؤں میں اچھالتے نوچتے مارتے ہوئے لفظِ حیا کو شرمسار کر رہے تھے۔۔۔وہ جنہوں نے آنکھیں نیچی کرنی تھی وہ خود اسکے پناہ لینے کے لیے آگے آگے بھاگنے پر قہقہے لگاتے باجے بجاتے اس پر جھپٹ رہے تھے۔ غضب خدا کا کہ وہ آدمی جنہوں نے اسکی آبرو کی حرمت خدا کے کہنے پر کرنی تھی وہ بقول انکے اسکی بے حرمتی اس لیے کر رہے تھے کہ وہ ٹک ٹاک پر خدا کا کہا نہیں مانتی۔۔۔۔۔ لا حولا ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

دینِ حیا کی قسم ، اور قسم اس مشرک کی بیٹی کے سر پر بچھنے والی کائنات کی سب سے مقدس چادر کی اور قسم اس بخشش کی جو ایک فاحشہ کو کتے کو پانی پلانے پر مل جائے۔ خدا نے حیا کرنے کا حکم عورت کے لباس سے مشروط نہیں کیا۔ اسلام کسی بدکردار عورت کی بے حرمتی کرنے کی بھی اعانت نہیں کر سکتا۔
مگر حادثے  سے بڑا سانحہ یہ تھا کہ “اینوں تھلے سٹو ،پانڑیں وچ سٹو” اور اسطرح کی اخلاق باختہ اور مجرمانہ کمنٹری اور قہقہوں کی گونج مینارِ پاکستان سے پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی۔۔جہاں لوگ یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں تھے کہ ایک عورت چاہے اسکا کردار جو بھی ہو، چاہے اس نے فالوور اور لائیکس کی مکروہ دوڑ کے لیے لوگوں کو خود وہاں بلایا ہو لیکن سینکڑوں لوگوں کا اس سے انسانیت سوز سلوک کرنا ظلم ہے اور وہ تمام تر ناپسندیدگی کے باوجود ” کسی کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کرے ” کی قرآنی آیت کے مطابق بہرحال مظلوم ہے۔ وحشی جانوروں کی طرح اسے نوچنا ،بے لباس کرنا، بے حرمتی کرنا ،ہوا میں اچھالنا ۔۔یہ تمام کام اگر مگر لیکن ایسے ویسے کے الفاظ کے بغیر سریعًا ظلم ہیں۔

ہمیشہ تکبر سے بھرے ہوئے لہجے میں گفتگو کرنے والے خلیل الرحمن قمر صاحب کے بقول یہ سستی شہرت اور چند ٹکوں کے عوض پاکستان کی مشرقی روایات تہذیب اور مہنگی عزت کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔۔ میں نے عرض کیا نہ کہ منافقت یہاں کی سب سے بڑی سوغات ہے ۔لڑکوں کو ہگ کرنے اور فلائنگ کس کرکے لڑکوں کو ہراساں کرنا اس آدمی کے نزدیک victim blaming کا اسے جواز فراہم کرتا ہے جس کی ایک مشہور اداکارہ سے میری شہزادی میرا قتل تیرے ہتھوں لکھیا اے کہہ کر بغل گیر ہونے کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے ۔ان سے بندہ پوچھے کہ اگر عائشہ اکرم نامی اس ٹک ٹاکر نے چودہ اگست ہی کو پاکستان کا “نیک نام ” امیج دنیا میں خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش کی تو کیا پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے اور قائم رکھنے کی تنخواہ لینے والی “مدینے کی ریاست” کی پولیس کا نہ پہنچنا بھی اسکا حصہ تھا ؟

شہیر سیالوی صاحب تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں ایسا ہے میرا پاکستان۔ ۔ یہاں تو عورت کی بہت عزت ہے۔  عجیب بات ہے یہ جملہ آپ عورتوں سے کم ہی سنیں گے ۔ شہیر صاحب کی باتوں میں ہمیشہ کی طرح تضادات کی بھرمار ہوتی ہے  ،کہتے ہیں پاکستان میں مرد تو عورت کی بہت عزت کرتے ہیں یہ چند اس قماش کے لوگ ہیں۔ پاکستان میں عورتوں تو کیا چھوٹے چھوٹے بچوں سے روزانہ جنسی بربریت کے واقعات جہاں انکے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔  ایک جملے میں یہ کہنا کہ پاکستانی مشرقی عورت کی عزت کرتے ہیں اور اگلے جملے میں یہ کہنا کہ ان ٹک ٹاکرز کے ایک ایک دن میں ملین فالورز بنتے ہیں۔ اسکا مطلب پاکستانی ٹک ٹاکرز کو پسند نہیں کرتے بلکہ صرف like اور follow کرتے ہیں۔

ایک ٹیکسی چلانے والی ماں جی تشریف لائیں سلیوٹ ہے انکی محنت کو کہ انہوں نے 36 سال ٹیکسی چلا کر اپنے 5 یتیم بچوں کو پالا۔۔۔ لیکن اماں جی نے کہا کہ کوئی پاکستان میں ظلم نہیں ہوتا ۔ چلیں مثبت امیج بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر بربریت کے واقعات کو انکی مبالغہ آرائی کی نذر کر دیتے ہیں ۔اس بات کو بھی نظر انداز کیے دیتے ہیں کہ انہوں  نے یہ کہا کہ الحمدللہ 36 سال سے ٹیکسی چلا رہی ہوں 6 بچوں کو پالا بے  اور یہ کہ مرد ،مرد ہی ہوتا ہے اور وہ سربراہ ہوتا ہے اور عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔۔  اب 36 سالہ بے برکت کمائی کا معاملہ بھی انکا ذاتی ہی سہی  مگر جس بات کا مجھے بہت زیادہ دکھ ہے وہ اماں جی نے پورے پاکستان کی ان عورتوں کو گالی دی جب انہوں نے یہ کہا کہ عورت چاہتی ہے تو ہی مرد اسکے  ساتھ “کچھ” کر سکتا ہے۔۔ یہ شرمناک بات اس سے پہلے مختاراں مائی کے کیس میں اپنی حکومت کو ڈیفینڈ کرتے پرویز مشرف صاحب نے بیرون ملک میڈیا میں کہی تھی کہ پاکستان میں عورتیں پہلے ریپ کرواتی ہیں پھر میڈیا میں آجاتی ہیں ۔

افسوس 16 سال کی ایک لڑکی نہیں ملتی تو 8،8 کی دو سے شادی کر لو ،والے مفتی طارق مسعود بھی مشرقی روایات اور پاکستانیت کا دفاع کرنے تشریف لائے۔اسی قسم کا بیان طارق جمیل صاحب کے ساتھ اکثر دکھنے والے ایک عالم صاحب کا بھی سنا (معذرت کہ نام معلوم نہیں) فرمایا کہ اس لڑکی نے خود اپنے آپ کو ذلیل کروایا اور اب پاکستانی مردوں کو بدنام کر رہی ہے۔اگلی بات کمال کی کہی کہ وہ دیکھو ایک نان مسلم پورا پاکستان گھوم کر چلی گئی۔آگے کہا یہ اللہ کا نظام ہے،اتنے تضادات سے بھرپور ہیں یہ لوگ کہ الامان الحفیظ۔۔۔۔کوئی پاکستانی خاتون جینز میں نظر آ جائے تو اس وجہ سے زلزلے آتے ہیں  اور خدا نخواستہ اسکو ہراساں کیا جائے تو اسکی وجہ اسکا جینز پہننا ہے۔۔۔ اچھا یہاں ایک لمحے کا توقف۔۔۔۔

جینز پاکستانی عورت پہنے تو زلزلے بھی آتے ہیں اور مرد بہکتے بھی ہیں وہی جینز اگر بیرون ملک کی عورت پہن کر پورا ملک گھوم لے تو لوگ اسے عزت و احترام کے ساتھ اپنی بہن کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ۔اگر کوئی سمجھنا چاہے تو یہ بہت بڑی تفہیم ہے اس نفسیات کی جسے ہم مخاطب کرنے کی بجائے جان بوجھ کر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں کہ کہیں اسے ٹھیک نہ کرنا پڑ جائے۔ یہی وہ تضاداور منافقت ہے جس پر سوال اٹھانے سے بندہ لبرل ،سیکولر ،لادین ،کچا پاکستانی ، دشمن قوتوں کا آلہ کار یا پھر میرا جسم میری مرضی والوں کا پیروکار بن کر ہدفِ تنقید ٹھہرتا ہے۔

کینیڈا سے پاکستان آئی ہوئی محترمہ روزی گیبرئیل ہو یا پاکستان سے کینیڈا گیا ملک جمیل ۔ یہ انسانی نفسیات کا معاملہ ہے جینز کی پینٹ کا نہیں ۔ روزی گیبرئیل کی جینز دیکھنے والے پاکستانی ملک جمیل کو یہاں بھی پتا ہے اور وہاں کینیڈا میں بھی پتا ہے کہ یہ کوئی بے یارو مددگار مخلوق نہیں ہے۔۔۔پازییٹو امیج بنانے کے لیے لائی گئی ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسی نہ کسی طرح نگاہ میں ہو گی ۔ یہ کوئی عام پاکستانی عورت نہیں جسکے بارے سانحہ موٹر وے کی طرح خود سی سی پی او لاہور کہہ دیں گے” آپ وہاں لینڑیں کیا گئی تھیں ” اور ایک بے شرم نے میری وال پر لکھا کہ تمہیں پتہ ہے کہ وہ رات کے دو بجے کس سے مل کے آ رہی تھی۔۔ یہ بچوں کے سامنے ماں سے بربریت پر غیرت مند پاکستانیوں کا ردِعمل تھا ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو روزی کے پورا پاکستان موٹر سائیکل گھومنے پر پاکستانیوں کو عورت کی عزت کرنے والا کہتے ہیں اور یہی لوگ ایک پاکستانی ماں کے رات کو موٹر وے پر سفر کرنے کو victim blaming کے لیے استعمال کرتے ہیں۔  یہی وہ منافقانہ طرزِ فکر و عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے ہم کبھی پاکستان کو ملت کی بیٹیوں کے لئے محفوظ ملک نہیں بنا سکتے۔

ہر انسان کی رائے اسکے طرزِ فکر و عمل کی عکاسی کرتی ہے۔۔اور معاشرے میں سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ میرے کہنے سے کیا ہو گا ۔ سلامتی کے مذہب کے ایمان کا آخری درجہ تو ہے ہی خاموشی سے دل میں برا سمجھنا ،یعنی ظلم ہوا ہم نہ ہاتھ سے روک سکتے ہیں نہ زبان سے منع کر سکتے ہیں لیکن ایمان کی آخری نشانی کے طور پر اپنے دل میں مظلوم سے ہمدردی رکھتے ہوئے ظلم اور ظالم کے خلاف رائے رکھ سکتے ہیں ۔لیکن ہم کیونکہ انفرادی و اجتماعی لحاظ سے اپنی فکر کو انسانیت کے بیِّن اصولوں پر قائم رکھنے کے تربیت یافتہ نہیں تو ہم ہر ایک سانحہ پر اسی طرح توجیہات ،اور تاویلات گھڑتے نظر آتے ہیں  کیونکہ ہم اسلام سے تو واقف ہیں لیکن سلامتی سے نہیں اس لیے غور کیا جائے تو اکثر اوقات ہماری اکثریت کی رائے اکثر اوقات بلواسطہ طور پر مجرم کے حق میں اور جرم کی اعانت کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ہم ایک مجرمانہ طرزِ فکر و عمل اپناتے ہیں۔۔۔ہم خصوصاً عورت سے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے انسانیت سوز جرم پر اتنے حساس نہیں ہوتے اپنی مجرمانہ ذہنیت کی تسکین کے لیے جرم کے محرکات کو کریدتے ہیں اور اس ملبے سے وہ میلی چادر ڈھونڈتے ہیں جو جرم پر ڈالی جا سکے جس سے جرم دکھائی نہ دے اسکے محرکات کے طور پر مظلومہ کی میلی چادر نظر آئے اور ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ عورت ذمہ دار ہے۔۔۔ہمیں نور مقدم کا دھڑ سے علیحدہ سر نہیں اس پر سے اتری ہوئی چادر نظر آتی ہے ۔۔بہیمانہ تشدد سے جسم پر زخموں اور خون کے دھبوں کو چھوڑ کر ہم بدکرداری کے داغ ڈھونڈ لیتے ہیں اور ظاہر جعفر اس لیے ایک قابلِ مذمت قاتل نظر نہیں آتا کیونکہ اسکے ساتھ نور کا ناجائز رشتہ تھا۔۔۔ آپ اندازہ لگائیں ہم سلامتی کے مزہب کے پیروکار ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل زبانی کلامی کہنے والے،انسانیت کا قتل ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اس پر افسوس کا اظہار مقتولہ کے ایک ایسے معاملے کی وجہ سے کھل کر نہیں کر رہے جو ہم سے مخفی ہے۔ اور میں لکھ ہی ڈالوں کہ روح بہت گھائل ہے کہ شاید کوئی پڑھنے والا اس سے اپنا اندازِ فکر بدلنا چاہے۔

رسول اللہ ﷺ  کے سامنے انکے صحابہ کرام نے کسی عورت کے بارے میں کہا کہ وہ بدکردار ہے آپ نے فرمایا کیا کسی نے اسکو حالتِ زنا میں دیکھا انکے ساتھیوں نے کہا نہیں۔۔ایک نے کہا غیر مرد کو گھر داخل کر کے پردہ گراتے دیکھا ہے۔۔۔۔دینِ حیا کے پیغمبر ﷺ اور رہبرِو محسنِ انسانیت نے فرمایا تب بھی تم اس پر بدکرداری کی گواہی نہیں دے سکتے۔ یہ ہے سلامتی کا مذہب۔۔ یہ ہے اسکی تفہیم۔۔۔ یہ ہے اسکا فلسفہ۔۔۔ جن کی سنت کو خدا نے نمونہ کہا ہمارا عمل اس نمونے سے کتنا ملتا جلتا ہے یہ موازنہ خود کیجیے اور یہ بھی کہ کہیں اسکے متضاد تو نہیں۔۔

ایک اور پہلو جو اس موضوع کا زیرِ بحث ہے وہ یہ کہ جی اس عورت نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہاں یہ سارا سوچا سمجھا ڈرامہ رچایا۔۔۔۔ایک فیس بک پر موجود محترمہ نے تو مجھے یہاں تک کہا کہ میں اس موضوع پر بات کر کے پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہوں۔۔ سچ پوچھیں تو مجھے یہی سمجھ نہیں آتی کہ ساحل انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق جس ملک میں روزانہ اوسطا 8 بچے بچیوں سے جنسی زیادتی اور ہراسانی کے واقعات ہوں جہاں کی عورتوں کے جنسی استحصال کی خبریں روزانہ ٹی وی چینلز اور اخباروں کی زینت بنتی ہوں انسانی حقوق کے ہر زمرے میں جو ملک عالمی اداروں ہی کی رائے شماری میں نچلے نمبروں پر آتا ہو اسے اپنی کس نام نہاد نیک نامی کو بچانا ہے اسے تو چاہیے کہ اپنی پوری قوم میں انسانی حقوق کی آگا ہی کی باقاعدہ ایک مہم ہر سطح پر چلائے۔۔۔مسائل کے یہ زخم جعلی نعروں اور کھوکھلے بیانیوں کی پٹیوں کے نیچے چھپا چھپا کر ہی ناسور بن چکے۔ سوشل میڈیا کی موجودگی میں اب ان ناسوروں کو چھپانا نا ممکن ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ مزید مہلک ثابت ہونگے۔

میری نگاہ میں سلامتی کا یہ مذہب جبلتوں پر جمی کالک دھونے کے لیے آیا تھا۔۔۔ نیت کی تطہیر کے لیے۔۔۔خدا نے انسان کو بیشتر علوم دے دئیے۔۔۔ انسان اپنی تحقیق کی بنیاد پر کن کن علوم تک رسائی نہیں حاصل کر چکا لیکن نیت کا علم خدا نے اپنے پاس ہی رکھا یہی اخلاصِ نیت کا امتحان ہے لیکن ہم مسلمانوں نے اسلام کو اپنے من کی کالک چھپانے کے لیے ایک روغن کے طور پر استعمال کیا۔  اب وہ کالک موقع ملتے ہی باہر دکھنے لگتی ہے۔  اس منافقت سے ہمیں نکلنا ہو گا۔۔ ان دوہرے معیاروں کو چھوڑنا ہو گا۔۔۔فطرتِ سلیم اور انسانیت کے بنیادی اصولوں پر اپنے فکری طرزِ فکر و عمل کو استوار کر کے ہی ہم معاشرتی برائیوں پر قابو پا سکتے ہیں اور اس معاشرے کو وہ معاشرہ بنا سکتے ہیں جن کو ہم برا بھی کہتے ہیں اور وہاں کی ویزا لاٹریاں بھی خریدتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا شرمناک ترین سانحہ اسی جشنِ آزادی کے دن کا لاہور ہی کی ایک سڑک کا ہے جہاں ایک رکشے میں پچھلی سیٹ پر دو خواتین اور درمیان میں بیٹھی بچی ہوتی ہے اور ایک لڑکا۔۔۔ اس معاشرے کے چہرے پر ایک غلاظت کا دھبہ ، سماج کے جسم پر ایک فکری پیپ سے بھرا ہوا ناسور ،انسان کے روپ میں ایک ایسا حیوان جس سے پلید و ناپاک جنگلی جانور بھی پناہ مانگیں رکشے پر چھلانگ لگاتا ہے اور ایک خاتون سے نازیبا حرکت کر کے فرار ہو جاتا ہے۔۔۔۔میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جیتے جی اپنے متلاشی پاکستانی قانون کو ملے یا نہ ملے ،مکافات کے شکنجے میں ایسا جکڑا جائے کہ زمین پر خدا اسے ایسی عبرت بنائے کہ درمیان میں بیٹھی اس اگلی نسل تک کے لیے سبق ہو جسکا پاس اس نے نہیں رکھا۔
(جاری ہے )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply