قصور کس کا؟۔۔سخاوت حسین

اقبال پارک واقعے کے بعد اکثر دیسی دانشوروں کی طرف سے ایک بازگشت مسلسل سننے کو ملی کہ لڑکی ٹک ٹاکر تھی۔ لہذا جو ہوا اسی کی ایما پر ہوا۔ ہر طرح کی تاویلیں دی گئیں۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس ظلم پر کھل کر بات کی مگر کچھ احباب ہمیشہ کی طرح دونوں طرف کھیلتے رہے۔ ابھی اس واقعے کے تناظر میں ایک دومزید ویڈیوز وائرل  ہورہی ہیں، جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم پارک میں موجود دوسری لڑکیوں کو بھی مال ِ غنیمت سمجھ کر حملہ کرنے کی کوشش کررہے تھا  اور   گارڈ ز نے  موقع پر   پہنچ کر ان کی جان بچائی۔

انہی ایام میں جب یہ واقعہ رونما ہوا تبھی  ایک لڑکی کو قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کے واقعات روزانہ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لڑکی خود کو محفوظ سمجھ سکتی ہے اور کیا مرد واقعی وحشت کی تمام حدیں پار نہیں کرگیا۔؟

کسی بھی پبلک پارک میں چلے جائیں۔ ریس کورس ، اقبال پارک، جناح باغ ہو یا پھر کوئی اور جگہ  ،وہاں کوئی لڑکی تین گھنٹوں کے لیے گھوم کر دکھائے۔ میں نے اکثر انہی پارکوں میں شریف زادوں کو لڑکیوں کے پیچھے پھرتے اور نمبر دیتے دیکھا ہے۔ کالج کے گیٹ کے باہر لمبی قطاروں میں لڑکیوں کا انتظار کرتے اور گلی محلوں میں انہیں ستاتے دیکھا ہے۔ عید کے ایام ہوں یا پھر جشن آزادی یا کوئی اور موقع یہ بے آبرو افراد حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ یہ اپنے آپے سے باہر نکل جاتے ہیں اور پھر جھولا جھولتی لڑکیاں ہوں، فیملی کے ساتھ گھومنے آئی کوئی شریف لڑکی ہو یہ کسی کو نہیں چھوڑتے اور ایسی ذہنیت اکثر مردوں کی ہے۔

آج بھی جیلانی پارک یا کسی بھی دوسری جگہ   جشن بہاراں کی وجہ سے میلہ لگا ہو تو کوئی بھی واضح سیکھ سکے گا کہ اگر وہاں کوئی لڑکی اکیلی چل رہی ہوگی تو دیکھیے کیسے یہ ہر موقع پر دوسروں کو نصیحت کرنے والی قوم اس لڑکی کے پیچھے نمبر کی پرچیاں اور پھبتیاں کستے ہوئے پاگل ہوئے دوڑتے چلے جائیں گے، وہ لڑکی اپنی عزت کو تار تار ہونے سے بچانے کے لیے ویسے ہی تیز قدموں سے چل رہی ہوگی جیسے بھیڑیے سے بچنے کے لیے کوئی جانور بھاگتا ہے۔

ملازمت کرتی لڑکی ہو تو ان کے نزدک وہ بھی مفت کا ہی مال ہوگی۔ میرے  ساتھ ملازمت کرتی خواتین بتاتی ہیں کہ کیسے انہیں     آتے جاتے  ہراساں کیا جاتا ہے۔ میٹرو بس میں سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑی ہوئی لڑکی ، اور اس سے لپٹنے کی چاہ اور کوشش کرتے شریف مرد کو وہ کیسے بھول سکے گی۔ وہ پلے کارڈ نہیں اٹھا سکتی۔ وہ اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو بیان نہیں کرسکتی۔ گھروں میں بسا اوقات اپنوں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنتی یہ عورتیں جو ساری زندگی خاموشی کا تالہ منہ پر لگالیتی ہیں اور وہ شریف زادے جو سارا دن گھروں میں پورن موویز دیکھ کر گھروں کی لڑکیوں پر پابندی لگا کر باہر جاتی کسی چھوٹی سی بچی کو بھی ہوس کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ وہ ایسے گدھ ہیں جن سے بچیاں تو دور چھوٹے بچے محفوظ نہیں۔

تو چلیے شاید یہ عورتیں/بچیاں ان قاری حضرات کے ظلم سے محفوظ ہوں  گی، مگر کچھ گِدھ تو وہاں بھی بیٹھے ہیں۔ وہاں بھی قرآن کی تعلیم لیتی بچیوں کو جنسی  ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسے کتنے قاری میڈیا کے سامنے بھی لائے گئے۔ کیا برقع پہنتی لڑکیوں کو یہ بخش دیتے ہیں۔؟ ایسا نہیں ہے۔ میری اپنی کئی کولیگ تھیں جو برقع پہنتی تھیں مگر شاید ان کے جسم کو یہ رزیل  بس چھو  کر  اپنی طرف سے محظوظ ہوتے تھے۔

یہ وحشی ہیں۔ زیادہ وحشت طاری ہو تو بچی کو زینب کی طرح قتل کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے اور دھڑلے سے اگلے دن پوسٹوں میں یہی لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں فساد کی جڑ عورت کا پردہ ہے۔ یہی لوگ لبرٹی ، ایم ایم عالم، یا کسی بھی بڑے پلازے میں کیسے انسانوں کی طرح چل رہے ہوتے ہیں۔ وہاں ان کی ہوس سے بھری آنکھیں اور رال ٹپکاتی زبان کنٹرول میں رہتی ہے۔ یہ جانتے ہیں وہاں کچھ بھی کریں گے تو بھگتنا بھی پڑے گا۔

ایسے گدھ زیادہ تر خاموش عورتوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اگر میٹرو میں یا ملازمت کے دوران یا کسی بھی جگہ کوئی عورت ان کو ایک تھپڑ ماردے تو یہ دوبارہ اس جانب رخ نہیں کرتے۔ لہذا عورت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جب تک وہ اپنی جوتیوں سے ایسے لوگوں کی تواضع نہیں کرے گی یہ باز نہیں آئیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کو کسی تقریر  کسی تحریر سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کی وجہ سے وہ مرد بھی بدنام ہوجاتے ہیں جو عورتوں کے سر کا تاج ہوتے ہیں۔ ان کا مان ہوتے ہیں۔ ان کے حقیقی محافظ ہوتے ہیں۔ ان کی لاج رکھتے ہیں۔ ایسے مردوں کا ایک ہی علاج ہے کہ ان کو قرار واقعی سزا دی جائے اورعورت مکمل بہادر بن کر ان کے سامنے کھڑی ہوجائے ۔ دوم عورت  کو مکمل انسان سمجھا جائے۔ ہر دفعہ ہر ظلم کو عورت کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے ،جو ہر دفعہ ہر ہونے والے ظلم کو عورت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ان کو بھی عبرتناک سزا دی جائے تاکہ معاشرے میں کچھ بہتری آسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply