اور پرندہ اُڑ گیا۔۔خنساء سعید

وہ ایک لمبی اُڑان بھرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُس کے پَر بہت تندرست و توانا ہیں، جتنا مرضی چاہے اُڑ سکتی ہے۔
اُسے لگتا وہ ایک ایسے آزاد منش پرندے کی طرح ہے جو کھلی فضاؤں میں اُڑتا ہے، ساری ہواؤں کو اپنے تابع کر لیتا ہے، اور آسمان سے نیچے نظر آنے والے سارے گلستان، سارے نخلستان ،پیڑ، ڈالیاں، باغات، پھل، پھول اُس کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔۔۔

مگر اُس کی ماں نے، اُسے پہلے دن سے ہی سمجھا دیا تھا  کہ فضاؤں میں عقاب اور گِدھ بھی ہوتے ہیں، جو معصوم چڑیوں کو اپنے خونخوار پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں۔  اُس دن سے وہ ہر روز زنداں کے درو دیوار سے سر ٹکراتی، سلاخوں کے پیچھے وہ ایک آزاد منش پرندہ قلابازیاں لگاتا، مگر وہ آزاد نہ کیا جاتا۔ مسلسل ٹکرانے کے باعث اُس نے اپنے تندرست و توانا پَر لہولہان کر لیے، اُس کی سسکیوں کے واحد گواہ قید خانے کے درودیوار بن گئے ۔ آخر کار وہ اپنا زخمی وجود لیے قید خانے کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا ۔

اُسے جب قید خانے میں گھٹن محسوس ہوتی، چاروں اُوور پھیلی اداسی اور تنہائی جب اُسے مضطرب کرتی، اور جب سوچوں کے لامتناہی سمندر میں ڈوب ڈوب کر ابھرتی اور ابھر اُبھر کر ڈوبتی،
تو کہتی !
“اذیت کی اس اندھی کھائی میں گرے رہنے سے بہتر ہے، میں یہاں سے فرار ہو جاؤں۔۔۔ پھر چاہے زمین مجھ پر تنگ ہی کیوں نہ کر دی جائے آسمان مجھ پر کیوں نہ آ گرے۔۔۔۔ اس زنداں سے تو رہائی ملے گی۔ ”
پھر جب وہ اپنے حواس میں واپس آتی تو کہتی۔۔
“نہیں نہیں میں نہیں فرار ہوں گی ماں کی بات مان لینے میں بھلائی ہے۔۔”

اسی تذبذب میں کئی سال گزر گئے زنداں کے درو دیوار اب اُسے بھانے لگے، مگر فرار کی خواہش آج بھی دل میں کانٹے کی طرح چبھتی۔
یوں تو اُس کے سارے خواب ساری خواہشیں اپنی موت آپ مر گئی تھیں، اُس نے اپنے قید خانے میں ان کے لاشے ایک کونے میں جمع کر رکھے تھے۔، جن میں اب تعفن کے بھبھوکے اُٹھنے لگے تھے۔ ۔مگر وہ نہ ہی اُن لاشوں کو دفنا سکتی تھی اور نہ ہی جلا سکتی تھی، آخر کو وہ اُس کے خواب تھے۔۔۔۔ مگر جب تعفن سے سانس لینا محال ہو جاتا، تو وہ پھر فرار کا سوچنے لگتی ۔

پھر ایک دن اُس نے اپنی اُس خواہش کو پورا کر ہی دیا، رات کے پچھلے پہر وہ اُٹھی پاؤں میں جوتا پہن کر فرار ہو گئی۔۔۔۔۔وہ ابھی گھر سے نکلی ہی تھی کہ زمین اس سے روٹھ گئی،زمین نے اُسے کوئی راستہ نہ دیا اور اُس کے راستے میں جنگل اور صحرا بچھا دئیے۔۔

جنگل میں اُس کو دیکھ کر پھن پھیلاتے سانپ نکل آئے، بھیڑیے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر خوشی سے آوازیں نکالنے لگے، شیر اپنی کچھاروں سے باہر آئے، لگڑبھگے بھی اپنا جھنڈ اکٹھا کرنے لگے، کیوں کہ انہیں ایک شکار مل گیا تھا، اُسے لگا جیسے کالی رات اپنی سیاہی لیے اُسے بھنبھوڑ ڈالے گی، وہ ڈر کر واپس بھاگی۔  اُس کے کپڑے جھاڑیوں سے اُلجھ کر لیر لیر ہونے لگے، پاؤں لہولہان ہوگئے۔

واپس آئی تو شکر کیا کہ دروازہ ابھی کُھلا ہوا تھا۔۔۔۔ کسی کو اس کے فرار ہونے کا پتہ نہیں چلا تھا۔  وہ اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کر لیا ۔
ابھی وہ دروازہ بند کر کے لیٹنے ہی لگی تھی کہ ماں آ گئی۔۔۔۔۔۔
ہو گیا تمہارا شوق پورا؟
کیوں؟
اب یہ شکل پر وحشت کیوں طاری کر رکھی ہے؟

ارے پکلی !میں نے بارہا تمہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ، عورت فرار نہیں ہوتی۔  عورت روایات سے بغاوت کرے تو نہ زمین اُسے اپناتی ہے اور نہ ہی باہر کے جنگل اور صحرا۔۔۔۔۔ سانپ، بھیڑیے، لگڑبھگے ،گدھ ،سب اُس پر آ جھپٹتے ہیں ۔۔ یہ جس کو تم پنجرہ کہتی ہو اس پنجرے میں پڑی آزاد رہو،،اور مخفوظ رہو ۔ عورت کے لیے ایسے ہی پنجرے ہوتے ہیں۔۔۔۔روایات کا پنجرہ، تہذیب و تمدن کا پنجرہ، عزت و ناموس کا پنجرہ میں بھی تو آج تک انہی پنجروں کی قیدی رہی ہوں۔
یہ سن کر وہ اُٹھی!
اور کھڑکی میں سے صاف نظر آنے والے آسمان، پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے چاند، اور ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھ کر، زخمی دل سے ایک ہی فریاد کرنے لگی۔۔
“اے میرے پروردگار مجھے آزاد کر کہ میں اپنے پروں پر اُڑ سکوں۔ ۔ مجھے اُڑان کے لئے ایسی فضا عطا کر کہ کوئی عقاب کوئی گدھ مجھے نہ دبوچے۔
اور رات کے پچھلے پہر اتنی تڑپ اور شدت سے مانگی دعائیں بھلا کب رد ہوتی ہیں۔
پروردگار نے اُس کو ایک لمبی، نہ تھکنے، نہ ختم ہونے والی اُڑان کے لیے چن لیا۔۔
اُس کی روح کا پرندہ ہلکا سا پھڑپھڑایا!
اور اُس کے جسم کو خیر باد کہتا ہوا اُڑ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دفعہ وہ آزاد منش پرندہ زمین کی نہیں  ، آسمان کی بلند اور وسیع فضاؤں میں اُڑان بھر چکا تھا۔  اور سارے گلستان، سارے نخلستان سارے باغ، پھل، پھول پیڑ، ڈالیاں آج حقیقت میں اُس کی دسترس میں تھے، وہ جہاں چاہے مکمل آزادی سے پھدک سکتی  تھی  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply