کابل، امریکہ اور گیم آف تھرونز۔۔ذیشان محمود

کارل مارکس کا مشہور قول ہے:
‘تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، اول المیہ کے طور پر ، دوسرا طنز کے طور پر۔’
کابل دنیا کا وہ معروف شہر جو زبان زد عام ہے۔ لیکن ٹھہریے یہ دبئی، پیرس، وینس یا میامی کی طرح دلفریب مناظر کی وجہ سےنہیں اور نہ ٹوکیو، لندن یا واشنگٹن ڈی سی کی طرح ایسے دارالحکومت ہیں جہاں جانا ہر کس و ناکس کے لئے ایک خواب ہے۔
قریباً 40 سال سے جاری جنگ تو مستحضر نہیں البتہ بچپن سے طالبان کا نام خوب یاد ہے کیونکہ اخبارات میں طالبان کے بیانات پڑھ پڑھ کر ان کی مذہبی شدت پسندی کا علم ہوتا رہتا تھا۔
لیکن دنیا کو طالبان کا اصل چہرہ تو 9/11 کو نظر آیا یا دنیا کو دکھایا گیا۔ مجھے وہ دن خوب یاد ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا آخری دور تھا۔ پی ٹی وی مسلسل ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتوں المعروف Twin Towers سے طیارے کے ٹکرانے اور پھر ان کے گرنے کا منظر دکھا رہا تھا۔
تب طالبان کے ساتھ ایک اور نام اسامہ بن لادن ذہن میں ایسا نقش ہو گیا کہ ہر کس و ناکس سے اس سے ڈرتا یا گن گاتا نظر آتا۔ یہاں تک کہ 2011ء میں ہمارے گریجویشن کے انگریزی کے سالانہ پرچہ میں بھی اسامہ بن لادن کی موت اور پاکستان کے کردار سے متعلق سوال ڈالا گیا۔ معلوم نہیں کہ ممتحن اسامہ کے حامی تھے یا مخالف لیکن انہوں نے ہمارے جواب سے مطمئن ہو کر ہمیں انگریزی میں پاس ضرور کر دیا۔
9/11 کے دلخراش سانحہ کے بعد کراچی میں ہر جگہ افغانی مہاجرین نظر آنے لگے۔ خاموش، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس، سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں کچرے جمع کرنے کا تھیلا لئے گلی گلی گھومتے نظر آتے۔ جب ان کی اردو سے شناسائی ہوئی تو بعض نے سبزی اور پھلوں کی ریڑھی لگا لی۔
ایک بار علی الصبح ایک افغانی مہاجر لڑکے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور دس ہزار کے افغانی نوٹ کے بدلے پچاس روپے مانگنے لگا۔ کرنسی کی اتنی سمجھ تو تھی نہیں۔ بار بار ہاتھ سے منہ کی طرف اشارہ کر کے بھوک کا اشارہ کرتا۔ اس کو پچاس روپے دے کر وہ نوٹ سنبھال لیا۔ بعد میں معلوم ہوا اس کی کچھ وقعت تو تھی نہیں تو اسے البم کی زینت بنا لیا۔
کراچی ویسے ہی مہاجروں کا شہر کہلاتا ہے تو مزید مہاجرین کو آشیانہ فراہم کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ کراچی کا دل اس کے سمندر کی طرح وسیع ہی ہے۔ پھر ہر جگہ افغانی مہاجرین نظر آنے لگے بسوں میں، سڑک کنارے مزدوروں کے ساتھ کام کے  انتظار میں، بازار یا جمعہ بازار میں دکان لگاتے اور گلیوں میں کچرا چنتے۔لیکن کوئی سکول میں نظر نہ آیا کیونکہ بچے بھی کچرا چنتے ہی نظر آتے۔ یہ افغانی مہاجرین بھیک نہیں مانگتے تھے، اس کے لئے ہمارا اپنا مافیا ہی کافی تھا۔
جب چائنہ کی مارکیٹ بڑھی تو ‘سب چائنہ اے’ کے سٹال یا ریڑھیاں یا ہاتھوں میں مختلف چیزیں اٹھائے گلی گلی یا چوک یا چورنگیوں پر یہ پھرتے نظر آتے۔ لیکن پھر بھی پشتون یا پختون اور افغانیوں میں فرق کا معیار یہ ٹھہرا کہ افغانی تو صرف کچرا چنتے ہیں۔
گزشتہ صدی سے ہی امریکہ سپر پاور ہے اور دنیا کے نقشہ پر اپنے محل وقوع کے سبب حکمرانی کر رہا ہے۔ اپنے مغرب سے دنیا کے مشرق کو اور اپنے مشرق سے دنیا کے مغرب کو دور رکھے ہوئے ہے۔ اس تک جانے کے لئے سات سمندر حقیقتاً پار کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن اسے بھی سات سمندر پار کرکے دنیا میں آنا تھا۔ اس لئے اس نے مشرق میں divide and rule کی گیم گھیلی۔
9/11 کے بعد پوری دنیا بدل چکی تھی۔ ہر ملک نے اپنا دفاع مضبوط کیا۔ لیکن کابل کے پڑوسی ممالک کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔ سپر پاور کے مقابل جو آتا گیا وہ اسے کچلتا رہا۔ اور جمہوریت کے نام پر خود آمریت سے اتحاد بناتا رہا۔ لیکن یہ گھتی کوئی سلجھا نہ سکا کہ سپر پاور کو اسلامی ممالک سے ہی خطرہ کیوں؟
وقت گزرتا رہا دھیرے دھیرے رات ڈھلتی رہی اور صبح کی سفیدی ظاہر ہونی شروع ہوئی۔ یہ رات بہت لمبی تھی، بیس سال لمبی رات۔ جیسے گیم آف تھرونز میں سارے قبائل کے سر پر سردیوں کا ایسا خوف طاری رہا کہ جیسے دنیا کا خاتمہ ہونے چلا ہو، پھر اچانک ایک رات میں ہی اس عود آئی سردی کا خاتمہ ہوگیا۔ اور باہر سے آئی مصیبت ختم ہوئی۔
بعینہ یہی کچھ کابل کے ساتھ ہوا۔ تاریخ دہرائی گئی۔ المیوں کے ساتھ ہی طنز وارد ہوا۔ یک نہ شد دو شد!
طالبان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا گیا۔ پھر علاقے تقسیم ہوئے Game of Throne کی طرحUN ،G7، نیٹو اور نہ نجانے کون کون سی طاقتوں کے اتحاد نے مل کر ایک صدر افغانستان پر بٹھا دیا۔ اس اتحادی افواج اور جمہوریت کے نفاذ کے باوجود امن عام قائم نہ ہوسکا۔ یو ایس کے ڈرون نما ڈریگن نے عوام پر جب چاہا آگ برسائی یا جاتے جاتے آسمان سے نیچے پٹخ دیا۔ مرکز پر حکومت کے لئے ہر کوئی پر تول رہا تھا۔ ہر کوئی راجہ بننے کا خواب آنکھوں میں سمائے بیٹھا تھا۔
مرکزی حکومتی اور چند اتحادی اہلکار مرتے رہے۔ دشمن سے بچاؤ کے لئے قائم کی گئی امریکی دیوار میں شگاف پڑ گئے۔ حفاظتی دستے تھک گئے۔ پھر یکایک دیوار ٹوٹنی شروع ہوئی اور آخری وار میں حکومت بھی ڈھے گئی۔
تاج و تخت کی لڑائی میں جیت تخت کے وارث کی ہوئی، عوام پس گئی اور بالآخر کابل کا سقوط عمل میں آگیا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بظاہر فاتح ہی حکمران بنتا ہے یا کوئی پوشیدگی میں بیٹھی طاقت تخت کی اصل وارث بن کر سامنے آتی ہے۔
ایک بات تو طے ہے جیسے گیم آف تھرونز میں پیٹر جب کہتا ہے کہ Knowledge is power تو ملکہ سرسی اس کو سر عام طاقت کا مظاہرہ کر کے کہتی ہے Power is power۔
یہی حقیقت ہے حکمرانوں کی لڑائی تو عوام اور فوجی لڑتے ہیں۔ عام آدمی کے لئے تو فرش ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ حاکم کو یا تو فتح پر تخت نشینی اور بالاخانے ملتے ہیں یا شکست کھانے پر پاتال کی سرنگوں سے وہ فرار ہوجاتا ہے۔ اس بات سے لاپرواہ کہ اب عوام کے سر پر کون ہوگا۔ ایسے حکام کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی اور یہی تاریخ ہے، یہی المیہ ہے اور یہی طنز ہے۔ کیونکہ گیم آف تھرونز چلتی رہی ہے اور چلتی رہے گی۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply