جنگلی گلاب۔۔سیّد محمد زاہد

گرچہ اس کی موت کی خبر بہت بعد میں ملی لیکن میرے لئے تو وہ اس سے بھی  پہلے مر چکا تھا۔ وہ جو کبھی میرے خیالوں سے اوجھل نہ ہوا، اس کی موت کی خبر سن کر بھی میرا خوف غم میں نہیں ڈھلا تھا۔ وہ غم جو کسی قریبی ہستی کے منوں مٹی کے نیچے سو جانے سے محسوس ہوتا ہے۔ ہستی بھی ایسی جو کلیتہً و صراحتہً ہماری سوچ میں محفوظ ہوتی ہے۔

اس کی آخری ملاقات میں کبھی نہیں بھول سکتی۔

آدھی رات ڈھل چکی تھی۔ جاتے وقت وہ مجھے حسرت زدہ نظروں سے تک رہا تھا۔ اس کی موٹی آبنوسی  آنکھیں خوفناک تاریکیوں کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ گلیوں کے سناٹوں کو توڑتی گھن گرج اور پھنکارتی ہوئی سنسناہٹ آسیب زدہ ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھی۔

 جب وہ جانے لگا تو میں نے اس کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا۔ کھڑکی سے اسے دور تک جاتے دیکھتی رہی۔ صرف ایک ہی سوچ تھی کہ کہیں اس کا ارادہ نہ بدل جائے۔  وہ چلا گیا اور پھر اطلاع ملی کہ وہ کبھی نہیں آئے گا۔  اس کے ساتھ گزرے پانچ سال اور اس کے مظالم جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے تھے، سب یاد آرہے تھے۔ وہ بہت محبت کرتا تھا مجھ سے لیکن اس کا خوف، نفرت اور زندگی سے وحشت کا زہر اس محبت کی مٹھاس میں کڑواہٹ گھول دیتا تھا۔

میری اس کی ملاقات ایک مذہبی تقریب میں ہوئی تھی۔ میرے استاد نے بتایا تھا کہ وہ انتہائی نیک اور مخلص شخص ہے۔ چشم تصور سے آج بھی دیکھ سکتی ہوں کہ وہ سفید ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس تھا جس کے گرد ایک نوری ہالہ لپٹا دکھائی دیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی اس نے مجھے جنگلی گلابوں کا ایک گلدستہ پیش کیا جس میں پھولوں سے زیادہ پتے اور کانٹے تھے۔ ساتھ ہی  کہنے لگا “سبز پتے ان پھولوں کا پردہ اور کانٹے ان کی حفاظت پر معمورہیں۔” پھر وہ  میرے گھر آیا تو اسی گلاب کا ایک پودا صحن میں لگا دیا۔

وہ  پودا بڑھتا چلا گیا اور ایک بڑی سی جھاڑی بن کر بام و دالان اور در و دیوار سب سے لپٹ گیا۔ عجب جنگلی گلاب تھا کہ اس  کے جانے کے بعد خنجر جیسے نوکدار کانٹوں والی اس بے رحم جھاڑی کو اکھاڑتے ہوئے بارہا میں نے اپنے ہاتھ زخمی کیے لیکن وہ پھر اپج آتا۔ اس کی موت کی خبر ملی تو میری بیٹی بھی جوان ہو چکی تھی۔ اب کی بار ہم دونوں نے اس کی جڑیں گہرائیوں تک کھود دیں۔ ہر سال موسم برسات میں میرا دھیان اسی طرف ہی جاتا لیکن وہ اس کے بعد نہ پھوٹا۔

سال ہا سال رفت و گزشت ہوئے اور ساتھ ہی اس کی یادیں بھی۔ بیٹی کی محبت نے،  زندگی کی مسرت نے اس ساری حماقت کو محو کر دیا۔ ہم گھنٹوں کھلی ہوا میں گزار دیتی ہیں۔ طویل اور تنہا سیریں کرتی ہیں۔  ہم دونوں لوگوں سے آزادانہ ملتے ہیں۔ زرفشاں بہت پیاری لڑکی ہے۔ کتھئی شام کا سورج جب اس کی آنکھوں میں ڈوبتا ہے تو اس کے چہرے کی رنگت افق پر شفق بکھیر دیتی ہے۔ سردیوں کی یخ بستہ راتیں ہوں، یا گرمیوں  کے دن اس کے حسن کے پھول مہکتے ہی رہتے ہیں۔ ہر قسم کے اندیشہ و فکر سے مبرا ہو کر وہ اس شہر کی گلیوں بازاروں میں گھومتی ہے۔

کل شام وہ سفید گلابوں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے خوش خوش گھر آئی۔ وہ کچھ نہ بولی لیکن اس کا انگ انگ بول رہا تھا۔

آج سورج غروب ہونے سے پہلے ہی وہ واپس آگئی۔ نوجوان، خوبصورت نیلی آنکھوں والا ایک لڑکا اس کے ساتھ ہے۔ پنبہ ساں زلفیں لمبی گردن سے لپٹی ہوئی تھیں۔ آتشیں رخساروں پر سبزہ نمایاں ہو چکا تھا۔ باریک کٹی ہوئی مونچھوں تلے موجود موٹے ہونٹوں کوہلکی سی جنبش دے کر بولا “ میں زرفشاں کو بہت چاہتا ہوں۔ اسے خوش رکھوں گا۔”

سفید لباس میں ملبوس وہ آسمانی مخلوق ہی دکھائی دیتا ہے۔ نور کا ہالہ اس کے گول چہرے کو پُر رونق بنا رہا ہے۔ شہر کی  پُرسکون گلیوں اور بازاروں میں آج کوئی آسیب زدہ سنسناہٹ یا گھن گرج بھی نہیں ہے۔ مکمل سناٹا ہے۔ سامنے میز پر پڑے سفید گلابوں کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے صحن میں دیکھا تو جنگلی گلاب کی جھاڑی پھر پنپ اٹھی تھی۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply