کپاس (40) ۔ امریکی خانہ جنگی/وہاراامباکر

اپریل 1861 کو فورٹ سمٹر میں بندوق سے اگلی جانے والی گولیاں امریکی خانہ جنگی کا آغاز تھیں۔
اور اس وقت امریکہ کی برآمدات کا 61 فیصد خام کپاس تھی۔ یورپ کی صنعت اس پر منحصر تھی۔ سستی زمین، غلامی کے نظام اور کریڈٹ نے امریکہ کو زرعی سپرپاور بنا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوب میں رہنے والے جاگیرداروں کا کہنا تھا، “کاٹن اور غلامی جدید دنیا کے لئے ناگزیر ہیں”۔ امریکی سینیٹ میں سینیٹر جیمز ہیمنڈ نے کہا، “اگر اس نظام کو ہلایا گیا تو برطانیہ گر پڑے گا اور اس کے ساتھ ہی تمام دنیا۔ ہم سے جنگ نہیں کی جا سکتی”۔
لیکن سمندرپار مانچسٹر کاٹن سپلائی ایسوسی ایشن نے 1861 میں خبردار کیا تھا، “غلامی کا نظام جاری نہیں رہ سکتا۔ اس میں اخلاقی قباحتیں بھی ہیں اور یہ مستحکم نہیں۔ ایسا نظام دیر تک قائم نہیں رہ سکتا جس میں ظلم اور جبر ہو”۔
امریکہ کے شمال کا انحصار جاگیرداری نظام پر نہیں تھا، (اس کی وجہ یہاں کی زمین اور موسم تھا) جبکہ جنوب میں صورتحال اس سے برعکس تھی۔ مذہبی راہنما جان مارش مین نے لکھا، “جنوب کی ترقی کا انحصار تیس سے چالیس لاکھ لوگوں کو غلام بنانے کے جرم پر قائم ہے۔ یہ ہمیشہ قائل نہیں رہ سکتا۔ خدا کی طرف سے ایسے نظام گرا دئے جاتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں”۔
اور یہ دن بارہ اپریل 1861 کو آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز جنوب کی علیحدگی فوج (کنفیڈریٹ) نے وفاقی حکومت کے قلعے پر گولیاں چلائیں۔ شروع ہونے والے اس بحران کے بعد نہ غلامی ویسے رہی اور نہ کپاس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوب میں کنفیڈریٹ خود کو الگ ملک کے طور پر تسلیم کروانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے برطانیہ پر دباوٗ ڈالنے کے لئے برطانیہ کو کپاس کی ہر قسم کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ اگرچہ کچھ سمگلنگ چلتی رہی لیکن اس پابندی نے کپاس کی برآمد تقریباً ختم کر دی۔ 1862 میں اس کو “کپاس کا قحط” کہا جاتا ہے جس کے بڑے اثرات ہوئے۔
کیا یہ واپس آئے گی بھی یا نہیں؟ یہ سوال دنیا بھر میں پالیسی سازوں، تاجروں، صنعتکاروں، مزدوروں اور کاشتکاروں کے ذہن میں تھا۔
برطانیہ میں 1862 میں کارخانے بند ہونے لگ گئے۔ کچھ کارخانے ہفتے میں چند روز چلتے تھے، کچھ کسی روز بھی نہیں۔ کپاس کی قیمت سول وار سے پہلے کی قیمت کے مقابلے میں چار گنا ہو گئی۔ دسیوں ہزار مزدور بے روزگار ہو گئے۔ دو تہائی کارخانے متاثر ہوئے۔
لنکاشائر میں 1863 کی آمد پر ایک چوتھائی آبادی بے روزگار ہو چکی تھی اور حکومتی امداد یا خیرات پر گزارا کر رہی تھی۔ اس سال کپاس سے وابستہ کئی برطانوی شہروں میں بے روزگار مزدوروں کے احتجاج شروع ہو گئے۔ صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوج بلا لی گئی۔
ایسا ہی بحران باقی یورپ میں پھیل رہا تھا۔ فرانس میں اس سال اکتالیس فیصد لوم بند ہو چکی تھیں۔ السیشیا کے شہر میں احتجاج کا مقبول نعرہ تھا، “روٹی یا موت”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں صنعت بند ہو رہی تھی اور سپیننگ اور ویونگ سے وابستہ لوگ مشکل میں تھے۔ کچھ عرصے کے لئے تاجر ایک سنہرے دور سے گزر رہے تھے۔ کپاس کی چڑھتی قیمت نے نئی قسم کے “سرمایہ کار” کو جنم دیا تھا۔ ڈاکٹر، انجینر وکیل، گھریلو خواتین، بیوائیں، ہنرمند۔ کپاس speculators کا کھیل بن گئی۔
اور قیمت کے اس اتار چڑھاوٗ کو کنٹرول میں لانے کے لئے نئی اداراتی تبدیلیاں آئیں جن میں رسمی طور پر فیوچرز مارکیٹ کا قیام ایک اہم عنصر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صنعت کی طرف سے ریاست پر پریشر آ رہا تھا کہ وہ کپاس کے نئے ذرائع کھولنے کے لئے کچھ کرے۔ فرانس میں صنعتکاروں نے نپولین سے اپیل کی کہ چینی مزدوروں کو الجیریا لایا جائے اور وہاں کپاس اگانے پر توجہ دی جائے۔ کئی یورپی اہلکاروں نے امریکی علیحدگی پسندوں کو تسلیم کرنے کی سفارش کی تا کہ تجارت کا راستہ واپس کھل سکے۔ پارلیمان میں اس پر مباحث ہوئے۔
کپاس اب ریاست کا مسئلہ بن چکی تھی۔ صنعتی پیداوار میں ہونے والی بھاری سرمایہ کاری تاریخِ انسانی کی ایک انوکھی جدت تھی۔ لیکن اس کا احساس اب ٹھیک طریقے سے ہوا تھا کہ اس کے لئے زمین، محنت اور سرمایے کی مستقل اور مسلسل سپلائی کی ضرورت تھی۔
سیاسی قائدین کو کپاس کے قحط سے ٹھیک احساس ہوا کہ صنعتی کیپٹلزم کے لئے سپلائی کی زنجیر کا استحکام کتنا ضروری ہے۔
برطانوی پارلیمان میں اس پر بحث ہو رہی تھی۔ فرانس کی کالونیل وزرات حکمتِ عملی بنا رہی تھی کہ اب نئی سپلائی کہاں سے حاصل کی جائے؟ گیانا، تھائی لینڈ، الجیریا، مصر اور سینیگال جیسے علاقوں کی حکمت عملی بنائی جا رہی تھی۔ اس سے ایک نیا خاکہ ابھر رہا تھا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر فورٹ سمٹر میں ہونے والی جنگ کا خاکہ ہے جہاں سے امریکی خانہ جنگی شروع ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply