خاتون ٹک ٹاکر ۔اظہر سید

خاتون ٹک ٹاکر کو قصور وار ٹھہرانے والے اپنے گھر کی خواتین سے حقائق جان لیں ۔ اگر سچ بتایا ,انکی بیٹی ، بیوی، بہن اور اہلیہ بتائے گی کہ ہجوم والی جگہوں پر لڑکے ،مرد ہر عمر ،رنگ اور نسل کے بیشتر موقع پاتے ہی انہیں ٹچ کریں گے ۔ یقین نہیں آتا تو آج ہی اپنی بیٹی یا بہن کو کسی اسی جگہ لے جائیں جہاں بہت رش ہو وہاں کوئی نہ کوئی مومن موقع ملتے ہی ضرور انہیں ہاتھ لگائے گا ۔ہم ایسے مومن ہیں ،جو معاشرے کو کچھ نہیں کہیں گے اپنی خواتین کو احتیاط کا کہیں گے ۔اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ہم اس قدر غلیظ ہیں حسد اور جلن میں اپنے خاندان کی بیٹیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

بطور صحافی دنیا کے متعدد ممالک کا وزٹ کیا،لیکن  جو درندگی اور گھٹیا پن    ہمارے 27 رمضان کو بننے والے ملک کے مومنوں کا ہے کہیں نہیں دیکھا ۔برطانیہ اور آئرلینڈ میں رات دو بجے یونیورسٹیوں کی نوجوان لڑکیوں کو تین چار گھنٹے کی جاب سے پیدل اپنے ہاسٹل جاتے دیکھا ،ہمیشہ مثال دیتا ہوں ،بے فکری سے اکیلی یا دوستوں کے ساتھ محفوظ خوش گپیاں کرتے جا رہی ہیں ۔کوئی نہیں چھیڑتا ،کوئی پیچھا نہیں کرتا ،ٹچ کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔پاکستان میں ملازمت کرنے والی ، سکول ،کالج اور یونیورسٹی سے پیدل گھر آنے والی سب کے پیچھے عاشق لگتے ہیں ۔حجاب میں ہوں ،ڈوپٹے میں، سب کو چھیڑا جاتا ہے ۔

یہ گندگی گزشتہ بیس پچیس سال میں بتدریج آئی ہے اور اسکی جڑیں قانون و انصاف کی عدم فراہمی ،مساوی مواقعوں کی عدم فراہمی میں چھپی ہوئی ہیں ۔پختونوں کی ایک نسل تباہ کر دی ۔ سکول کالجوں میں نہ جانے والے کم عمر نوجوان اپنی فرسٹریشن کہاں نکالیں گے ۔؟

غربت ،بے روزگاری جس طرح عفریت کی طرح پھیل رہی ہے ان گھرانوں کے نوجوان اپنا انتقام لاشعوری طور پر کس طرح لیں گے ۔؟

چالیس سال کے دوران ملک کو معاشی اور اقتصادی طاقت بنانے کی بجائے مدارس کا جال بچھا دیا ۔یہاں سے فارغ ہونے والے طالبعلموں کیلئے ملازمتیں ہی موجود نہیں، یہ لوگ معاشرے کو مسلمان نہیں بنائیں گے تو کیا کریں گے ۔غریب آدمی غربت کی وجہ سے اپنا بچہ مدرسے بھیجتا ہے وہاں ان کے ساتھ دوسرے ساتھی طلبا اور مولوی جنسی زیادتی کرتے ہیں اور بیشتر کے ساتھ ضرور کرتے ہیں ۔ یہی شکار جب بڑے ہونگے تو اپنا بدلہ ضرور ہی لیں گے یا نفسیاتی مریض بنیں گے ۔

جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بھکاری کہنے والے خود تو جنوبی پنجاب کی قیمتی اراضی کوڑیوں کے مول الاٹ کر لیتے ہیں اور مٹی کے بیٹوں کو مولوی خادم حسین ایسوں کا مرید بنا دیتے ہیں کہ اپنے استاد کو توہینِ  مذہب کے نام پر قتل کرو یا بیلچہ پکڑ کر لاہور کی سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں ،اپنے بچوں کو اعلیٰ  تعلیم کیلئے مغربی ملکوں میں بھیج کر کہتے ہیں جنوبی پنجاب کے پورے خاندان بھیک مانگنے شہروں میں آجاتے ہیں ۔

انصاف کی منصب پر بیٹھنے والے پلاٹ الاٹ کراتے ہیں ۔ڈیم فنڈ کے نام پر پیسے چوری کرتے ہیں ۔خواتین کے ساتھ کسنگ کرنے والے یہ کہہ کر احتساب کرتے ہیں کہ ہم چہرہ نہیں دیکھتے ۔
جن لوگوں کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے وہ فخر سے کہتے ہیں میں شیو کرتے ہوئے ایک چمونے کا یوٹیوب پروگرام دیکھتا ہوں ۔ یہ پروگرام کیا ہوتا ہے ؟نواز شریف چور ہے ۔فضل الرحمٰن بھارت کا ایجنٹ ہے ۔اچکزئی ،منظور پشتین غدار ہیں ۔آصف علی زرداری دنیا کا سب سے بڑا چور ہے ۔

بار بار آئین اور قانون توڑا۔۔ میڈیا کی زبانیں بند کیں،سیاستدانوں کو چور ڈاکو مشہور کر کے ریاست پر حکمرانی کی ،عدلیہ پر من پسند منصف مقرر کئے ،تو پھر نتیجہ تو آئے گا ۔عوام ریاست کے محب وطن شہری نہیں بلکہ ہجوم بنیں گے اور موقع پاتے ہی اپنی محرومیوں کا بدلہ لیں گے ۔

معاشرے  کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ایک حصہ ٹک ٹاکر کو اور دوسرا حصہ لوگوں کو قصور وار قرار دے رہا ہے ۔
جن لوگوں نے ایرانی انقلاب سے خوف زدہ ہو کرشعیہ سنی فرقہ واریت کی بنیاد رکھی ۔ جن لوگوں نے پیپلز پارٹی سے ڈر کر ایم کیو ایم پیدا کی ۔ایم کیو ایم کو گرفت میں رکھنے کیلئے پنجابی پختون  اتحاد بنائے ۔جی ایم سید کو گلدستے بھجوائے ۔ جن قوتوں نے نواز شریف کو بینظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا ۔عمران خان کو نواز شریف کے خلاف استعمال کیا اور آصف علی زرداری سے سینٹ الیکشن میں بھیک مانگی ۔جن قوتوں نے کبھی نواز شریف کو اور کبھی عمران خان کو اپنا فخر بنایا وہی اس ملک کو بنانا ریاست بنانے کے  ذمہ دار ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ملک صرف آئین ، قانون اور جمہوریت کے ساتھ قومی یکجہتی کے  ذریعے قائم رہ سکتا ہے اور قوموں میں با وقار مقام بھی حاصل کر سکتا ہے ورنہ تاریخ پڑھ لیں ریاستیں اور قومیں کس طرح تباہ ہوتی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply