عمر گزار دیجیئے، عمر گزار دی گئی۔۔سید مہدی بخاری

اگر میں اپنے اسکول کے دور کو یاد کروں تو اس زمانے میں ہم بچوں کی دنیا میں بس چند گنے چنے ملک ہی تھے۔ بھارت ملک نہیں تھا دشمن تھا۔ مگر ہندوستان کا ذکر اچھے لفظوں میں ہوتا تھا کیونکہ ہمارے اساتذہ کے مطابق بھارت کے برعکس ہندوستان میں مسلمان زیادہ سکھی رہا کرتے تھے۔
ہم بچوں کو یہ کنفیوژن بھی رہتا تھا کہ انگریز کس ملک سے آئے۔ تب تک ہمارے ننھنے منے ذہنوں میں برطانیہ ایک الگ ملک تھا اور انگریز ایک الگ خانے میں تھے۔ فرنگی صرف پنجابی فلموں میں پایا جاتا تھا اور اسے اوئے فرنگیا کہتے تھے۔
امریکا کے بارے میں اس وقت بھی طے نہیں تھا کہ وہ ہمارا دوست زیادہ ہے کہ دشمن زیادہ۔ بہرحال کچھ نہ کچھ زیادہ ضرور تھا۔ سرکاری اسکول میں جب کبھی یو ایس ایڈ (USAID) کا دودھ تقسیم ہوتا تو امریکا دودھ شریک بھائی محسوس ہوتا۔ مگر جب کالج کے لفنگے ہر جمعرات جلوس لے کر اسکول کے گیٹ تک آتے تو “امریکا کتا ہائے ہائے” سننے میں بھی مزہ آتا۔
چین اس لئے ہم بچوں کو ازبر تھا کیونکہ ماوزے تنگ وہیں کے رہنے والے تھے اور ہمارے کانوں میں اکثر پڑتا رہتا تھا کہ ماوزے تنگ نے چین کے کسانوں کو صنعت میں ڈھال کر انقلاب برپا کر دیا۔روس کا نام ضرور سنا تھا مگر اس پر کبھی کوئی زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔زیادہ سے زیادہ یہی کہہ کے ٹال دیا جاتا کہ روس کیمونسٹ ہے اور کیمونسٹ ہونا اچھی بات نہیں۔ دینیات کے استاد ماسٹر غلام محمد کا کہنا تھا کہ کیمونسٹ وہ ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے۔
افغانستان کے بارے میں یہ تو معلوم تھا کہ وہ ہمارا ایک مسلمان ہمسایہ ہے مگر افغانستان اور پختونستان کا نام جانے کیوں ایک ساتھ سننے کو ملتا تھا۔ کوئی برہان الدین ربانی نامی شخص تھا جس کا ذکر افغانستان کے ذکر کے ساتھ آیا کرتا وہیں ملا عمر کا نام بھی سنائی دیتا۔
البتہ سب سے زیادہ تذکرہ ایران کا سننے میں آتا۔کیونکہ فارسی وہیں سے آئی تھی اور فارسی ہمارے اسکول میں بھی پڑھائی جاتی تھی۔ویسے تو عربی بھی تھی مگر زیادہ تر بچے فارسی کا مضمون ہی اختیار کرتے تھے کیونکہ ماسٹر غلام صابر جب پنجابی لہجے میں ایں چیست پڑھاتے تھے تو مطلب فوراً سمجھ میں آ جاتا۔اس کے علاوہ بچوں کو معاشرتی علوم کے پیریڈ میں آر سی ڈی کے بارے میں بھی بتایا جاتا تھا کہ پاکستان ، ایران اور ترکی اصل میں تین جڑواں بھائی ہیں اس لیے انہیں پیار سے آر سی ڈی کہا جاتا ہے۔کمال اتاترک پر الگ سے ایک باب پانچویں جماعت کی کتاب میں بھی شامل تھا۔
متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی کا نام یوں سننے میں آیا کہ ایک دن اسکول میں خبر پھیل گئی کہ ابوظہبی سے کوئی عرب شہزادہ کسی تلور نامی پرندے کے شکار کے لئے بہت بڑی بڑی جیپیں لایا ہے اور ہر جیپ اندر سے برف کی طرح ٹھنڈی ہے۔شاہ بھی ٹھنڈے خیمے میں رہتا ہے اور جہاں سے بھی گزرتا ہے پیسے بانٹتا ہے۔
اسی زمانے میں خالہ صغری حج کر کے آئیں اور مکہ شریف سے کھجوریں اور آب زم زم سے بھرا پلاسٹک کا بڑا جیری کین ، کچھ جائے نمازیں ، تسبیحات لے کے آئیں۔میری اماں کے ہمراہ بہت سی محلے دار خالائیں مبارک باد دینے گئیں۔ایک نے پوچھا سعودی عرب کیسا لگا ؟ خالہ نے فوراً تصیحح کی ہم تو جدہ میں جہاز سے اتر کے مکہ مدینہ گئے تھے، سعودی عرب تھوڑا گئے تھے۔حج کے تین برس بعد ان انتقال ہو گیا مگر آب زم زم کا کین تب بھی آدھا بھرا ہوا تھا کیونکہ خالہ صغری آئی ڈراپس والی نلکی میں آب زم زم بھر کے سادہ پانی سے بھرے گلاس میں احتیاط سے ٹپکا کر صرف مہمانوں کو ہی پلایا کرتی تھیں۔چنانچہ اس کین میں بچے ہوئے زم زم میں کفن بھگو کر خالہ کو پہنایا گیا تو کین خالی ہوا مگر خالہ کی بیٹی نے یہ خالی کین بھی احتیاط سے اونچی جگہ رکھ دیا۔آخر کو مکہ شریف سے جو آیا تھا۔ یہ آب زم زم کا خالی کین سعودی عرب سے پہلا تعارف تھا۔اور پھر جب آس پڑوس کے لوگ محنت مزدوری کے لئے وہاں جانے اور لندے پھندے سوٹ کیسوں کے ساتھ آنے لگے تب اندازہ ہوا کہ سعودی عرب تو بہت مہربان ملک ہے۔
ہمارے گھر میں بچوں کے جو رسالے آتے تھے ان میں بہت سی کہانیاں ایسے شروع ہوتی تھیں “بہت دنوں پہلے ملک شام میں کوئی خدا ترس بادشاہ حکومت کرتا تھا اور ملکہ صبا کی کہانی پڑھی تو معلوم پڑا کہ یمن بھی کوئی ملک ہے اور ملکہ کے حسن کے چرچے دور دور تک ہیں اور وہ جو پتھر پہنتی ہے اسے لعلِ یمن کہتے ہیں اور جہاں وہ رہتی ہے اسے باغِ عدن کہتے ہیں جو اتنا خوبصورت ہے اتنا خوبصورت ہے کہ بس کیا بتائیں۔
مصر کے بارے میں پہلی مرتبہ پی ٹی ماسٹر محمد نواز نے بتایا تھا کہ وہاں فرعون رہتا تھا اور پھر قلو پطرہ نے بھی حکومت کی اور یوسف زلیخا کا واقعہ بھی مصر کا ہی ہے اور حضرت موسیٰ بھی وہیں رہا کرتے تھے پھر ایک دن مکار یہودی انہیں باتوں میں لگا کر اپنے ساتھ لے گئے اور صحرا میں چالیس سال مارا مارا پھرایا۔ لیکن آج کا مصر کیسا ہے۔ ماسٹر نواز سمیت کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ تو جب جمال عبدالناصر کے جنازے کی تصویریں ایک پرانے رسالے میں دیکھیں تب تھوڑا بہت پتہ چلا۔ ا س ر ا ئ ی ل کا اصل چہرہ کیا ہے اور ف ل س ط ی ن کا مسئلہ کیا ہے یہ عقدہ کھولا ریاض شاہد کی فلم زرقا نے جس میں نیلو ف ل س ط ی ن بنی تھی اور آغا طالش ا س ر ا ئ ی ل۔۔۔
تو یہ تھا میرے بچپن کی دنیا کا نقشہ۔ پاکستانیوں کو جدید مشرق وسطی سے متعارف کرانے والی بنیادی شخصیت زوالفقار علی بھٹو کی تھی۔فروری سن 74 کی اسلامی سربراہ کانفرنس نے عام پاکستانی کو یاسر عرفات اور کرنل قذافی سے متعارف کروایا۔ پھر پاکستانی تارکین وطن کے سامان کے ساتھ بحرین ، کویت ، قطر ، عمان اور سب سے بڑھ کے دوبئی کے دیومالائی قصے بھی بندھ کے آنے لگے۔ ابا کے دوست محلہ دار شیخ محمد طفیل نے تو کویت سے واپسی پر اپنا نام ہی شیخ محمد طفیل الباکستانی رکھ لیا اور جمعہ کے جمعہ کفتان زیب تن کرنے لگا۔ عربوں سے ادھار تیل اور مالی تعاون کا رشتہ بڑھا تو اس دوران درسی کتابوں سے ایران اور ترکی آر سی ڈی کے راستے جانے کب دبے پاؤں نکل لئے۔
پھر بڑے ہوئے تو معلوم پڑا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کا لائل پور آج کا فیصل آباد ہو گیا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کا تعارف ہو گئی۔ فیصل مسجد بنی تو بغل میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی بھی بن گئی۔یونیورسٹی بنی تو پاکستان میں سعودی علما کی رہنمائی و سرپرستی میں شرعی قوانین بھی نافذ ہونے لگے۔ افغانستان میں روسی فوج کیا آئی کہ چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔پاکستان مشرقِ بعید سے شمالی افریقہ تک کے برادران ملت اور ماسٹر ٹرینرز کا استقبالیہ کیمپ بن گیا اور پھر یہ کیمپ قائم و دائم رکھنے کا خرچہ پانی آنے لگا۔روسی فوج کبھی کی چلی بھی گئی مگر مہمان احتیاطاً عالم اسلام کے قلعے میں ہی رہے مبادا کوئی اور روس کے بھیس میں آ جائے۔
رفتہ رفتہ فضا اس قدر سازگار ہوتی چلی گئی کہ “پسینہ تمہارا خون ہمارا ” کے فارمولے کے تحت سب کچھ ہی سانجھا ہو گیا۔ کیا ریاض ، کیا دوبئی اور کیا اسلام آباد۔من و تو کا ٹنٹا ہی نہ رہا۔
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال بھی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
ان کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے ، عمر گزار دی گئی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply